حفیظ تائب: عصر حاضر کے منفرد نعت نگار ۔ ریاض مجید

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از: ڈاکٹر ریاض مجید

حفیظ تائب : عصر حاضر کے منفرد نعت نگار[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حفیظ تائب اس دورِ نعت کے ایک اور منفرد شاعر ہیں، ان کی نعت ذوق جدید کی نمائندہ ہے، طرز احساس اور پیرایہء اظہار کے لحاظ سے بھی وہ نئے شاعروں کے زیادہ قریب ہیں، نعت گوئی جن بنیادی خطوط سے عبارت ہے ان میں احترام رسالت مآب اور جذبہء شیفتگی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ بقول ڈاکٹر وحید قریشی:

حفیظ تائب کا مجموعہ نعتیہ شاعری کا عام روایت سے ہٹ کر رسول مقبول سے عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے، انہوں نے عام نعتوں کی پیروی میں رسول پاک کی سراپے کو موضوع نہیں بنایا اور نہ ہندی شاعری کی روایت سے اثر لیکر حب رسول کو کرشن اور گوبیوں کی سطح پر محسوس کیا ہے، انہوں نے رسول اکرم کی ذات کو برقرار رکھا ہے اور محبت کے ساتھ اسوہ¿ حسنہ کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں، مجموعہ کی دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ یہ اشعار تائب کے نزدیک شخصی ثواب کمانے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اسے تخلیقی سطح پر محسوس کیا ہے، یہ کلام ان اعلیٰ لمحات کی روداد ہے جو کسی بھی بڑے شاعر کے لیے سرمایہ افتخار ہو سکتی ہے.... <ref> اردو میں نعت گوئی، مطبوعہ اقبال اکیڈمی، لاہور 1991ء </ref>

نعت کے موضوع سے حفیظ تائب کی تخلیقی وابستگی کے اثرات ان کے طرز اظہار میں نمایاں ہیں، سبک الفاظ کا انتخاب، مترنم بحور، جذبے کا رچاﺅ جو اس دور کے نعت گو شاعروں کے نمایاں اوصاف ہیں، تائب کے فن میں اپنی پوری دلاویزیوں کے ساتھ جھلکتے ہیں، ان کے ساتھ جذب و کیف اور اخلاص و گداز کے جوہر نے انہیں معاصر نعت نگاروں کی صف میں ممتاز و منفرد حیثیت عطا کی ہے۔ بقول سید عبداللہ:

”زبا ن و بیا ن میں کمال درجے کی شستگی اور شائستگی، سکون و سکونت اور برجستگی کے باوجود متانت جو لازمہ ادب ہے۔ آرائش کا یہ رنگ اور زیبائش کا یہ ڈھنگ صلوٰ اعلیہ وآلہٍ (تائب کا مجموعہ) میں ہر جگہ جلوہ افزا ہے....“۔ <ref> ایضاََ </ref>

حفیظ تائب کی نعت کا مرکزی موضوع آنحضرت کی ذات و متعلقات سے ارادت اور عقیدت مندی ہے مگر یہ عقیدت مندی آپ کی شان کی مدح و توصیف تک محدود نہیں تائب نے صاحب موضوع کے ارشادات و پیغامات اور مقاصد نبوت و بعثت نبوی کو، جو جدید نعت کی اصل خوبی ہے، مسلسل پیش نظر رکھا ہے، ان کی نعت گوئی اصلاحی اور مقصدی پہلو لیے ہوئے ہے، پاکستان اور ملت اسلامیہ کو در پیش مسائل کا اظہار جس شائستگی سے ان کی نعتوں میں ملتا ہے، دوسروں کے ہاں نظر نہیں آتا، مسلمانوں کی زبوں حالی، پاکستان میں سیاسی انتشار، اخلاقی و مذہبی قدروں کی پامالی سے مسجد اقصیٰ کے ماتم افغانستان میں روسی جارحیت پر نالہ و فریاد کے جو مضامین تائب کی نعت گوئی میں ملتے ہیں، ان کے سبب نہ صرف تائب کے فن بلکہ صنف نعت کو وسعت ملی ہے۔

دے تبسم کی خیرات ماحول کو، ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی....

جلنے لگے اب سرو و صنوبر مرے آقا ....یہ وہ نعتیں ہیں جو ملکی و ملی احساسات سے لبریز ہیں، تائب نے معاصر مذہبی، سیاسی اور معاشرتی مسائل و اقدار کو جز و نعت بنا کر صنف نعت کو وقیع اور وسیع کیا ہے، یہی وجہ ہے ان کا فن نعت غیر نعت گو شاعروں کے نزدیک بھی مقبول و پسندیدہ ہے، بقول احمد ندیم قاسمی:

”حفیظ تائب کی نعتیں پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے توسط سے وہ کائنات انسانی کے مثبت مطالعے میں مصروف ہے، زندگی کا مسئلہ اس کے موضوع سے خارج نہیں ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اس کائنات کی تخلیق ہی اس وجود گرامی کی خاطر ہوئی جو ختم المرسلین بھی تھا اور خاتم النبیین بھی اور جس کا پیغام صرف عرب یا صرف عجم کیلئے نہیں تھا بلکہ پورے کرہ ارض کے علاوہ کائنات کیلئے تھا....“ <ref> ایضاََ </ref>

حفیظ تائب کے ذوق نعت کا وہ پہلو جس کے سبب وہ معاصر نعت گو شاعروں میں منفرد ہیں، عصر حاضر میں نعت کے فروغ و ترویج کے سلسلے میں ان کی مساعی جملہ ہیں۔ انہوں نے نعت گوئی کے علاوہ مختلف مضامین اور انٹرویو وغیرہ کی صورت میں صنف نعت اور نعت گو شاعروں کو قارئین ادب سے روشناس و متعارف کرایا ہے، ادبی حلقوں اور نئے شاعروں میں نعت کا شوق ایک حد تک حفیظ تائب کی معیاری نعت گوئی اور صنف سے گہرے شفف کا نتیجہ ہے۔بقول احمد ندیم قاسمی:

”اس حقیقت کو اب تمام اہل فن کے ذہنوں پر آفتاب بن کر طلوع ہونا چاہیے کہ حفیظ تائب ہی نے اردو اور پنجابی نعت گوئی کو حیات نو بخشی ہے اور ہم سب لوگ جو کبھی کبھار نعتیں کہہ لیتے ہیں دراصل اسی کے مقلد ہیں.... “ <ref> ایضاََ </ref>

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حفیظ تائب | ریاض مجید

حواشی و حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]