حفیظ الرحمن احسن کی حمدیہ ،نعتیہ شاعری(ایک جائزہ) ۔ ڈاکٹر غفور شاہ قاسم

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat Kainaat Naat Rang.jpg

مقالہ نگار : ڈاکٹر غفور شاہ قاسم۔لاہور

برائے : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 26

حفیظ الرحمن احسن کی حمدیہ،نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

(ایک جائزہ)

ABSTRACT:

Hamd -o-Naat Poetry of Hafiz ur Rahman Ahsan has been analyzed in this article in order to show quality of expression and content. A detailed introduction of the poet has also been given here to highlight his pen work of prose and poems. All the writings of Hafiz ur Rahman Ahsan are Islamic thought oriented. His poetry of Hamd and Naat also carry contemporary sensibility. The unpublished literary work of Hafiq ru Rahman Ahsan is much more than his published books.

حفیظ الرحمن احسن ۹ اکتوبر ۱۹۳۴ء پسرور ضلع سیالکوٹ کے ایک معزز متوسط دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جناب عبدالعزیز صاحب کی کل آٹھ اولادوں میں حفیظ صاحب کا تیسرا نمبر ہے۔ ان کے گھر کا ماحول دینی تھا اس لیے ان کی دینی تربیت گھر پر ہی ہوئی۔ اُن کو شرافت، اعلیٰ اخلاق اور دین داری کا پہلا سبق اپنے بزرگوں سے ملا۔اُن کی شخصیت پر والدہ ماجدہ اور والد محترم دونوں کے نقوش مرتب ہوئے۔ یہ اُن کی خوش بختی تھی کہ گھر میں ان کو نہ صرف دینی بلکہ علمی و ادبی فضا بھی میسر آئی جس کی بدولت ان کے اندر چھپے ہوئے ادیب کی تربیت ہوئی۔ ان کے بچپن کے دور میں بچوں کے لیے ہفت روزہ رسالہ ’’پھول‘‘ شایع ہوتا تھا۔ ۱۹۳۵ء کے رسالہ ’’پھول‘‘ کا مکمل فائل گھر میں محفوظ تھا۔ چنانچہ انھوں نے اسے سارا پڑھ ڈالا۔ اس دور کے جن ادبی جراید سے وہ روشناس ہوئے اور کم عمری کے باجود ذوق و شوق سے پڑھے ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں:

ماہنامہ رومان، نیرنگِ خیال، ہمایوں اور ادبِ لطیف۔اس کے علاوہ دیوان سنگھ مفتون کا اخبار ’’ریاست‘‘ چراغ حسن حسرت کا ’’شیرازہ‘‘ اور حمید نظامی کا ہفتہ وار ’’نوائے وقت‘‘ باقاعدگی سے زیر مطالعہ رہے۔ یہ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ میٹرک کی عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ ملک کی بہت سی دینی ادبی شخصیات اور ان کے خیالات سے واقف ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنے دور طالب علمی میں ڈپٹی نذیر احمد، علامہ راشد الخیری، عبد الحلیم شرر، پریم چند، کرشن چندر، نسیم حجازی، نعیم صدیقی، شورش کاشمیری، میاں ایم اسلم کے علاوہ مولانا مودودی کو جم کر پڑھا۔ حفیظ الرحمن احسن نے مرے کالج سیالکوٹ سے گریجویشن کی اور ایم اے عربی اسلامیہ کالج سول لائنز سے کے سابق طالب علم سے پرائیویٹ پاس کیا۔ایم اے عربی کے امتحان میں انھوں نے تیسری پوزیشن اور درجہ امتیاز حاصل کیا۔ بعد ازاں انھوں نے ایم اے اُردو کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ ۱۹۵۹ء میں انھوں نے گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) میں عربی کے لیکچرر کی حیثیت سے تدریسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ ستمبر ۱۹۶۲ء میں تبدیل ہو کر گورنمنٹ کالج سرگودھا میں چلے گئے۔ ۱۹۶۳ء میں یہ عارضی ملازمت ختم ہو گئی۔ کیونکہ پبلک سروس کمیشن میں ایک دفعہ منتخب نہ ہو سکے اور دوسری دفعہ انٹرویو میں شریک نہ ہو سکے۔ چند مہینے بے کار رہنے کے بعد انھوں نے ستمبر ۱۹۶۳ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں عربی کے معلم کے طور پر دوبارہ ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۶۶ء میں مرے کالج کی ملازمت چھوڑ کر لاہور میں مستقل اقامت اختیار کر لی۔ یہاں ایک سال تک ’’اشاعت تعلیم‘‘ کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ (مذکورہ کالج کو ۱۹۷۲ء میں ہاشمی میموریل کالج آف کامرس میں ضم کر دیا گیا) ۱۹۶۶ء ہی میں انھوں نے اپنا اشاعتی ادارہ ’’ ایوانِ ادب‘‘ قائم کیا اوریہی مصروفیت اب تک چلی آ رہی ہے۔ تاہم ان دنوں اپنی علالت کی وجہ سے اپنے اشاعتی ادارہ کی طرف بھی ان کی توجہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ مرے کالج سیالکوٹ کالج میگزین کے طالب علم مدیر بھی رہے۔مرے کالج میں تدریسی فرائض سرا نجام دیتے ہوئے پروفیسر آسی ضیائی سے مسلسل مشورہ سخن کیا جس سے ان کو شاعری اور زبان کے بہت سے اسرار و رموز سے شناسائی حاصل ہوئی۔ جب ۱۹۶۶ء میں لاہور میں ا قامت اختیار کی تو طاہر شادانی جیسے اساتذہِ سخن سے مسلسل رہنمائی لیتے رہے۔

۱۹۷۰ء کی آخری سہ ماہی میں ماہنامہ ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ لاہور سے وابستہ رہے۔ اس مختصر دور میں بعض بہت اہم تحریریں لکھنے کا موقع میسر آیا۔ ۱۹۷۶ء میں لاہور سے جناب مظفر بیگ کی ادارت میں شایع ہونے والے ہفت روزہ ’’آئین‘‘ سے وابستہ ہوئے اور یہ وابستگی کئی سال تک قائم رہی۔ زندگی کے اسی دور میں انھیں ممتاز دینی شخصیت جناب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سے قربت کے مواقع میسر آئے۔ اس طرح ان کی شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں مولانا کے افکار، نظریات اور ان کی رفاقت کا بہت بڑاحصہ ہے۔

وہ ۱۹۷۶ء ہی میں جناب نعیم صدیقی کے ادارت میں شایع ہونے والے ادبی ماہنامے ’’سیارہ‘‘ کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ یہ وابستگی اب تک قائم ہے۔ اس وقت وہ اس ماہنامے کے اعزازی مدیر و منتظم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ’’سیارہ‘‘ ۱۹۷۶ء سے ضخیم ادبی اشاعتوں کی صورت میں شایع ہو رہا ہے اور اب تک اس کی ۶۰ خاص اشاعتیں سامنے آچکی ہیں۔

ان کی تصنیفات اور مُرتبات اردو ادب میں بیش قیمت اضافہ ہیں۔ گو انھوں نے بہت کم لکھا ہے لیکن جتنا بھی لکھا ہے بشمول نثر و نظم کے وہ ادبی چاشنی اور ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا حسین امتزاج ہے۔ اسے حالات کی ستم ظریفی کہا جائے یا معاشرے کی بے حسی کہ ان کی تصنیفات میں سے ابھی کئی ایک اشاعت کے مرحلے سے نہیں گزریں۔ ان کے شعری مجموعے اور دیگر نگارشات جو ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:

  • غبارِ خزاں ( فصلِ زیاں کے انداز کی غزلیں اور نظمیں)
  • نوائے راز( غزلیں ۱۹۵۶ء سے ۱۹۲۰ء تک)
  • ستارہ شامِ ہجراں کا ( ۱۹۹۸ء تک اور کچھ متفرقات)
  • موجِ سلسبیل ( حمدیہ شاعری)
  • رشحاتِ تسنیم (نعتیہ شاعری)
  • نغماتِ طفلی ( بچوں کے لئے نظموں کا جامع مجموعہ جو کلیات کی شکل میں چھپ سکتا ہے)
  • کلامِ احسنؔ ( متفرق منظومات)

ان کا مطبوعہ مجموعہ کلام ’’فصل زیاں‘‘ ہے یہ بے نظیر بھٹو کے دور اول پر بہ زبانِ غزل تبصرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے ایک تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ حفیظ الرحمن احسن نے نثری ادب پر بھی مقدور بھر کام کیا ہے لیکن ان تصنیفات کی اشاعت کا کام ابھی زیر التوا ہے۔ نثری کام کی تفصیل یہ ہے:

  • صراط مستقیم: دینی موضوعات پر ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والی تقریروں کا مجموعہ ہے۔ ان تقریروں کی تعداد (چھیاسی) کے لگ بھگ ہے۔
  • بُو قَلَمُوْں: متفرق دینی و علمی اور ادبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ ’’سیارہ‘‘ کی تحریریں بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔
  • اسلام کا سرچشمہ قوت:سید مودودیؒ صاحب کے ’’الجمعیتہ‘‘ کے ۱۹۲۵ء کے ادارتی مضامین جن کا پہلا ایڈیشن حفیظ الرحمن احسنؔ نے مرتب کیا ہے۔
  • ادارہ آفاق۔ لاہور: (تعلیمی اداروں کا وفاق) کے لیے کام جناب حفیظ الرحمن احسنؔ نے لگ بھگ دو سال کے متفرق منصوبوں پر تصنیف و تدوین اور نظرثانی کا کام کیا ہے۔ یہ کتب پہلی سے آٹھویں جماعت کی اردو اور اسلامیات کے نصابوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ کتب پر احسنؔ صاحب کا نام مختلف حیثیتوں سے درج ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ احسنؔ صاحب نے رسالہ ’’سیارہ‘‘ کے لیے ادارتی تحریریں بھی لکھیں اور تنقیدی و تجزیاتی مضامین بھی ۔ یہ تحریریں ان کے نثری سرمائے کا حصہ ہیں۔

حفیظ الرحمن احسنؔ کا حلقہ ادب لاہور سے گہرا تعلق قائم رہا۔ یہ حلقہ ۱۹۸۰ء میں قائم کیا گیا۔ اسے قائم کرنے والوں میں جناب سراج منیر، پروفیسر فروغ احمد ، سید اسعد گیلانی، جناب طاہر شادانی، ڈاکٹر تحسین فراقی، جناب جعفر بلوچ اور حفیظ الرحمن احسنؔ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ حلقہ پندرہ سال تک اپناکام کرتا رہا۔ ابتدائی دس سالوں میں ہفت روزہ اجلاس ہوتاتھا جبکہ آخری پانچ سالوں میں پندرہ روزہ اجلاس منعقد ہوتے رہے۔ ان اجلاسوں میں بڑی مثبت تنقید ہوتی تھی ( ادب کے حوالے سے)۔ اس حلقے کو لاہور کے ادبی حلقوں میں بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔

حمدیہ اور نعتیہ شاعری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حفیظ الرحمن احسنؔ ایک کہنہ مشق ادیب و شاعر ہیں۔ علمی و دینی گھرانے سے تعلق ہونے کی بناء پر انھیں حمدیہ اور نعتیہ شاعری سے خاص شغف ہے اور حمدیہ اور نعتیہ شاعری ان کے اسلوب کا خاص وصف ہے۔ اس فن میں ان کا جذبہ اور خلوص دونوں پاکیزہ اور کامل نظر آتے ہیں۔ انھوں نے حمدیہ و نعتیہ شاعری زیادہ تر غزل کی ہیئت میں کی ہے۔ اس حوالے سے ان کا مجموعہ کلام ’’موجِ سلسبیل‘‘ ہے جو ابھی اشاعت کے مراحل سے نہیں گزرا۔ مگر ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ مجموعہ چھپنے کے بعد اردو شاعری کے حمدیہ اور نعتیہ سرمائے میں ایک خوبصورت اضافہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کا موضوع اس قدر وسیع ہے کہ انسانی فکر و نظر اس کے ادنیٰ سے حصے کا بھی احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ انسان تو کائنات میں ایک حقیر سی مخلوق ہے۔ وہ رب ذوالجلال والا کرام کی تعریف و توصیف کا حق کیسے ادا کر سکتا ہے؟ انسان کا عمل محدود اور عقل محدود تر ہے۔ اس کی عقل تو اس قابل بھی نہیں کہ صفات ربانی کا مکمل ادراک ہی کر سکے۔ اس کا بیان تو بہت بڑی بات ہے۔ارشاد ربانی ہے کہ:’’ اگر دنیا کے تمام درخت قلمیں اور تمام سمندر روشنائی بن جائیں تو بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور صفات کی تعریف و توصیف کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ اگرچہ ان کے ختم ہونے کے بعد ایسے ہی سات سمندر روشنائی کے اور مہیا کر لیے جائیں۔تاہم انسان اپنی تمام کمزوریوں اور کم مائیگیوں کے باوجود اپنی بساط کے مطابق حمد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی توریف و توصیف کرتا ہے۔ اردو زبان میں حمد لکھنے کے لیے کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں بلکہ یہ شاعر کی مرضی پر موقوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے لیے وہ جو ہیئت چاہے منتخب کر لے۔

چنانچہ قصیدہ، غزل، مثنوی، قطعہ، رباعی، نظم معریٰ، آزاد نظم، مخمس، مسدس غرضیکہ شاعر حمد کے لیے کسی بھی ہیئت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ حمد قدیم ترین صنفِ سخن ہے۔ فنی اور تکنیکی انداز سے ہٹ کر دیکھیں تو کائنات میں خدا کی تعریف و توصیف کا آغاز تخلیق کائنات سے بھی پہلے ہوا تھا۔ تخلیق آدمؑ سے قبل خدا کے فرشتے شب و روز اس کی تعریف و توصیف اور تسبیح و تہلیل میں مصروف تھے۔ تمام کتبِ سماویہ خدا کی تعریف و توصیف سے لبریز ہیں۔ انسانی رُشد و ہدایت کی آخری کتاب ’’قرآن مجید‘‘ کا تو آغاز ہی حمدِ خداوندی ہے ہوتا ہے اور اختتام بھی۔ عربی اور فارسی شاعری میں حمد و مناجات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ اردو میں شاعروں نے اپنے دیوان ترتیب دیتے وقت حمدیہ اشعار سے ابتدا کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو میں حمد کی تاریخ اردو شاعری کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم شعرا نے بھی اس روایت کی پاسداری کی ہے اور خدا کی حمد لکھی ہے۔

حفیظ الرحمن احسنؔ نے حمدیہ شاعری کے لیے زیادہ تر غزل کی ہیئت استعمال کی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف مشتِ خاکی کے بس کا روگ نہیں اور اپنی اسی کم مائیگی کا ذکر کرتے ہوئے احسنؔ صاحب کہتے ہیں:

ہے اس کی حمد سے عاجز مری زباں کیا کیا

ثنا سے اس کی ہے قاصر یہ خوش بیاں کیا کیا

انھوں نے اللہ تعالیٰ کی ثنا کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کی عقیدت اور جذبہ خلوص کے ترجمان ہیں۔ انھوں نے صرف رسماً ہی حمدیہ شاعری نہیں کی بلکہ اس موضوع پر ان کا قلم خلوص و عقیدت سے بارگاہ ایزدی میں سجدہ ہائے نیاز ادا کرتا نظر آتا ہے۔

مجھے فکر سود و زیاں ہو کیوں ، سر کاہش دل و جاں ہو کیوں

ترا فیصلہ مرا فیصلہ ..... جو تری رضا ، وہ مری رضا

ترا ذکر میری اساس ہے ، ترا شکر میرا لباس ہے

ترے در پہ سجدہ گزار ہے مرا ہر نفس ، مری ہر نوا

حمد کی ایک صورت مناجات کہلاتی ہے۔ حمد اور مناجات دونوں میں اگرچہ اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف ہوتی ہے لیکن مناجات کا انداز دعائیہ اور التجائیہ ہوتا ہے۔ احسن کی متعدد حمدیہ غزلوں میں مناجات کا رنگ نمایاں ہے۔ جس میں وہ بڑی عاجزی و انکسار سے اللہ تعالیٰ سے طلبِ رحمت کرتے نظر آتے ہیں۔

تیری رحمت کا آسرا چاہوں

اور پھر اس کے بعد کیا چاہوں

تیری چوکھٹ پہ جا کے بیٹھا رہوں

قُرب کا تیرے سلسلہ چاہوں

۔۔۔۔۔۔

تو ہی میرے دل میں مکیں رہے ، رگِ جاں سے بھی تو قریں رہے

ترے در پہ میری جبیں رہے ، یہی طلب ، یہی التجا

مرے حال پر بھی ہو اک نظر ، میں ہوں تیرا احسنِ بے ہنر

ترے نام سے ، ترے نام پر ....... میری ابتدا میری انتہا

موجودہ دور ابتری اور زبوں حالی کو دور ہے۔ حالات پہلے کبھی اس طرح نہ بگڑے تھے۔ تمام معاشرتی ، تہذیبی اقدار مٹ کرنا بود ہو چکی ہیں۔ مسلم ممالک کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ احسن بھی اسی معاشرے کے فرد ہیں اور بہ حیثیت شاعر حالات کی اس ستم ظریفی پر ان کا دل کڑھتا ہے۔ چنانچہ وہ مولا کریم کی نگاہِ التفات کے منتظر ہیں۔

ہیں بحر و بر فساد کے مسکن بنے ہوئے

ہر سُو ہیں مکر و زُور نے جالے تنے ہوئے

ٹوٹیں گے کب تمدنِ حاضر کے سومنات

اے ربِ کائنات!

جورو ستم کی گرد سے راہیں اٹی ہوئیں

بارود کے دھویں سے فضائیں پٹی ہوئیں

کیوں چھا رہی ہے زیست پہ غم کی سیاہ رات

اے ربِ کائنات!

ادبی اصطلاح میں ’’نعت‘‘ کا لفظ سرکارِ دو عالم سید المرسلین رحمتہ للعالمین جناب محمد مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف و توصیف اور مدح کے لیے مخصوص ہے، نعت دراصل ایک مسلمان کی طرف سے سرکارِ دو عالم کی بارگاہ میں عقیدت کا نذرانہ ہے۔ کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ رسول کو اپنی ذات، ماں باپ، اولاد، مال و دولت، جاہ و حشمت اور دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب نہ رکھے۔

نعت گوئی کا آغاز عربی زبان میں رسول اکرم کی حیات طیبہ میں ہی ہو گیا تھا۔ مشرکین کی ہجو گوئی کے مقابلے میں حضرت حسانؓ بن ثابت انصاری آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے محاسن و محامد بیان کرتے اور کفار کی بد گوئی کا جواب دیتے۔ یہ دراصل صحابہ کرامؓ کی آپ سے محبت و عقیدت کا تقاضا تھا۔ بعض مواقع پر ابو سفیان کی ہجو گوئی پر خود حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت حسانؓ کو حکم دیا کہ اس کا جواب دیں۔ چنانچہ حضرت حسانؓ کے نعتیہ قصائد عربی ادب کا انمول اور قابل قدر خزانہ ہیں۔ آپ کے محامد کے ذکر میں حضرت حسانؓ کے یہ اشعار آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔

وَاَجْمَلَ مَنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ

وَ اَحْسَنَ مَنْکَ لَمْ تَلِدِ النّساَء

خُلِقْتَ مُبَرَّاَ مَنْ کُلِّ عَیْبِِ

کَاَنَّکَ قَدْ خُلَقْتَ کَمَا تَشَاء

( اے نبی! آپ سے زیادہ خوبصورت میری آنکھ نے آج تک نہیں دیکھا اور آپ سے زیادہ حسین کسی عورت نے جنم ہی نہیں دیا۔ آپ ہر قسم کی کمی اور خامی سے پاک و مبرا ہیں۔ گویا آپ کی تخلیق آپؐ کے پسندیدہ محاسن کے ساتھ کی گئی ہے۔)

کم و بیش بائیس صحابہ کرامؓ اور حضرت عائشہؓ اور حضرت فاطمہؓ الزہرا کے نعتیہ اشعار عربی ادب کی آج بھی زینت ہیں۔ کعبؓ بن زہیر امام بوصیریؒ اور احمد شوقی کے قصائد نعت میں قابل قدر سنہری باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فارسی میں عطار، انوری، سعدی، عرفی مولانا رومی اور مو لانا جامی کی نعتیں مشہور خلائق اور زبان زد عام ہیں۔

اردو شاعری بھی فارسی کے زیرِ سایہ ارتقا کی منازل طے کرتی رہی ہے۔ چنانچہ نعت گوئی کی روایت اسے فارسی ہی سے ملی ہے۔ اردو میں سب سے پہلے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے نعتیہ اشعار منظر عام پر آئے۔ اردو کے تمام شعرا بلا تخصیص مسلم و غیر مسلم نے اپنی مثنویوں اور دیوانوں کی ابتدا میں بطور تبرک نعتیں لکھیں۔ اردو میں بطور خاص خواجہ میر درد، امیر مینائی، مولانا ظفر علی خان، ماہر القادری، بہزاد لکھنوی، حافظ مظہر الدین، نعیم صدیقی، احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، مظفر وارثی، عبدالعزیز خالد، اعظم چشتی اور محمد علی ظہوری نے خصوصی طور پر نعت پر توجہ دی۔ محسن کاکوروی اور امیر مینائی کا سارا کلام نعت کے لیے مخصوص ہے۔ مولانا حالی اور علامہ اقبال کا نعتیہ کلام بھی اپنی فن نزاکتوں، عقیدت و احترام اور محبت و الفت کے جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے۔

حفیظ الرحمن احسنؔ سچے عاشقِ رسول ہیں اپنے بے پایاں عشق کا اظہار انھوں نے اپنی نعتیہ شاعری میں انتہائی عجز و انکسار کے ساتھ کیا ہے۔ وہ حضرت محمدکی ثنا کے لیے الفاظ کا چناؤ بڑے سوچ بچار کے بعد کرتے ہیں۔ وہ واقعات اور مناظر کی تصویر کشی اس طرح کرتے ہیں کہ قاری پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

گونجا ہوا ہے ان کا ترانہ مکاں مکاں

دہرا رہی ہے ان کا فسانہ اذاں اذاں

ہے جلوہ گاہِ طُور کا عالم وہاں وہاں

پہنچا ہے اُن کا نورِ بنوت جہاں جہاں

آئے جب آپ پھیلے اجالے اُفق اُفق

ہر منظرِ جمال تھا پہلے دھواں دھواں

احسنؔ تمہی نہیں ہو ثنا خوانِ مصطفی

کرتی ہے ان کا ذکر مبارک ، زباں زباں

ان کی نعت کا صوتی آہنگ اور طرز ادا اتنی خوبصورت ہے کہ روح سرشار ہو اٹھتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ:’’ آپ کا اسوہ تمام بنی نوع انسان کے لیے نمونہ ہے۔‘‘ دورِ حاضر میں ترقی اور ذرائع ابلاغ کی اہمیت کے نام پر معاشرے میں جو بے راہ روی نظر آتی ہے، احسنؔ اس سے خائف تو ہیں لیکن وہ اپنے رب سے پُر امید بھی ہیں کہ ظلمت کا اندھیرا ضرور چھٹے گا اور ان کا یہ رویہ بہت صحت مندانہ ہے۔

بھٹک رہے ہیں سفینے محیطِ ظلمت میں

منارِ نورِ نبی کا نظام ٹھہرے گا

وہ دن قریب ہیں جب ہر نگاہ کا مقصود

جمال اسوۂ خیرالانامؐ ٹھہرے گا

برائے تشنہ لباں ، لطفِ ساقی کوثر

مدارِ گردشِ کاسُ الکرام ٹھہرے گا

انسان خطا کا پتلا ہے۔ بشری کمزوریاں ہر انسان میں ہوتی ہیں۔ احسن اپنی کمزوریوں کی پردہ داری نہیں کرتے اور یہی ان کی کسر نفسی منکسر المز اجی کی دلیل ہے۔

بے نیاز متاعِ دنیا کر

بندۂ حرص ہوں ، غنا چاہوں

کر عطا مجھ کو دولتِ اخلاص

ہوں مریضِ ہوس ، شفا چاہوں

پاؤں توفیقِ اتباعِ رسول

الفتِ شاہِ دو سرا چاہوں

اور ان کا یہ شعر ( اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ) کی کھلی تفسیر ہے۔

جو کٹے مجھے سے ، جُڑوں اس سے

سب سے الفت کا رابطہ چاہوں

موجودہ دور میں ہر طرف افراتفری، نفسانفسی اور اخلاقی پستی کا عالم نظر آتا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ گزشتہ دو صدیوں میں انسان نے مادی اور سائنسی میدان میں بہت حیران کن ترقی کر لی ہے۔ لیکن اس کی روحانی ،ذہنی اور شخصی گراوٹ، پستی اور بدحالی کا گراف بھی بہت اونچے درجے پر پہنچ چکا ہے۔

حفیظ الرحمن احسنؔ کا حمدیہ اور نعتیہ شاعری پر مشتمل مجموعہ ؔ ؔ موجِ سلسبیل‘‘ روحانی زبوں حالی کے دور میں ایک اچھی کاوش ہے اور بگڑئی اخلاقیات کو صحیح نہج پر لانے کے لیے ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ ہمارے مانگنے سے بھی بڑھ کر نوازتا ہے۔ بشرطیکہ مانگنے کا طریقہ پُر خلوص اور ریاکاری سے پاک ہو۔ احسنؔ کی حمدیہ شاعری اسی خلوص کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

جہاں تک ان کی نعتیہ شاعری کا تعلق ہے تو ان کی نعتیہ شاعری بھی معیارِ اعلیٰ پر فائز نظر آتی ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جس ذات باری تعالیٰ کے محبوب ہیں، اس ذات نے خود اپنے محبوب کی مدح سرائی کی ہے اور اپنے بندوں سے بھی تقاضا کیا ہے کہ اس کے محبوب کی بڑھ چڑھ کر تعریف و توصیف کریں۔ شاعروں اور ادیبوں نے جہاں محبوب مجازی کی مدح سرائی میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے ہیں، وہیں احسن جیسے آشفتہ سر عاشقوں نے اپنے محبوب سرورِ کونین کی تعریف و توصیف کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔

اخذو استفادہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ حفیظ الرحمن احسنؔ ،موجِ سلسبیل ( حمدیہ شاعری)

۲۔حفیظ الرحمن احسن،رشحاتِ تسنیم(نعتیہ شاعری)