حمد کی شعریات - سلیم شہزاد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2


مضمون نگار: سلیم شہزاد ( مالیگاؤں)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

حمد کی شعریات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

انسانی معاشرہ ، مہذب ہو کہ غیر مہذب ،کسی زمانے میں مذہب کے وجود سے خالی نہیں رہا ہے اور نہ کسی مذہب کو خدا کے تصور سے عاری قرار دیا جا سکتا ہے۔ مذہب کی معاشرے پر یہ فوقیت افراد کے ذریعے مذہبی روایات و رسوم کی تکمیل میں اپنا ثبوت فراہم کرتی ہے اور خدا کے تذکرے ، اس کی عبادت ، اس سے استمداد اور اسے خوش کرنے کے لیے اس کی تعریف و توصیف کے بغیر مذہبی روایات و رسوم کی تکمیل نہیں ہوتی۔خدا سے ہم رشتہ ہونے یا خدا سے ہم رشتہ کرانے والے یہ تعمیلات اس کی تحمید و تقدیس بیان کرنے کا بھی تقاضا کرتے ہیں چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے مذاہب میں خدا کی تحمید کی روایت پائی جاتی ہے۔ مختلف مذاہب میں تحمید و تقدیس بیانی کے مختلف نام، مراحل اور ذرائع ملتے ہیں۔ذیل کی سطور میں حمد کو اس کی مذہبی ،لسانی ، فنی اور صنفی جہات سے دیکھنے دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

لسانی ساختیے کے طور پر ’’ حمد‘‘ایک سہ حرفی مادہ ہے جس کے معنی دوسرے ایسے ہی سہ حرفی مادے’’مدح‘‘ کے معنی سے مماثلت رکھتے ہیں یعنی تعریف ، توصیف ، ثنا وغیرہ۔ پہلے لفظ کی صوتی و معنوی اصل بعض قدیم و جدید زبانوں تک پھیلی ہوئی ہے ، خاص طور پر یونانی ، لاطینی، انگریزی، فرانسیسی وغیرہ زبانوں تک اور ان زبانوں میں اس لفظ کا لسانی تفاعل وہی رہا اور وہی ہے جو عربی ، فارسی اور اردو میں ملتا ہے یعنی خدا کی تعریف۔یہ لفظ یونانی’ ہَمنوس‘(humnos)سے لاطینی’ ہِمنَس‘(hymnus)بنا اور فرانسیسی کے توسط سے انگریزی میں آکر’ ہِم‘(hymn) ہو کر رہ گیا۔عربی مادے ’’ حمد‘‘ کی پہلی دو آوازیں محولہ یورپی الفاظ کی دو آوازوں کے مماثل ہیں جن کے آخری صوتیے امتداد زمانہ نے مٹادیے۔عربی لفظ کی آخری صوت ایک دندانی صوتیہ یعنی / د/بن گئی جس کا مخرج یورپی صوتیوں / ن۔س/ کے مخرجوں سے قریب پایا جاتا ہے۔ یہ اشتقاقی تحقیق تقدیسی شاعری میں حمد کو کرۂ ارض کے مشرق و مغرب میں مستعمل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ خداکی تعریف ہر زماں اور ہر مکاں کو محیط کرتی ہیں اس لیے قرآن کریم کی تمہیدی آیت الحمد للہ رب العالمین کی زمانی و مکانی آفاقیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یہ آیت دنیا کی تمام قدیم و جدید زبانوں کے ادب میں حمدیہ اظہار کی انتہائی تعمیم ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

قدیم یونان میں حمد کی اصطلاحی تعریف کے پیش نظر کسی دیوی دیوتا یا ہیرو کی تعریف و توصیف پر مشتمل حمدیہ شاعری نئے مذاہب کے عروج کے ساتھ مختلف ملکوں کی تقدیسی شاعری بن گئی۔ یونان میں ’ہِمنوس‘تین معنوں میں مستعمل تھا (۱)کسی بھی قسم کا گیت (۲) دیوی دیوتا کی تعریف بیان کرنے والا گیت یا بھجن اور(۳) دیوتا کی تعریف میں کوئی خاص گیت۔پھر ان گیتوں میں تاریخی ؍ نیم تاریخی سورمائوں کی تعریف بھی شامل کر لی گئی۔یونانی شاعری میں اس صنف کے قدیم ترین نمونے ساتویں صدی قبل مسیح کے رزمیہ نگار شاعر ہومیروس یا ہومر کے کلا م میں نظر آتے ہیں۔ یہ کلام اس کی کلاسک نظموں ’’ ایلیڈ‘‘ اور ’’ اوڈیسی‘‘ کے بیان میں ’’ ابتدائیہ‘‘ کے طور پر شامل ملتا ہے۔اصل کلام میں ابتدائیہ نظموں کی شمولیت کی روایت قدیم طربیہ ڈراموں کی روایت رہی ہے جسے دنیا بھر کی بیانیہ شاعری کی روایت سمجھنا بے جا نہ ہوگا(اردو مثنویوں میں بھی حمد و نعت وغیرہ ابتدائیہ نظموں کی طرح شامل دیکھے جا سکتے ہیں )ان نظموں کو کورس اپنے مخصوص لباس میں اسٹیج پر پیش کرتا تھا۔یہ کورس آگے چل کر کلیسائوں اور خانقاہوں کی چیز بن گیا۔آج بھی زبور کی دعائیں پڑھنے والے کورس کے روپ میں اسے کلیسا کی اہم سرگرمیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کی خانقاہیں اذکار و وظائف اور قوالی کے راگوں سے گونجتی رہتی ہیںاور مندروں میں اجتماعی بھجن کیرتن اسی کورس کی مختلف ثقافتی مذہبی شکلیں ہیں۔

رومی ثقافت میں دیوتائوں کی تعریف و توصیف کے لیے زیر لب ادایگی کا چلن اختیارکیا گیا تھا۔معبدوں میں پجاریوں کے گروہ مخصوص آسن میں بیٹھ کر منہ ہی منہ میں حمدیہ کلام پڑھتے۔روم میں یہ خاموش کلام پجاریوں کا مشاہدہ کرنے والوں میں خوف بھی پیدا کردیتا اس لیے ان کی خاموش حمد کو لوگ جادو سے تعبیر کرنے لگے۔ انگریزی لفظ charmحمدیہ خاموش کلامی کے اسی تصور سے وجود میں آیا ہے جس کی اصل carmenہے یعنی مخصوص مفہوم اور مقصد کے حصول کے لیے ادا کیا گیا کلام۔ہندوستان میں اس لفظ کا مترادف ’’ تنتر‘‘ ہے جس سے ’’تانترک‘‘ بنا ہے اور تانترک کے عمل سے کون واقف نہیں؟تصوف کے باطنی سلسلوں میں خاموش کلامی کو ذکر خفی کے مماثل سمجھنا چاہیے۔مشرقی خطۂ زمین پر ہندوستان کئی مذاہب کی نشوو نما اور عروج و زوال کی آماجگاہ رہا ہے۔ ان میں ہندو مت کو سب سے قدیم خیال کیا جاتا ہے۔ اس مذہب کی چار کتابیں ؛رِگ وید،یجُر وید، سام وید اور اَتھرو وید حمدیہ نظموں سے خالی نہیں۔ ہر وید کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا پہلا حصہ منتر کہلاتا ہے اور یہی منتر حمد کے مترادف ہے۔منتروں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عبادت گزار بندوں کی آستھائوں اور آشائوں کو ایشور کے سمکش ارپن کرتے ہیں۔بشریات اور اسطوریات کے ماہرین نے ویدوں کی حمدیہ شاعری کو یونانی اور ایرانی تقدیسی شاعری سے قدیم تر قرار دیا ہے۔

کثیر الارباب مذاہب میںحمد و ثنا کے یہ تصورات آگے چل کر لوح و قلم سے دیواروں پر تراشے گئے نقوش تک پہنچ گئے۔حضرت عیسیٰ سے صدیوں پہلے یونان و روم ، مصرو عراق ،ہند و ایران وغیرہ کے معبدوں میں دیوی دیوتائوں کے بھجن گاتے پجاریوں کو تصویروں کے ذریعے پیش کیاجانے لگا:رومی کلیسائوں میں توریت کے واقعات ، مصر کے قدیم کھنڈروں کی دیواروں پر مصری دیوتائوں کے بھجن ، ہندوستا ن کے قدیم مندروں کی دیواروں پر دیوتائوں کے رزمیے اور ایرانی مصور مانی کی ’’ ارژنگ ‘‘ میں تصویروں ، مورتیوں اور تصویری خط کے ذریعے کائنات کی تخلیق کرنے والے کی تحمید و تقدیس کو مصور کیا گیا ہے۔

یہ مختصر جائزہ حمد کے تقدیسی شاعری ہونے کے لسانی ،تاریخی ، ثقافتی ، مذہبی وغیرہ عوامل کو سامنے لاتا ہے جو حمد کو ایک شعری صنف کے طور پر اجاگر کرنے میں معاونت کرنے والے عوامل ہیں۔

حمد کو ایک شعری صنف کے طور پر قبول کرنے میں اکثر و ہ ناقدین تکلف محسوس کرتے ہیں جو ادب و مذہب کے رشتے پر یقین نہیں رکھتے اگرچہ خود ادب یعنی شعر ، قصہ، ڈراما وغیرہ دنیا بھر کی زبانوں میں مذہب کے بطن سے پیدا ہوا ہے اور بے مذہب ناقدین اس تاریخی ثقافتی مظہر سے ہرگز ناواقف نہیں۔ اس کے باوجود مذہب اور ادب کا رشتہ ہر زمانے میں زیر بحث آتا رہا ہے۔ مابعدالطبعیات ، تصوف ، اخلاقیات اور فلسفہ علوم انسانی کے ایسے شعبے ہیں جو کئی زاویوں سے مذہب سے جڑے رہے اور جڑے ہوئے ہیں۔ان علوم کے موضوعاتی دائرے ایک دوسرے کو کاٹتے ضرور ہیں اور ایک کے بغیر دوسرے کے وجود کا تصور ناممکن سا نظر آتا ہے۔ ان اسباب کی بنا پر تقدیسی شاعری میںحمد جو مذہب کے رفیع و اعلا ترین موضوع اللہ ؍خدا؍ رب؍ ایشوروغیرہ کو اپنا موضوع بناتی ہے ، دراصل عظیم شاعری کا درجہ رکھتی ہے اس لیے حمد کی صنفی حیثیت سے انکار کرنا ممکن ہی نہیں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اردو میں حمد کی صنف فارسی اور عربی کے توسط سے آئی۔ اصطلاحی مفہوم سے قطع نظر یہ شاعری کی ایک اور اہم صنف قصدیے سے معنوی طور پر مترادف ہے مگر قصیدہ ایک مخصوص ہیئت میںکہا جاتا ہے جب کہ حمد کہنے کے لیے کوئی ہیئت متعین نہیں۔ اس لحاظ سے ہر حمد اللہ تعالیٰ کا قصیدہ ہے مگر ہر قصیدہ حمد نہیں ہوتا۔(البتہ ’’ حمد‘‘کے مادے میں ذرا سی تصریف سے بنا ہوا لفظ ’’مدح‘‘ لفظ ’’ قصیدہ‘‘ کا مترادف مانا جاتا ہے)اردو حمد دنیا کی اور زبانوں میں کہی جانے والی حمد کی طرح مذہبی شاعری ہے۔اس کا آغاز صوفیانہ اور فلسفیانہ خیالات کے شعری اظہار کی صورت میں ہوا لیکن مذہبیت ہر دور میں حمد پر حاوی رہی۔واضح رہے کہ صوفیانہ خیالات کبھی پوری طرح مذہبی نہیں ہوتے، ان پر فلسفیانہ رنگوں کی چھوٹ بھی ہوتی ہے اور تقدیسی شاعری میں حمد کا تقاضا ہے کہ سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت اس کے اظہار کی اساس رہے۔ چند مثالوں میں دیکھیے کہ حمدیہ شاعری میں تصوف اور فلسفہ کس طرح مذہب سے آمیز ہوجاتے ہیں۔ ؎

دیا چاند سورج کو نور و ضیا

فلک پر ستارے کیا خوش نما

سراج ؔاورنگ آ بادی کا یہ شعر خالص حمد کا شعر ہے یعنی اس کے ہر لفظ پر مذہبی ؍ قرآنی تاثر حاوی ہے جب کہ

عجب قادر پاک کی ذات ہے

کہ سب ہے نفی اور وہ اثبات ہے

شعر میں قادر پاک / مذہب

ذات / تصوف نفی و اثبات / فلسفہ

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

شعری لفظیات کا یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ حمد کہتے ہوئے شاعر پر مختلف علمی تصورات کا غلبہ تھا۔اور یہ اشعار

کہیں آپ معشوق ہو، گل ہوا

کہیں آپ عاشق ہو، بلبل ہوا

کہیں ہو کے لیلیٰ، ہوا جلوہ گر

کہیں آپ آیا ہے مجنوں ہوکر

کہیں روح ہوکر ، دکھایا جمال

کہیں ہوکے پتلی ، بنایا مثال

تصوف کے ہمہ اوست اور ہمہ از اوست کے ملے جلے فلسفے کو پیش کررہے ہیں۔ان اشعا ر کے فاعل میں اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے مگر یہ خالص تحمیدی اشعار نہیں ہیں۔صوفی (یا ان اشعار کا خالق سراجؔ)جب معرفت حق سے بہرہ مند ہوجاتا ہے تو فلسفی کی طرح خدا کے وجود پر مباحثے میں مشغول ہوجاتا ہے اور وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے حوالوں سے تصوف کے یہ مباحث بھی فلسفے کی بلندی کو چھونے لگتے ہیں۔جز و کل ، شاہد و مشہود اور من و تو کی غیریت کو مٹانے کے لیے صوفیا نے عشق اللہ کے رنگ میں رنگ جانے کو احسن قرار دیا ہے اور یہ رنگ گل و بلبل،شمع و پروانہ، ذرّہ و صحرا ، قطرہ و دریا وغیرہ کو مختلف صورتوں میں نہیں دیکھتا۔

محولہ بالاپہلا شعر دوبارہ پڑھیے۔ ؎

دیا چاند سورج کو نور و ضیا

فلک پر ستارے کیا خوش نما

اس شعر پر ، جیسا کہ کہا گیا ، مذہبی ؍ قرآنی تاثر حاوی ہے لیکن شعریت اس میں نام کو نہیں پائی جاتی۔سراجؔ کہتے ہیں کہ ۔ ؎

اللہ نے چاند اور سورج کو روشنی دی

اس نے فلک پر ستاروں کو خوش نما بنایا


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

یہ عام بیانات ہیں اور اللہ کی ذات پر ایمان رکھنے والا ہر فرد ان کی مطلق سچائی سے واقف بھی ہے۔ حمد کی شعریات کا تقاضایہ ہے کہ شاعر ان بیانات کو اس طرح نہ پیش کرے جیسا کہ عام افراد انھیں جانتے ، سمجھتے اور بیان کرتے ہیں۔شعری اظہار ان عمومی بیانات پر جو یقینا قرآن سے آتے ہیں شعریت کے رنگوں کا متقاضی ہوتا ہے، تبھی یہ فن کی ذیل میں آتے ہیں اور ان کی لسانی ؍ اظہاری قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ؎

جگ میں آکر اُدھر اِدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا

گر معرفت کا چشم بصیرت میں نور ہے

تو جس طرف کو دیکھیے ، اس کا ظہور ہے

میر درد ؔکے ان اشعار سے ہمہ اوست یا وحدت الوجود کا صوفیانہ فلسفہ صاف ظاہر ہے جس کے ڈانڈے ’’ اَدَوَیت‘‘ یعنی ’’ کن کن میں ایشور‘‘ کے ہندو تصور سے مل جاتے ہیں۔’’ معرفت کا نور ؍چشم بصیرت‘‘ جیسے استعارے یہاں شعریت کی حامل ترکیبیں ضرور ہیں لیکن شعر میں مرسلہ خیال خدا کے وجود کے اسلامی تصور سے متصادم ہے۔

ہمہ اوست کے بالمقابل ہمہ ازاوست یا وحدت الشہود کا نظریہ بھی حمد کے اشعار میں خوب خوب نظم کیا گیا ہے۔میرؔکہتے ہیں۔ ؎

تھا مستعار ،حسن سے اس کے جو نور تھا

خورشید میں بھی اس کا ہی ذرہ ظہور تھا

اس کے حسن سے یعنی نور مطلق سے ساری کائنات میں نور پھیلا ہوا ہے۔ سورج کی آب و تاب میں بھی اسی ازلی نور کا ایک ذرہ روشن ہے۔اس مضمون میں حمد الٰہی کا واقعی تصور منظوم ہو ا ہے لیکن میر ؔہی کے شعر ۔ ؎

اشجار ہوویں خامہ و آب سیہ بحار

لکھنا نہ تو بھی ہوسکے اس کی صفات کا

یہ قرآنی آیات کا محض ترجمہ نظم کردیا گیا ہے جسے ’’اللہ نے چاند اور سورج کو روشنی دی‘‘ جیسے عام بیان کے مترادف سمجھنا چاہیے۔اسی طرح۔ ؎ اے مصحفیؔ، کچھ کمی نہیں واں

جو چاہے سو مانگ، پر خدا سے

شعریت سے محروم لسانی تعمل ہے جسے حمد کا شعر سمجھا جاتا ہے۔

غالبؔ کے شعر ۔ ؎

ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود

قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں


اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

میں ہمہ اوست یا ادویت کے فلسفے کو نظم کیا گیا ہے۔شعریت اس شعر میں ضرور ملتی ہے لیکن تحمید کا پتا نہیں۔غالبؔ کی طرح ادویت کو ماننے والے ’’ اہل نظر‘‘ محسوس و مجسم ’’ کعبے‘‘ کو عام خیال کے مطابق ’’ قبلہ ‘‘ نہیں ، ’’ قبلہ نما ‘‘ سمجھتے ہیں یعنی (۱)قبلے کی سمت اشارہ کرنے والا اور (۲) قبلے جیسا کچھ۔ادویت یا افلاطونی عینیت کے مطابق کائنات کے مظاہر اصل نہیں ، اصل کے اعیان ؍ سایے ہیں۔ ہم بظاہر قبلے کی سمت رخ کرکے اپنی عبادتیں نذر کرتے ہیں لیکن ہمارا رخ دراصل عینی قبلے کی سمت ہوتا ہے یعنی ہمارا مسجود سرحد ادراک سے پرے پایا جاتا ہے۔ امیر ؔمینائی کا شعر ۔ ؎

محروم اس کے خوان تجلی سے کون ہے

حصہ ہر ایک آنکھ نے پایا ہے نور کا

تحمید اور شعریت سے بھرا ہوا ہے لیکن دو مصرعوں کے بیچ ہمہ ازاوست کا تصور شاعر نے جس طرح مقدر کر دیا ہے، اس کی داد دیے ہی بنتی ہے۔’’ تجلی‘‘ اللہ کی ذات کی طرف اشاری ہے کہ ہر چشم را از او حصۂ می رسد۔جگرؔ اپنے شعر۔ ؎

کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا

جس رنگ میں دیکھا تجھے، یکتا نظر آیا

میں کثرت میں وحدت یا کثرت ہی وحدت کہہ کر ہمہ اوست کے قائل نظر آتے ہیں۔دوسرے مصرع کے فقرے ’’ جس رنگ میں دیکھا تجھے‘‘ کا مخاطب اللہ تعالیٰ ہے تو اس کے رنگ کے حوالے سے یہ فقرہ قرآنی آیت ’’صبغتہَ اللہ ومِن احسنُ ومِنَ اللہ ِصبغہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔اردو لفظ ’’ رنگ ‘‘ اور فقرہ ’’ جس رنگ میں دیکھا ‘‘ کی شعریت نے پہلے مصرع کے فلسفیانہ علو کو زیر کرلیا ہے۔ میرـؔ کے محولہ شعر’’ اشجار ہوویںخامہ‘‘ میں بھی قرآنی حوالہ آیا ہے لیکن جیساکہ کہا گیا ، یہ محض ترجمے کا اردو شعری بیان ہے۔یہاں جگر ؔنے قرآنی آیت سے استفادے کو شعریت میں حل کردیاہے جس سے شعر کے رس کا مزہ دوبالا ہوگیا ہے اور حمد کی شعریات اسی فنکاری کی متقاضی ہے۔ صبیح ؔرحمانی کا شعر۔ ؎

وہی تو شام کی دہلیز پر سویرے تک

چراغ ماہ جلاتا، نجوم رولتا ہے

حمدیہ شاعری کے نہ صرف ایک قرآنی خیال(اللہ نے آسمان کو چاند ستاروں سے سجایا ہے) کی بلکہ جدید تر لہجے کو شعریت کے جلو میں رکھنے کی بھی مثال ہے۔


"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

ادب کی ادبیت یا شعر کی شعریت ہی ادب و شعر کی تخلیق کا واحد مقصد ہے۔ مذہبی، سیاسی،سماجی اور بہت سے انسانی غیر انسانی مقاصد ادب و فن کے توسط سے حاصل کیے جانے کی مثالیں یوں تو دنیا کے تخلیقی اظہارات میں پائی جاتی ہیںلیکن انھیں ایسے مقاصد کا حصول قرار دینا چاہیے جو ادب و فن کے لیے اضافی حیثیت رکھتے ہیں اور تقدیسی شاعری یعنی حمد ، نعت، منقبت اور مناجات کے شعری اظہار میں بھی اولیت اور فوقیت اظہار کی شعریت ، بیان کے حسن اور ماورائی کیف و سرور کے اکتساب کو حاصل ہے۔ یہاں اسلام سے ہم رشتہ متعدد تصورات جیسے تصوف ، تفقہ، تجرد، تفلسف اور سب سے بڑھ کر مسلکی تصورات شعری اظہار میں سرایت کر سکتے اور کرتے ہیں جیسا کہ گزشتہ مثالوں میں دیکھا گیا لیکن امیر ؔمینائی، جگرؔ اور صبیح ؔ رحمانی کے شعروں پر حاوی فنکارانہ تحمیدی رنگوں کے پیش نظر ثابت ہے کہ حمدیہ شاعری کے تقاضے کیا ہیں۔ہم تصوف ، فلسفے اور دیگر علوم کے دقیق مسائل سے متعارف ہونے کے لیے تقدیسی شاعری کی تخلیق نہیں کرتے اور نہ اس مقصد کے لیے اسے سنتے اور پڑھتے ہیں۔حمد و نعت تخلیق کرنے اور انھیں سننے پڑھنے کا اول و آخر مقصد روحانی جمالیات حظ کے سوا کچھ اور نہیں۔ ان معروضات کا حاصل :

۱) حمد مذہبی شاعری ہے۔

۲) حمدیہ اظہار کی مختلف ہیئتیں تمام مذاہب میں پائی جاتی رہی ہیں۔

۳) قرآن کی سورۂ فاتحہ کی پہلی آیت سے حمد کی زمانی و مکانی وسعتوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

۴) تصوف ، فلسفہ ، اسطوریات، نفسیات اور دیگر علوم حمد کو متاثر کرتے ہیں۔

۵) شعری اظہار میں حمد ایک موضوعی صنف ہے۔

۶) قصیدہ ہونے کے باوجود حمد ہیئتی / موضوعی صنف قصیدے کی ذیل میں نہیں آتی۔

۷) تقدیسی شاعری کی دیگر اصناف(نعت ، مناجات وغیرہ) کی طرح حمد نگاری اور حمد خوانی کا مقصد روحانی جمالیاتی حظ کا اکتساب ہے۔

وہ شعری تخلیق جس سے روحانی جمالیاتی حظ کا اکتساب کیا جاتا ہے یعنی حمد کس طرح صورت پذیر ہوتی ہے؟اب تک کی بحث سے کھل چکا ہے کہ اس تخلیق کا موضوع اللہ / خدا/ رب / ایشور کی ذات کو تسلیم کیا جاتا ہے جسے کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہے،کون ہے، کہاںہے، کب سے ہے، کیوں ہے، کیسا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کے جوابات مذہب کی راہ سے ملیں کہ فلسفے کی موشگافیوں سے آئیں یا تصوف کے پردوں سے ظاہر ہوں، سب کا رشتہ حمد کے موضوع کی ذات و صفات سے مربوط نظر آئے گا۔ قرآن اپنے اسلوب میں ان سوالوں کے جوابات دیتا ہے۔احادیث بھی رسول کریم ﷺ کے نطق با برکت میں یہ جوابات اپنے دامن میں رکھتی ہیںلیکن اللہ کا تصور یکسر ایک غیر مادی تصور ہے اور اس کے تعلق سے اوپر کے سوالات کے بھی ایسے جوابا ت نہیں ملتے کہ کوئی کہہ دے کہ یہ ہے اللہ! جب ذات خدا وندی کی شکل ، جہت، مقام وقوع وغیرہ کسی کے تجربے مشاہدے میں قطعی نہیں تو اب حمد کہنے والا کیا کرے؟اسی مقام پر ’’ باخدا دیوانہ باش‘‘ کا مقولہ اپنے معنوں کے ساتھ روشن ہوجاتا اور حمدیہ اظہار کا نام دیوانگی قرار پاتا ہے(جسے شاعر کے عالم جذب میں ہونے سے بھی مماثل کہا جاسکتا ہے)حمد کا شاعر اس دیوانگی کے اظہار میں حقیقت مطلق کو طرح طرح کے مجازی لباس میں دیکھنا اور دکھانا چاہتا ہے۔ اقبال ؔ کی بھی یہ خواہش ہے کہ کبھی حقیقت منتظر کو لباس مجاز میں دیکھیں۔اللہ تعالیٰ کو لباس مجاز میں دیکھنے کی خواہش ہی وہ دیوانگی ہے جس سے حمد کی شاعری صورت پذیر ہوتی ہے۔یہ صورت پذیری کسی مخصوص صنفی ہیئت کو قبول نہیں کرتی بلکہ اسے توڑتی ہے(دیوانگی کہاں کسی ثابت و سالم شے کو اپنی حالت پر رہنے دیتی ہے)یہ مذہبی (بلکہ اس مضمون کے لکھنے اور سننے پڑھنے والوں کے لیے اسلامی)فلسفیانہ ، صوفیانہ، صنمیاتی ،شعوری ؍ لاشعوری غرض ہر رنگ کو قبول کرتی اور ہر رنگ کا اظہار کرتی ہے۔ ایک پھول کا رنگ اس کے لیے ناکافی ہوتا ہے کیوں کہ صبغتہ اللہ کی حقیقت سے تو کوئی واقف نہیں مگر شاعر خود اللہ کے حکم سے اللہ کے رنگ میں اپنے وجود کو شرابور دوڑتا ہے اور یہ رنگ بسنتی، سبز،سرخ،سیاہ کوئی سا بھی رنگ ہو سکتا ہے(دیوانگی میں رنگوں کی پہچان کہاں ممکن ہے)


"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

حمد شعری اظہار کا وہ پیرایہ ہے جس میں اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے رنگوں کا ذکر کرتے ہوئے شاعرکا مرکوز نظر مخصوص ہوتا ہے مگر اس تخصیص میں اتنی وسعتیں ، گہرائیاں اور گیرائیاں پائی جاتی ہیں کہ ان کے آگے مِن دونِ اللہ جدا جدا ہر ذات اور اس کی صفت کی توسیع ، مبالغے اور غلو کے بعد بھی ہیچ نظر آتی ہے۔ تحمید کی سزا وار ذات باری کے اوصاف کے جلوو ں کو جب صبغتہ اللہ میں غرق شاعر نزول شعر کی شعوری و لاشعوری کیفیات میں محسوس کرلیتا ہے تو شعریات اس کے لیے کسی اصول کی پابندی کا نام نہیں رہ جاتا۔ راقم السطور نے کبھی انھی کیفیات کے زیر اثر بہت سی حمدیں صفحۂ قرطاس پر اتاری تھیں، باخدا دیوانہ باش کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اس نے غزل کی روایتی ہیئت کو توڑ کر اسے ایک آزاد ہیئت میں بدل دیا اور اس کا نام حمد غزلیہ رکھا۔اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

ریت دریاؤں کو آئینہ بنائے اللہ

آئینہ آب سے محروم کرے، آب ستارے کو سیاہی میں چھپائے اللہ

رنگ در رنگ مناظر پہ مسلط کرے شب ظلمت رنگ

اور شب دشت میں اک شمع جلائے اللہ

اِنّا زَیّنّا کی تفسیروں میں

آسمانوں کو ستاروں سے (زمینوں کو چراغوں سے) سجائے اللہ

برق،قندیل، شرر، چشم،گہر، اشک، ستارہ، جگنو

سارے الفاظ یہ روشن ہوں اگر ان میں کوئی موجۂ انوار بہائے اللہ

قم باذنی و انااللہ و اقرا کی جلا کر شمعیں

کبھی صیّون ،کبھی طور و حرا میں کلمہ اپنا جگائے اللہ

گاے کے سینگ پہ رکھی ہو، کسی ناگ کے پھن پر ہو کہ بہتی ہو کسی دریا پر

ہفت افلاک میں دھرتی کو گھمائے اللہ

کبھی تنکے کو ڈبو دے لیکن

کبھی سیلا ب بلا بھی ہو تو کشتی کو ترائے اللہ

ابر کیا ، سبز ہ و گل کیا، یہ ہوا کیسی ہے،کیسے یہ پری چہرہ لوگ

چار سوٗ پھیلے ہیں سائے ،اللہ

احدو الصمدو لم یلد ولم یولد

کوئی اس کا نہیں ، وہ سب کا ، تو پھر کیا ہے سوائے اللہ

یہ گویا عالم جذب کا کلام ہے۔ اس میں عروض کی سخت گیری کا لحاظ نہیں۔ اس کے چھوٹے بڑے مصرع مجذوب کی بڑ سے مماثلت رکھتے ہیں۔اس میں مذہب ہے : انا زینا؍ قم باذنی وغیرہ

تصوف ہے : چار سوٗ پھیلے ہیں سائے/ کیا ہے سوائے اللہ

فلسفے سے آئے ہوئے سوالات ہیں: ابر کیا ؍ سبزہ و گل کیا/ یہ ہوا کیسی ہے

صنمیات ہے : گاے کے سینگ/ ناگ کے پھن پر رکھی / دریا پر تیرتی ہوئی دھرتی

اس حمد غزلیے کا مقصد مذہب، تصوف، فلسفے اور صنمیات سے آپ کو متعارف کرانا نہیں لیکن فنی اظہار میں شعریت اور جمالیاتی رنگوں کی تخلیق سے ان کا معنوی تال میل حمد کی شعریات کے تقاضے کی تکمیل کی نشاندہی کرتا ہے اور یہی حمد نگاری کا اولین مقصد ہے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نئے صفحات
اس سال کی کچھ اہم کتابیں

اس سیکشن میں اپنے کتابیں متعارف کروانے کے لیے "نعت کائنات" کو دو کاپیاں بھیجیں