حضور مفتی اعظم شعر و سخن کے آئینے میں ۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار: ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری

حضور مفتی اعظم شعر و سخن کے آئینے میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عقیدت ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اے نوریؔ

سخن سنج و سخنور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو

میں آج ایسی شخصیت کے فکر لطیف پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوںجن کا دیدار میرے نخل زندگی کیلئے فصل بہار … جنکی ملاقات میرے دیدہ و دل کیلئے حاصل کائنات …جن کی گفتگو میری بزم تخیل کی آبرو… جن کا ادنیٰ سا اشارہ میرے چرخ آرزو کا روشن ستارہ … جن کے خلوص و محبت کا ہر انداز میری قسمت کیلئے باعث اعزاز جن کی غلامی کی سعادت میرے لئے خلاق دو عالم کی مخصوص عنایت … جن کے قول و فعل، صورت و سیرت اور فضل و کمال کی یاد میری کتاب ہستی کی جاں نواز رود ادہے ، آپ ہیں شہزادۂ اعلیٰ حضرت ، تاجدار اہلسنت ، حضور مفتی اعظم ہند مولاناالشاہ آل الرحمن مصطفیٰ رضا خاں قادری نوری بریلوی رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا ۔

خدا وند قدوس نے اپنے محبوب ، تاجدار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بعض مخصوص بندے کو ایسی رفعت وعظمت عطا فرمائی اور انہیں فکر و نظر کچھ ایسی رنگار نگ بخشی جو ہر دور میں شمع توحید کے پروانے ، اور جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے رہے ، جو اپنی جلوت کو گرمیِ کردار او رخلوت کو شوقیِ گفتار سے ایسا تابناک رکھتے تھے کہ اس شبستان سے اٹھنے والی خوشبو سے مشام کائنات خود بخود معطر ہوتا رہتا تھا ۔ شمع بزم سنن ، ماحیِ شرو فتن ، محور فکر و فن ، تاجدارا قلیم سخن ، حضور مفتی اعظم رضی اللہ عنہ انہیں نفوس قدسیہ میں ایک باوقار ، پر بہار ، اور نابغۂ روزگار شخصیت کے حامل تھے ۔ اگر ہم ماضیِ قریب کے اور اق پرایک طائر انہ نظر بھی ڈالتے ہیں تو حضور مفتی اعظم کی شخصیت علم وفن کے باب میں نیر درخشاں ، اور شعر و سخن کی فصل میں بدر کامل بن کرطلوع ہوتی ہے … حضور مفتی اعظم جہاں زندگی کے ہر پہلو میں فقیدالمثال ، نادرروز گار اور نازش باغ و بہار ہیں وہیں شعر و سخن کے آئینے میں بھی دیکھئے تو شعر کی زلف برہم سنوارتے ، اور سخن کے عارض پرغازہ ملتے نظر آتے ہیں … یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی قندیل شعورو آگہی سے ظلمات فکر و نظر کے دبیز پردہ کو چاک کیا ، اور گم گشتگان راہ کو نشان منزل اور شمع ہدایت عطا کی ۔ اور میں تو اسے اپنے آقا کا فیض اور اپنے مرشد برحق کی کرامت ہی کہوں گا کہ ایک ایسا نحیف و ضعیف انسان جس کے دوش نا تواں پر ہمہ رنگی ذمہ داریوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ، افتا، اصلاح امت ، بیعت وار شاد ، پندو نصیحت، جلسے جلوس میں شرکت ، دعا تعویذ ،ملکی و ملی مہمات وامور ، احکام شرع کا التزام، فرائض منصبی کا بھرپور لحاظ ، اس کے علاوہ دیگر ناگاہ در پیش آجانے والے معاملات ، آخر کب ، اور کیسے انہیں سکون کا وقت میسرآیا جس سے ان کی نعتیہ شاعری کا کیف بار دیوان ہمارے سامنے ہے … شاعری بھی ایسی جواز ابتدا تا انتہا نغمۂ توحید ربانی و زمزمۂ توصیف رسول لاثانی میں سر شار ہے اورجس میں آنے والی نسلوں کیلئے مکمل ضابطۂ حیات و شعور زندگی پنہاں ہے … یہ علائم بولتے ہیں کہ حضور مفتی اعظم کی عبقری شخصیت ، متحرک ذہنیت ، جدید تخیل کی علمبردار ، اور قدیم طرز فکر کی آئینہ دار ہے … آئیے پہلے آپ کے شاعرانہ محاسن پر ایک سرسری نظر ڈال لیں ۔سوزوگداز اشعار کی روح رواں ہے جو آپ کے یہاں بدرجۂ کمال ہر دم جواں ہے ، عارف شاعر کے کلام میں سوز و گداز کی فراوانی ایک فطری عطیہ ہے کیوں کہ عارف جو کچھ کہتا ہے وہ دل کے نہاںخا نے سے نکلی ہوئی آواز ہوتی ہے اور جوآواز احساسات اور قلبی جذبات سے ٹکراکر پیدا ہوتی ہے وہ بلیغ اور موثر ہوتی ہے ، ان کے تخیل کی بلند پروازی، فکری بصیرت ، فنی تجربے ، لطافت طبعی ، تقدیس خیالی ، اور شاعرانہ عظمت کو دنیا فراموش نہیں کرسکتی … شعلوں سے شبنم نچوڑنے کی خواہش انگاروں کو پھول بنانے کا خواب ، مہمات فکر و نظر کی تاریخ کالب لباب یہی توہے ، دیکھئے ایک باکردار شخصیت کا جامع شاعر کس طرح اپنے کلام کو اس پیام کے نور سے معمور کرتا ہے ، توحید باری عزاسمہ میں ان کے خلوص اور وارفتگی کا اندازہ لگائیے ؎

طائران جناں میں تری گفتگو

گیت تیرے ہی گاتے ہیں وہ خوش گلو

کوئی کہتا ہے حق کوئی کہتا ہے ہوٗ

اور سب کہتے ہیں لَاشَرِیْکَ لَہٗ

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

بھردے الفت کی مے سے ہمارا سبو

دل میں آنکھوں میں تو اور لب پر ہو تو

کیف میں وجد کرتے پھریں کو بکو

ورد گایا کریں پے بہ پے سو بسو

اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ اللّٰہٗ

عشق محبوب کائنات وہ لازوال دولت اور ابدی سعادت ہے کہ اپنے وقت کا بڑے سے بڑا فنکار ہویا کلاکار ، مضمون نگار ہویا قلمکار ، یکتا ئے روزگار ہویا اپنے عہد کا تاجدار ، میدان علم وفن کا سپہ سالار ہویا چمنستان ولایت کا گل گلزار، مدینے کی لوسے شمع محبت کی لواگر لگی رہی ہے تو اس گرمیِ محفل سے پگھل پگھل کر گرنے والے قطروں نے بھی مچل مچل کرپائے ناز پر مٹ جانے ہی کو حاصل زندگی سمجھاہے یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی ، جیسی بھی نعت کے حوالے سے طبع آزمائی کی ہے حسرت یہی رہی ہے کہ ؎

اگر یہ نذر عقیدت قبول ہو جائے

تو ناز عشق کی قیمت وصول ہوجائے

اور کیوں نہ ہو کہ عشق ہی سے حیات کو شعور ، اور شعور کو حیات ملتی ہے ، عشق ہی سے آگہی کو یقین ، اور یقین کو آگہی کا سراغ ملتا ہے ، عشق ہی سے سرکٹا نے کا جذبہ اور سرکٹانے کے جذبہ کو سرمدی سعادت نصیب ہوتی ہے … اور میں تو کہتا ہوں کہ دنیا ستاروں سے آگے کیوں نہ پہنچ جائے گلزار عشق ہمیشہ ہرا بھرارہے گا ، یہ رشتہ وہ مقدس رشتہ ہے جس سے تمام رشتوں کا بھرم قائم ہے ، لہٰذا یہ لوح دل وصفحۂ ذہن سے نہ محو ہوا ہے ، نہ آئندہ ہو گا … دیکھئے حضور مفتی اعظم عشق و محبت کے نازک مسائل ، کنایات و تلمیحات کے ذریعہ ، نہایت احسن طریقہ پر کس طرح بیان کرجاتے ہیں ، اور ورطۂ حیرت میں نہ پڑیے اس لئے کہ پختہ کا ر شاعر اسی طرح نزاکت ولطافت کے ساتھ ان مراحل سے گزرتا ہے … رسول معظم ، محبوب دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رقم طراز ہیں ؎

مرض عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے

جتنی کرتا ہے دوا درد سوا ہوتا ہے

آپ محبوب ہیں اللہ کے ایسے محبوب

ہر محب آپ کا محبوب خدا ہوتا ہے

داغ دل میں جو مزہ پایا ہے نوریؔ تم نے

ایسا دنیا کی کسی شے میں مزہ ہوتا ہے

ہر بڑے مفکر کی طرح آپ نے بھی اپنے اصول اور ایقان کی روشنی میں ایک فصیح و بلیغ و جدید کلام دنیا کو پیش کیا ہے ، اور اپنی بانکی طبیعت سے گلشن شعرو سخن میں جذبۂ محبت اور ولولۂ عقیدت کا ایسا کشادہ منفرد اور پر شکوہ تاج محل تعمیر کیا ہے جس کی خوبصورتی ، فنکاری ، نئے نئے نقش و نگار ، اور انوکھے گل بوٹے دیکھ کر لوگ غرق حیرت ہیں اس تناظر میں ان کا یہ کلام دیکھئے ؎

کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے

کب کسی سے نگاہیں بچا کر چلے

وہ حسیں کیا جوفتنے اٹھا کر چلے

ہاں حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے

شب کو شبنم کی مانند رویا کئے

صورت گل وہ ہم کو ہنسا کر چلے

داغ دل ہم نے نوریؔ دکھا ہی دیا

درد دل کا فسانہ سنا کر چلے

آپ کی شاعری میں طلاقت لسانی ، سلاست زبانی ، طرز ادا کی دلآویزی ، اسلوب بیان کی دلکشی ، اور مضامین کی روانی و شگفتگی بدرجۂ اتم موجود ہے ، اور جوخوبی جہاں ہے وہیں سے متوجہ کرتی ، دامن دل کھینچتی اور پکار کر کہتی ہے کہ ’’ جااینجاست‘‘ ؎

بختِ خفتہ نے مجھے روضہ پہ جانے نہ دیا

چشم و دل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا

پائوں تھک جاتے اگر پائوں بناتا سرکو

سر کے بل جاتا مگر ضعف نے جانے نہ دیا

ہائے اس دل کی لگی کو میں بجھائوں کیوں کر

فرطِ غم نے مجھے آنسو بھی گرانے نہ دیا

آپ کے بعض اشعار تو ایسے ہیں کہ عارف رومیؔ کا نشۂ عرفانی … جامیؔ کی سرمستی و بے خودی، امیر خسروؔ کی عشوہ طرازی … حافظؔ کی منظر کشی … سعدی ؔکے جدت تخیل کی بوقلمونی … اور اس پر امام الکلام ، شاہ ملک سخن امام احمد رضاؔ خاں علیہم الرحمۃ و الرضوان کے ندرت تخیل کی عطر بیزی سونے پر سہاگہ کی بہارد کھارہی ہے ؎

تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ

توماہ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ

وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ

اے کاش وہ سن لیتے مجھ سے مرا افسانہ

سرشار مجھے کردے اک جامِ لبالب سے

تاحشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ

کیوں زلف معنبر سے کوچے نہ مہک اٹھیں

ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا تری شانہ

بہار جاں فزا تم ہو، نسیم داستاں تم ہو

بہار باغ رضواں تم سے ہے زیب جناں تم ہو

خدا کی سلطنت کا دو جہاں میں کون دولہا ہے

تم ہی تم ہو تم ہی تم ہو یہاں تم ہووہاں تم ہو

تمہاری تابش رخ ہی سے روشن ذرہ ذرہ ہے

مہ و خورشید وانجم برق میں جلوہ کُناں تم ہو

ثنا منظور ہے ان کی نہیں یہ مدعا نوریؔ

سخن سنج و سخن ور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو

زبان اور فن کے معاملے میں ان سے زیادہ محتاط ان کے عہدمیں اور کون ہوگا، وہ شعر کے ظاہری خدو خال، وضع قطع کو نکھار نے اور سنوار نے میں اپنی مثال آپ ہیں ، محسوس یہ ہوتا ہے کہ الفاظ ان کے دہلیز فکر پر آکر صف بستہ تو ہو ہی جاتے تھے ، ساتھ ہی ادب کی بادبہاری سے گلشن شعر کا ہر غنچہ جھومنے لگتا تھا، پھر کیا تھاکیف و سرور کے رنگ ونور سے پوری فضا زعفران زار ہوجاتی تھی اور زبان قلم نقوش کے پردے میں تخیل کے موتی اگلنے لگتے تھے ، دیکھئے ان کے یہ اشعار ؎

پیام لیکے جو آئی صبا مدینے سے

مریض عشق کی لائی دوا مدینے سے

ملے ہمارے بھی دل کو جلا مدینے سے

کہ مہر و ماہ نے پائی ضیا مدینے سے

چمن کے پھول کھلے مُردہ دل بھی جی اٹھے

نسیم خلد سے آئی ہے یا مدینے سے

بلند اتنا تجھے حق نے کیا ہے

کہ عرش حق بھی تیرے زیر پاہے

تعالی اللہ تیری شان عالی

جلالتِ شان کی کیا انتہا ہے

تری صورت سے ہے حق آشکارا

خدا بھاتی تری ہر ہر ادا ہے

سلام اس پر جو ہے مطلوب رب کا

سلام اس پر جو محبوب خدا ہے

معرفت کی جوروح آپ کے اشعار میں پنہاں ہے وہ اردو ادب کیلئے ایک گراں بہا نعمت ہے شوخی ، فنکاری ، کیفیات کی ترجمانی ، احساسات کی فراوانی ، معنی آفرینی ، سہل پسندی ، طرافت طبعی سب کچھ موجود ہے ، ؎

تیری آمد ہے موت آئی ہے

جان عیسیٰ تری دہائی ہے

مر رہا تھا تم آئے جی اٹھا

موت کیا آئی، جان آئی ہے

جب ہم مفتی اعظم کے نہانخانۂ دل سے نکلی ہوئی آواز سنتے ہیں تویوں لگتا ہے کہ بحران و طوفان کااستقبال کرنے والا دل موج بلا کی آغوش میں بھی مسکرار ہا ہے ، دیکھئے یقین کے نور سے آپ کے اشعار کتنے معمور ہیں ؎

تلاطم کیساہی کچھ ہے مگر اے ناخدائے من

اشارا آپ فرمادیں تو بیڑا پار ہوجائے

عنایت سے مرے سرپر اگر وہ کفش پارکھ دیں

یہ بندہ تاجداروں کا بھی تو سردار ہوجائے

بھرم رہ جائے محشر میں نہ پلہ ہلکا ہو اپنا

الٰہی میرے پلے پر مرا غمخوار ہو جائے

عالم مجاز کے رنگ وبوکی پر ستش کرنے والی نگاہیں ، صرف نرگس و نسترن ، شمشاد و یاسمن ، اور زہرہ و مریخ پر مرکوز ہوکے رہ جاتی ہیں ، لیکن محبوب دو جہاں کے بہار حسن و جمال جہاں آرا کا نظارہ کرنے والا عاشق اپنے گہر ہائے اشک سے عشق کا ایک تابندہ ، بے خزاں ، نکہت ریز چمن تعمیر کرلیتا ہے ، ایسا چمن جس میں بہار ہی بہار ، اور نکہت ہی نکہت ہے ملاحظہ ہو ؎

چارہ گر ہے دل تو گھائل عشق کی تلوار کا

کیا کروں میں لیکے پھاہا مرہم زنگار کا

تیرے باغ حسن کی رونق کا کیا عالم کہوں

آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گلزار کا

جاگ اٹھی سوئی قسمت اور چمک اٹھا نصیب

جب تصور میں سمایا روے انور یار کا

بلاشبہہ آپ کے یہاں وہ خلوص فکر ، حسن تراکیب ، نفیس پیکر تراشی ، لطیف مصوری ، اور شگفتہ احساس پائے جاتے ہیں جن کی ہر دور میں ادب کو تلاش رہی ہے ، یقینا آپ کے پاکیزہ خیالات ، درخشندہ تصورات ، عکاسی نظر یات شعرو ادب کے علمبرداروں کی رہنمائی کرتے رہیں گے ؎

نسیم فیض سے غنچے کھلانے آئے ہیں

کرم کی اپنی بہاریں دکھانے آئے ہیں

مسیح پاک نے اجسام مردہ زندہ کئے

یہ جان جاں دل و جاں کو جلانے آئے ہیں

نصیب تیرا چمک اٹھا دیکھ تو نوریؔ

عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں

حضور قطب الاقطاب ، محبوب سبحانی ، غوث اعظم جیلانی کی بارگاہ ایسی عالی جاہ ہے ، جہاں شہرۂ آفاق خطیب ، زہرہ نگار ادیب ، ثریا شکوہ مفکر ، فلک وقار مقرر ، اور قادر الکلام ، برجستہ گوشاعر، ھدیۂ عقیدت پیش کرنے کو اپنی قسمت کی بلندی اور روح کی ارجمندی تصور کرتے ہیں ، وہ کون ایسا صالح قلب ہوگا جس کی دھڑکن میں حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی یاد نہ ہوگی ، تا ہم غوث اعظم کی بارگاہ عقیدت پیش عالم میں حضور مفتی اعظم کانذرانۂ خلوص ، انوکھے انداز ،اور البیلے شستہ و چیدہ الفاظ نیاز و ناز کے اسرار سے بھرپور انداز میں ملاحظہ کیجئے ؎

کھلا میرے دل کی کلی غوث اعظم

مٹا قلب کی بے کلی غوث اعظم

نہ مانگوں میں تم سے تو پھر کس سے مانگوں

کہیں اور بھی ہے چلی غوث اعظم

ہے قسمت میری ٹیڑھی تم سیدھی کردو

نکل جائیں سب پیچ و خم غوث اعظم

یہ دل یہ جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے

جہاں چاہو رکھو قدم غوث اعظم

کچھ ایسا گما دے محبت میں اپنی

کہ خود کہہ اٹھوں میں منم ، غوث اعظم

حضور مفتی اعظم کی فکری بصیرت ، شاعرانہ بلند مرتبہ صلاحیت ، اور بے ساختہ گوئی کی بے پناہ لیاقت کا اس واقعہ سے اندازہ لگائیے کہ ایک بار آپ کے سامنے دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف کے جلسۂ دستار فضیلت میں مولانا سعید اختر مراد آبادی اپنی منقبت پڑھ رہے تھے ، جب یہ شعر پڑھا ؎

نہ چھیڑاے گردش ایام تو اہل بریلی کو

گدایان بریلی کی مدینے تک رسائی ہے

تو حضور مفتی اعظم نے ارشاد فرمایا ، گدایان بریلی کی جگہ فدایان بریلی پڑھئے، پھر انہوں نے حسب ہدایت واصلاح شعر اس طرح پڑھا ؎

نہ چھیڑاے گردش ایام تو اہل بریلی کو

فدایان بریلی کی مدینے تک رسائی ہے

یہ ایسی جاندار اور پر بہار اصلاح ہے کہ صاحب ذوق سلیم ، اور اہل شعرو سخن حضرات اس سے خوب خوب لطف اندوز ہوں گے ۔ اور بلا تکلف حضور مفتی اعظم نوریؔ بریلوی کی قادرالکلامی کو داد دیںگے… ظاہر ہے جس کا باپ تاجدار کشور سخن ہو، جس کا بھائی حجۃ الاسلام اور ماہر علم و فن ہو ، جس کا چچا اکابر ادب کی نظر میں استاذ زمن ہو، جس کے گھر کا ماحول نعت و منقبت کا سدا بہار چمن ہو ، اور جوخود مفتی اعظم کے ساتھ شعر وادب کے گلستان میں نازش سرو سمن ہو ، اس کی سانس سانس اور نفس نفس اگر نغمہ و ترنم سے سرشار ہو تو اس میں تعجب کیا ہے ، وہ اگر قلم اٹھالے تو اشعار برسناہی چاہئے … وہ کاغذ سنبھال لے تو کاغذ کا مقدر چمکنا ہی چاہئے اور وہ اگر آمادہ شعر گوئی ہو جائے تو اشعار کا آبشار پھوٹنا ہی چاہئے ۔ الفاظ کے بطن سے معارف و معانی کا جھرنا چلنا ہی چاہئے … آج جب ہم اس شہنشاہ فکر و فن کی بارگاہ رشک صدچمن میں عقیدت کا نذرانہ اور محبت کا گلدستہ پیش کرنے کی جسارت کرکے سعادت حاصل کررہے ہیں تو صدحیف وہ ہماری اور اہل گلشن کی نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں ۔ اور ان کے دیوانے ان کا پچیسواں عظیم الشان اور عہد ساز و باوقار عرس منا رہے ہیں ۔ لیکن جب عالم علیین کی طرف نگاہ اٹھتی ہے تو ایک بزم طرب آراستہ نظر آتی ہے ۔ جہاں سرور وشاد مانی کے شاد یانے بج رہے ہیں اور گلشن شعروفن کا وہ گل شاداب شاخ سے ٹوٹ کر بھی نازش بہار ، اور چمن سے روٹھ کر بھی ساز دل پر نغمہ بار ہے ۔ ان کی موت نے انہیں اور توانااور تابندہ کردیا ہے ۔ خودار شاد فرماتے ہیں ؎

تیری آمد ہے موت آئی ہے

جان عیسیٰ تری دہائی ہے

مررہا تھا تم آئے جی اٹھا

موت کیا آئی جان آئی ہے

واپسی کے ربط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضامین | نعت گوئی