حمد ونعت کی کہکشاں کادرخشندہ سیارہ۔عارف منصور ۔ ڈاکٹرعزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

مضمون نگار : ڈاکٹر عزیز احسن۔کراچی

حمد ونعت کی کہکشاں کادرخشندہ سیارہ۔۔۔۔۔عارف منصور![ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Late Majid Khalil was known as generous and devoted person in literary circle. He expired after long ailment and his death news become shocking one for his friends. The article presented hereunder contains some memories shedding light on nice behavior and devoted approach towards extending co-operation for solving problems of his friends. His poetry was applauded by various critics in his life time. His particular attention was fixed.


بدھ ۱۶/ربیع الثانی ۱۴۳۷ھ مطابق، ۲۷/جنوری ۲۰۱۶ء کو ہم نے ماجد خلیل کی صورت میں علم و ادب اورحمدیہ و نعتیہ شاعری کا ایک روشن سیارہ عدم کی کہکشاؤں میں غائب ہوتے دیکھا تھا۔ اتوار ۲۷/ربیع الثانی مطابق، ۷/فروری کو اطلاع ملی کہ شعروادب اور حمد ونعت کی کہکشاں کا ایک اور سیارہ ’’عارف منصور‘‘ بھی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo


قمر وارثی صاحب نے فون پر خبر دی کہ لاہور میں عارف منصور انتقال کرگئے…تو میرا ذہن شعورکی رو (Stream of Consiousness)کے تابع ہوگیا ۔ یادیں خیالات کے سیلاب کی صورت اُمنڈ آئیں۔


سنہ ۱۹۹۲ء میں اسلام آباد سے کراچی تبادلہ ہوا تو میں نے اپنے غریب خانے پر نعتیہ مشاعرہ رکھا۔میرے استاد بھائی ، معراج جامی آئے تو ان کے ساتھ ایک صاحب تھے جن کا تعارف ’’منصور ملتانی‘‘ کے نام سے کروایا گیا۔ انھوں نے اپنی نعت پیش کی تو اس میں شاعرانہ ہنر مندی اور کلام میں پختگی محسوس کی گئی۔ بعد میں ان صاحب نے کراچی کی بیشتر محافل میں شرکت کی اوراپنے محبت آمیز رویے اور شعری شگفتہ بیانی کے باعث لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا۔ میں تو شعری نشستوں میں بہت کم جاتا ہوں لیکن منصور ملتانی جو بعد میں عارف منصور ہوگئے تھے، اکثر شعری نشستوں میں شرکت کرتے تھے۔ وہ بڑے زود گو تھے۔ ذوقِ مشاعرہ بازی نے انھیں پی ایچ ڈی بھی نہیں کرنے دیا۔ جامعہ کراچی میں پی ایچ ڈی کی سند کے لیے رجسٹریشن کروایا تو سات سال تک اپنا مقالہ جمع نہیں کرواسکے۔ کچھ تو بیماری کے باعث اور کچھ مشاعروں میں لازمی شرکت کی وجہ سے۔ بہر حال جامعہ سے انھیں مقالہ جمع کروانے کی مزید مہلت نہیں ملی اور وہ اعلیٰ تعلیم کے اعزاز کا خواب آنکھوں میں سجائے جانب ِ خلد سدھارے۔


عارف منصور جب اور جہاں ملتے ان کا مسکراتا ہوا چہرہ دوستوں کا استقبال کرتا ہوا نظر آتا تھا۔ دبستانِ وارثیہ کی ماہانہ شعری نشستوں میں ان کی شرکت زیادہ ہوتی تھی۔ قمروارثی صاحب کی طرف سے دی گئی ردیفوں پر انھوں نے بہت ساری حمدیں اور نعتیں کہیں۔ شعر گوئی کے سلیقے ، ردیف نباہنے کے ڈھنگ اور قافیہ پیمائی کے جمالیاتی اسلوب کے باعث ان کی تخلیقات ، داد و تحسین کے قابل ٹھہرتی تھیں۔


کراچی ائیر پورٹ پر سکیوریٹی کے انچارج تھے۔ ائیرپورٹ کے نزدیک انھیںبہت بڑے رقبے پر بنے ہوئے لان کا گھر ملا ہوا تھا۔ اس میں اکثر مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ دو تین مشاعروں میں ، میں نے بھی شرکت کی ہے۔ ان کی محبت کے باعث بڑی تعداد میں شعرا ان مشاعروں میں شریک ہوتے تھے۔ میں جب اسلام آباد میں تھا تو عارف منصورجب بھی کراچی سے وہاں جاتے، مجھ سے ضرور ملتے۔ اگر ان کی موجودگی میں کسی مشاعرے کا اہتمام کیا جاسکتا تو وہ اس میں شریک ہوکر مشاعرہ لوٹتے ہوئے نظر آتے تھے۔


ایک مرتبہ میری پھوپھی جے پور(بھارت) سے کراچی آئیں۔ میں اسلام آباد سے ان سے ملنے یہاں پہنچا اور جب وہ جانے لگیں تو میں نے عارف منصور سے کہا کہ مجھے اپنی پھوبھی کے ہمراہ ہوائی جہاز تک جانے کا پاس دلوادیں۔ انھوں نے فوراً بندوبست کردیا اور یوں میں بڑے اطمینان سے پھوپھی صاحبہ کو ہوائی جہاز میں سوار کرواکے آیا۔ یہ ان کی محبت اور خلوص کے ساتھ دوستوں کی خدمت کرنے کا عملی ثبوت تھا۔


مرحوم نے نعت رنگ میں کچھ مضامین بھی لکھے اور کتابوں پر تبصرے بھی کیے۔ ان کے ایک تبصرے پر صاحبِ کتاب کے دوستوں نے بڑا واویلا مچایا۔ خورشید ناظر کی کتاب’’ بلغ العلیٰ بکمالہٖ‘‘ پر نعت رنگ ۲۱ میں تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا:


’’شعری اعتبار سے انھوں(خورشید ناظر)نے ’نہ‘ اور ’کہ‘ کو دو حرفی یعنی بروزن ’منع[فع]‘ نظم کرکے نمایاں عیب پیدا کیا ہے۔ کیوں کہ اردو شاعری میں آتش کے زمانے سے ہی ’نہ‘ اور ’کہ‘ یک حرفی صوتکے طور پر نظم ہوتے آرہے ہیں۔ اس طرح انھوں نے بلا مبالغہ اپنے اس ’شاہ کار‘ کے سیکڑوں مصرعے بے وزن ؍ناموزوں کردیئے ہیں۔‘‘ (نعت رنگ ۲۱۔ص۶۰۴)


عارف منصور نے کتابِ ہٰذا میں اور بھی اغلاط کی نشاندہی کی تھی۔ بس پھرکیا تھا۔ پروفیسر عمران نے لاہور سے اور پروفیسر ڈاکٹر منور غازی نے سعودی عرب سے خطوط لکھ کر اپنے دوست مصنف کی اغلاط ماننے ہی سے انکا ر کردیا اور ’نہ‘ اور ’کہ‘ جیسے الفاظ کو اپنی دانست میں دو حرفی ثابت کرنے کے لیے عروض سے ناواقفیت کے باعث الٹی سیدھی تقطیع بھی کردی۔ عجیب بات کہ جن مصرعوں میں اساتذہء سخن نے یہ الفاظ یک صوتی حرف کے طور پر باندھے تھے ، انھیں بھی کھینچ تان کر دو حرفی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مثلا ً


لے پھرا میں کہاں کہاں دل کو

نہ لگائے گیا جہاں دل کو

(میر سوز)


نہ ملا رہ نفاق کے مارے

کیا کریں ہم وفاق کے مارے

ہوچکا حشر بھی حسن لیکن

نہ جیے ہم فراق کے مارے

(میر حسن)

(پروفیسر عمران،لاہور، نعت رنگ ۲۲، ص ۵۲۰)


خدائے سخن میرتقی میر کا صرف ایک شعر تقطیع کے ساتھ پیشِ خدمت ہے :


تشنہ لب مرگئے ترے عاشق

نہ ملی ایک بوند پانی کی


پروفیسر ڈاکٹر منور غازی نے اس شعر کی تفطیع ’’فاعلن فاعلن مفا عی لن ‘‘ کے پیمانے سے کرڈالی۔ (پروفیسر ڈاکٹر منور غازی، سعودی عرب، نعت رنگ ۲۲،ص۵۲۳)


ایک اور صاحب کامران جاوید عرفانی نے بھی اپنے خط میں عارف منصور کے موقف کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنی عروض دانی کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔ لیکن ان کا تجربہ بھی عروضی کسوٹی پر ناکام ٹھہرتا ہوا نظر آیا۔ بہر حال ان خطوط میں عارف منصور کو بہت زیادہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاگیا تھا۔ چناں چہ نعت رنگ کے شمارہ ۲۳ میں کچھ خطوط آئے۔ مجید فکری نے کرچی سے‘ عروضی شد بد نہ ہونے کے باوجود پروفیسر عمران، ڈاکٹر منور غازی اور کامران جاوید عرفانی کی حمایت کرڈالی(نعت رنگ ۲۳ ، ص۶۲۱) لیکن بھارت سے پروفیسر طلحہ رضوی برق(ایضاً ص۵۵۹) اور کراچی سے حافظ عبدالغفار (ایضاً ،ص۶۰۴)نے عروضی اوزان و بحور اور تقطیع کے اصولوں کا سہارا لے کر ان تینوں حضرات کو آڑے ہاتھوں لیا۔


ایسی صورت میں ‘نعت ریسرچ سینٹر کے لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ معاملہ بالکل علمی اور منطقی انداز سے فیصل ہو۔ لہٰذا میرے استاد بھائی‘ آفتاب مضطر ، جو جامعہ کراچی سے پی۔ ایچ ڈی کی سند کے لیے منظور شدہ موضوع ’’اردو کا عروضی نظام اور عصری تقاضے ‘‘ پر مقالہ لکھنے میں مصروف تھے (الحمدللہ! اب انھیں ڈکٹریٹ کی سند مل چکی ہے )، ان سے درخواست کی گئی کہ کچھ لکھیں ۔ انھوں نے دلائل اور باقاعدہ درست بحروں کی روشنی میں تقطیع کرکے ثابت کیا کہ ’نہ‘ اور ’کہ‘ دو حرفی نہیں بلکہ یک حرفی محسوب ہوتے ہیں۔(نعت رنگ ۲۳،ص۳۷۹)


عارف منصور کو جب وہ شمارہ ملا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ میں نے ان سے کہا کہ اس شمارے میں تمھار ا ذکر اتنی کثرت سے ہوا ہے کہ پورا شمارہ ’’عارف منصور نمبر‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اس شمارے کے تمام اخراجات تمھارے ذمے ہونے چاہئیں۔ اس پر انھوں نے ایک بھرپور قہقہہ لگا یا۔ غرض یہ کہ ان کا موقف درست ثابت کرنے کے لیے جو کاوشیں کی گئی تھیں انھیں دیکھ کر وہ باغ باغ ہوگئے۔ اس کے بعد ان پر اعتراض کرنے والے بھی خاموش ہوگئے۔

عارف منصور ،دبستانِ وارثیہ کے مشاعروں میں اکثر حمد اور نعت پیش کرتے تھے۔ جبکہ بیشتر شعراء صرف نعت ہی  سناتے تھے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ردیف نباہنے کی کوشش میں ہر سطح پر ہر شاعر کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یا تو ردیف کی روشنی میں شعر کہتے ہوئے موضوع…’’ نعت‘‘کا دامن چھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا ردیف بے کار پڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن چند شعراء ہمیشہ ہر ردیف کو سیلقے سے استعمال کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ایک آدھ شعر تو تقریباً ہر شاعر ہی ایسا کہہ لیتا ہے کہ اس پر اسے داد دی جاسکے۔ بہر حال قمر وارثی، ماجد خلیل اور عارف منصور امین بنارسی،تنویر پھول، آفتاب مضطر اور چند دیگر شعراء کی ردیف نباہنے کی کاوشیں اکثر و بیشتر کامیاب قراردی جاتی رہی ہیں۔


پچھلے پانچ برسوں میں ردیفوں کی بنیاد پر کی جانے والی حمدیہ شاعری کی کتاب ’’عرفانِ ربِّ کائنات‘‘ مرتبہ: قمر وارثی، میں راقم الحروف نے مقدمہ لکھا تھا۔ اس مقدمے میں،میں نے پہلی بار ایسے اشعار کا انتخاب کیا جن میں ردیف اپنی جگہ ’’ٹُھکی ہوئی‘‘ تھی اور اشعار کا نفسِ مضمون بھی ’’حمدصفتی‘‘ کا آئینہ دار تھا۔ اس انتخاب میں عارف منصور کے اشعار بھی آئے ۔ عارف منصورکے چند اشعار درجِ ذیل ہیں جن سے میر ے قائم کردہ معیار کی کسی حد تک تصدیق ہوتی ہے:


جب سے دھڑکن بنایا ترے ذکر کو

قلب ہے پاکے سچی خوشی مطمئن

عاجزی میں خاک ہوکر جس نے پہچانا تجھے

ایسے سالک کو عطا کرتا ہے ہر عظمت خلوص

جس میں تجھ سے تعلق کی تجدید ہو

قلب کو بخشتا ہے وہ مہلت سکوں

سب انسانوں کے حق میں خیر ہے از حکمِ رب صدقہ

بلائیں ٹال دینے کا نہ کیوں ٹھہرے سبب صدقہ

جب دل کی دھڑکنوں میں ترا ذکر آبسے

آتی ہے پھر سکوں سے بھری زندگی قریب

میں تجھ سے دور اتنا کہ کوئی نہیں حساب

تو اس قدر قریب کہ شہ رگ سے بھی قریب

اس کے در پر جھکو تو پاؤ گے

دہر میں عزو افتخار ضرور

ذکر اس کا کرو تو آتا ہے

گلشنِ زیست پر نکھار ضرور

تو نہ چاہے تو نہیں کھلتا کبھی بابِ قبول

تیری رحمت ہو تو پھر دل کی دعا لائے اثر

شعلہء عشق عطا کردیا ورنہ انساں

مشت بھر خاک تھا اس سوزِ نہاں سے پہلے

توجو چاہے آرزوؤں کا چمن پھولے پھلے

باغِ وحدت کی فضا میں فکر وفن پھولے پھلے

سجدہ ریزی کررہا ہے اب قلم،قرطاس پر

حمد کے پاؤں ثمر، نخلِ سخن پھولے پھلے

جب گواہی ہو ترے محبوب کی سچائی کی

بے زباں ہوکر بھی دے دیتا ہے ہر پتھر صدا

اسے چراغ جلانا سکھا دیا تونے

ہوا ہے راہبرِ بزمِ آب و گل ادراک

نوحؑ سے عیسیٰؑ تلک بھیجا بہ ہر عنواں کلام

تونے کامل کردیا پھر صورتِ قرآں کلام


ان تمام اشعار میں دوسرے مصرعے کا آخری لفظ یا مرکب الفاظ (خلوص، سکوں،صدقہ، قر یب ، ضرور،اثر،سے پہلے، پھولے پھلے، صدا، ادراک، کلام) ’’ردیف‘‘ کے طور پر تجویز کیے گئے تھے۔ بحر و قافیہ شعراء نے اپنی مرضی سے منتخب کیے تھے۔عارف منصور کے تمام اشعار میں ردیف کی بنت مناسب ہے اور اشعار کا مافیہ(content) بھی ’’حمد صفتی‘‘ کا عکاس ہے۔ حمد کے متون بھی کہیں براہِ راست حمدیہ آہنگ لیے ہوئے ہیں اور کہیں بالواسطہ حمدیہ مضمون پیدا ہوگیا ہے ۔


’’عرفانِ ربِّ کائنات‘‘ کے مقدمے میں میں نے کئی شعراء کے اشعار نقل کرکے تنقیدی منہاج ’’تقابل و موازنہ‘‘Comparison)) کی بنیاد پر درجہ بندی اور بین المتنی (Intertextuality) اظہار ات نمایاں کیے تھے۔ عارف منصور نے جب یہ مقدمہ پڑھا توپھولے نہیں سمائے اور کتاب کا نسخہ لاکر مجھے دیا جس پر انھوں نے اپنے قلم سے لکھا :


’’عزیز بھائی ڈاکٹر عزیز احسن کی نذر اس دعا کے ساتھ کہ ان کا قلم اور زیادہ روانی سے ہم عصر شعراء کو مسرت فراہم، کرتا رہے …

عارف منصور…۱۲؍جولائی ۲۰۱۴ء‘‘


نعتیہ ادب کی تخلیقی، تحقیقی یا تنقید ی سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کو انانیت سے گریز کرنا چاہیے۔ کوئی شخص بھی اپنی ہر تحریر کو نہ تو خامیوں سے پاک قراردے سکتاہے اور نہ ہی شعری تخلیق کے ہنگام ،اپنے مافی الضمیر کو پوری طرح الفاظ کا جامہ پہنادینے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ میں اگر دوسروں پر تنقید کرتا ہوں تو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں اور اگر کوئی خلوصِ نیت کے ساتھ شرعی، منطقی ‘لسانیاتی اور ادبی جمالیات کی رشنی میں کوئی صائب مشورہ دیتا ہے تو مجھے اس کا مشورہ قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا:


’’میں نے ۱۹۷۷ء میں ایک نعت کہی تھی جس کا مقطع تھا :


نعت کہنا ہی مرا مشغلہ بن جائے عزیز ؔ

جب لکھوں لذتِ دیدار چشیدہ لکھوں


ایک مرتبہ ندیم نیازی عیسیٰ خیلوی صاحب کی فرمائش پر یہی نعت انھیں لکھ بھیجی۔ انھوں نے خط میں لکھا کہ نعت اچھی ہے لیکن مقطع محتاجِ اصلاح ہے۔ ’’مشغلہ‘‘ نعت کے شایانِ شان نہیں ہے۔ لیکن اس عہد میں مجھے اپنے جہل کا ادراک نہیں تھا بلکہ معاملہ کچھ یوں تھا:


اک عمر سے ہے جہل پہ اپنے گمانِ علم (حمایت علی شاعرؔ)


چناں چہ میں نے ندیم صاحب کی رائے پر توجہ نہیں دی۔ کئی سال بعد ایک محفل میں بھائی منصور ملتانی (حال عارف منصور) نے اسی لفظ (مشغلہ) کی طرف توجہ دلائی۔ اللہ کا کرنا کہ اسی لمحے اس لفظ کا نعم البدل (appropriate alternate) سوجھ گیا اور میں نے لفظ بدل کر مقطع پڑھ دیا جو پسند بھی کیا گیا اور میں بھی مطمئن ہوگیا۔

نعت لکھنا ہی وظیفہ مرا بن جائے عزیزؔ

(افصح العرب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور میں…مشمولہ ’’ہنر نازک ہے‘‘ ،ص ۳۵)


الحمدللہ ! جس طرح میں نے اپنی کسی تحریر کو ہر زاویئے سے حسین جاننے اور منوانے کی کوشش نہیں کی اور دوستوں کے مشورے کو بیشتر سرآنکھوں پہ رکھا…اسی طرح میرے دوستوں میں عارف منصور تھے کہ شعر کہنے کی اچھی صلاحیت رکھنے کے باوجود اپنی کسی تحریر پر مشورہ لینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اسلام آباد کے قیام کے دوران میں مجھے عارف منصور کا ایک خط ملا جس کے ہمراہ ایک مسودہ بھی تھا۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت کے مکی اور مدنی ادوار کو سانیٹ کی صورت میں منظوم کیا گیا تھا۔ اب چوں کہ یہ تحریر پوری کی پوری محفوظ ہوجانی چاہیے اس لیے میں خط کا متن درجِ ذیل کررہا ہوں:


’’بسم اللہ الرحمن الرحیمO

عزیز بھائی! سلام مسنون!

یہ مسودہ ارسالِ خدمت ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ میری زندگی کی سب سے اہم کوشش ہے۔ اس کے لیے جتنی بھی اردو میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کتابیں موجود ہیں تقریباً سبھی سے استفادہ کیا ہے۔ اس لیے کوئی نام مقام یا زمانی ترتیب انشاء اللہ قابلِ اعتراض نہ ہوگی۔ باقی شعری کاوش کے طور پر اس کا مکمل اور باریک بینی سے جائزہ ضروری ہے۔ جو درستی آپ تجویز فرمائیں گے، بسروچشم قبول۔ آخر میں مقدمہ لکھنے کی درخواست ہے۔ اب آپ بسم اللہ کیجیے اور مجھے اجازت۔آپ کی طرف سے خصوصی توجہ کا منتظر……

عارف منصور /۱۷ مارچ ۲۰۰۹ء ‘‘

D-S- CAA COLONY

AIRPORT KARACHI


سانیٹ کا مسودہ دیکھنے کے کچھ دن بعدمیں نے چند مشوروں کے ساتھ واپس کردیا تھا لیکن مقدمہ لکھنے کے لیے مسودے کی تکمیلی ہیئت (Final Copy) کا مطالبہ کیا تھا۔ کراچی میں آنے کے بعد میں نے عارف منصور سے ملنے والا مسودہ پھر دیکھا اور ایک مقدمہ یا دیباچہ لکھ دیا۔ غالباً یہ بات بھی 2010 ء کی ہے۔ اپنی تقریظ کے ابتدائیے میں، میں نے لکھا تھا:


’’ابتدائی سانیٹ میں عارف منصور نے سیرت خیر الوریٰ لکھنے کے لیے، لطافت فن کے حصول کے لیے دعا کی ہے، وہ لکھتے ہیں:


لطافت فن کی ہوجائے اگر مجھ کو عطا ، لکھوں

الہٰی! حوصلہ دے سیرت خیرالوریٰ لکھوں!


الحمدللہ! ان کی یہ دعا اس طرح پوری ہوتی ہوئی نظرآئی کہ پوری کتاب میں واقعاتی سطح پر سانیٹ اس طرح پیش کیے گئے ہیں کہ فنی جما ل بھی ابھر کر سامنے آگیا اور تاریخی تسلسل بھی تمثیل کی صورت میں ظہور پذیر ہوگیا۔تاریخ میں واقعات کا بیانیہ ہوتا ہے۔لیکن منظوم تاریخ میں بیانیہ کو ادبی لب و لہجہ دینا ناگزیر ہوتا ہے ورنہ اس میں خواندگی کے لیے کشش نہیں رہتی۔ عارف منصور نے تاریخی واقعات کو منظوم کرتے ہوئے اس نکتے کو خاص طور سے پیش ِنظر رکھا ہے۔‘‘


اور پھر وہی ہوا جو ہمارے معاشرے کے کم وسیلہ لکھاریوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ سانیٹ کی شکل میں حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی منظوم سیرت شائع نہ ہوسکی۔ قمر وارثی صاحب نے بتایا کہ انھوں نے اس نادر تصنیف کی کمپوزنگ بھی کروادی تھی لیکن عارف منصور اپنے حینِ حیات اس کی کتابی صورت نہ دیکھ سکے۔ دیکھیے اب کب وہ کتاب منظرِ عام پر آتی ہے؟


قمر وارثی صاحب نے بتایا کہ دبستانِ وارثیہ کی جانب سے عمرہ ادا کرنے کی سعادت پانے والوں میں عارف منصور بھی تھے جن کو ان کی لگن، مدینہ منورہ سے پیار اور حمد و نعت لکھنے کی مسلسل ریاضت کے صلے میں عمرے کی دولت عطا ہوئی اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کا شرف ملا۔


پیر۲۷/ربیع الثانی ۱۴۳۷ھ، مطابق ۸/فروری ۲۰۱۶ء…عارف منصورکو کراچی میں آسودۂ خاک کیا گیا۔ عجیب بات… اتوار کا سارا دن اس انتظا ر میں گزرا تھا کہ میں اپنے دوست کی نمازِ جنازہ میں شریک ہوجاؤں گا۔ لیکن اللہ کی مشیت کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ صبح صبح فون آیا کہ میری خواہرِ نسبتی کی تین ماہ کی بیٹی(فروہ) جو کئی روز سے زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی اسے قیدِحیات سے رہائی مل گئی ہے۔ فوراً وہاں پہنچا ۔بچی کی میت ہسپتال میں تھی وہاں سے گھر اور پھر قبرستان …… بس اسی گردش نے مجھے عارف منصور کا آخری دیدار کرنے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی سعادت سے محروم رکھا۔ آفتاب مضطر ؔاور معراج جامی نے فون کیا تو انھیں میں نے اپنی بے بسی سے آگاہ کردیا۔


باتیں بہت ہیں۔ کہاں تک لکھوں؟…… عارف منصور ! تم جب بھی ملتے تھے اپنے تازہ اشعار ضرور سناتے تھے۔ تمہارا انداز داد طلب بھی ہوتا تھا اور تمھارے اشعار واقعی لائقِ تحسین بھی ہوتے تھے۔ میں تمھیں دل کھول کرداد دیا کرتا تھا……لیکن آج میں تمھیں اپنا کوئی شعر نہیں سناؤں گا ۔کیوں کہ مجھے غالب یاد آرہا ہے۔ شعر سنو! کتنا حسبِ حال ہے:


جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور ؟

کیوں ہے ناں…حسبِ حال ؟؟؟……داد نہیں دوگے؟

مطبوعہ: جسارت سنڈے میگزین، ۲۸؍فروری ۲۰۱۶ء