حسّان الہند غلام علی آزاد ؔ بلگرامی اور عربی خدمات - ڈاکٹر غلام زرقانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: ڈاکٹرغلام زرقانی(ہیوسٹن)

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی اور عربی خدمات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

علمی دنیا میں حسان الہند سید غلام علی آزاد بلگرامی کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، خصوصیت کے ساتھ بر صغیر ہند وپاک میں عربی زبان وادب کی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتی۔شعروادب، تذکرۂ اعلام ، تاریخ وطن ، حدیث وقرآنیات اور نقد ونظر سے متعلق علوم وفنون کے بہتیرے گوشوں پر خدمات جلیلہ نے انہیں معاصرین پر امتیازی شان عطاکردی ہے۔

ولادت اورحصول علوم ومعارف[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سید غلام علی آزاد بلگرامی ۲۵؍صفر ۱۱۱۶ ؁ ہجری میں ہوئے۔ ۱؎

آپ کے جد امجد میر عبدالجلیل بلگرامی اپنے وقت کے جلیل القدر علمائے کرام میں شمار کیے جاتے تھے۔ اس لیے یہ کہنا حقیقت کی ترجمانی ہے کہ سید غلام علی آزاد بلگرامی کو صغر سنی سے ہی علمی ماحول میسر آیا، جس نے شخصیت سازی میں متحرک وفعال کردار ادا کیا۔

حسان الہند نے حصول تعلیم پر گفتگوکرتے ہوئے لکھاہے کہ انہوں نے سب سے پہلے سیدطفیل محمد الحسینی بلگرامی سے ابتداء سے انتہاء تک کی درسی کتابیں پڑھیں۔

’’ قرأت الکتب الدارسیہ بدایۃ ونہایۃ علی صاحب الرتب السوامی مولای السید طفیل محمد الحسینی الاترولوی البلکرامی روح اللہ روحہ۔ ‘‘۲؎

اسی درمیان جب میر عبدالجلیل بلگرامی اپنے مقام ملازمت سے واپس تشریف لائے ، تو حسان الہند نے اس موقع کوغنیمت سمجھا اور ان کی علمی برکتوں سے فیض یاب ہونے لگے۔ تاہم یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا اور سید میر عبدالجلیل بلگرامی بادشاہ وقت کے حکم پر دہلی چلے گئے۔حسان الہند کسب فیض کرتے ہوئے ان کے استحضار علمی اور وسعت نظر کے معترف ہوچکے تھے ، اس لیے اپنی پیاس بجھانے کے لیے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ سیدمیر محمد یوسف اور سید میر عظمت اللہ بھی تھے۔ میر عبدالجلیل بلگرامی سے استفادہ کرنے کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’ واخذت اللغۃ ، والسیرۃ النبویۃ ، وسند الحدیث المسلسل بالاولیۃ وحدیث الاسودین ، واجازۃ اکثر کتب الاحادیث، والشعر العربی والفارسی عن جدی القریب من جھۃ الام ۔۔۔۔۔استاذی السید عبدالجلیل البلکرامی۔ ‘‘ ۳؎

یعنی زبان وادب ، سیرت نبوی ، سند حدیث مسلسل، حدیث الاسودین اور اکثر احادیث کی اجازت ، نیرعربی اور فارسی شاعری کی تعلیم میں نے اپنے نانا حضرت سید عبدالجلیل بلگرامی سے حاصل کی۔

جیسے جیسے علوم ومعارف کی گہرائی میں اترتے جارہے تھے ، سید غلام علی آزاد بلگرامی کا جذبہ شوق مزید بڑھتاہی جارہاتھا۔ اتفاق کہیے کہ سید عبدالجلیل بلگرامی کے صاحبزادے سید محمد بلگرامی بھی اپنے والد گرامی کے پرتو تھے۔ انہیں بھی علوم وفنون میں کمال حاصل تھا۔ حسان الہند نے موقع غنیمت سمجھا اور ان سے عروض ، قوافی اور شعر وادب پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ ۴؎

سیر وسیاحت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مزے کی بات یہ ہے کہ سید غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنے جملہ اسفار کی تعداد تین تک محدود بتائی ہے ، تاہم سوانح نگاروں نے ان سے کئی دوسرے اسفار بھی منسوب کردیے ہیں اور وہ واقعی درست ہیں ، جس سے مجال انکار نہیں۔ توکیا سید غلام علی آزاد بلگرامی جیسی علمی اور دینی شخصیت نے صراحت کے ساتھ کذب بیانی کی ہے ؟ ظاہر ہے کہ تعیین اسفار کے دونوں پہلو ایسے نہیں ہیں کہ ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کر بات آگے بڑھائی جاسکے ، نہ تو تذکرہ نگاروں کی تکذیب کی جاسکتی ہے اور نہ ہی حسان الہند کی۔

اچھا پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ حسان الہند نے متذکرہ تعداد کی تحدید کرنے کے بعد دوسرے اسفار کیے ہوں ، تاکہ بات بن جائے ، بلکہ تحدید سفر کی بات ’خزانہ عامرہ‘ میں کی ہے ، جو ۱۱۷۶؁ ہجری میں لکھی ہے۔۵؎۔ جب کہ ان کے اکثر اسفار ۱۵۴ا ؁ہجری اور ۱۱۶۵ ؁ ہجری کے درمیان ہوئے ہیں۔ ۶؎

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

غالبا اسی الجھن سے بچنے کے لیے بعض محققین نے دبی زبان میں یہاں تک کہہ دیاہے کہ غلام علی آزاد بلگرامی کے تحدید اسفار کی صراحت محل نظر ہے۔ ۷؎

میرے خیال میں اتنی سطحی بات میں کذب بیانی اور وہ بھی حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی جیسی شخصیت سے ، نہایت ہی عجیب وغریب ہے۔ تاہم جب میں نے مزید غوروخوض کیا تو تطبیق کی ایک نئی صورت سامنے آگئی ، جو معقول بھی ہے اور قابل تسلیم بھی۔ وہ یہ کہ غلام علی آزاد بلگرامی نے پوری حیات میں تین مرتبہ اپنے شہر سے رخت سفر باندھا ہے۔

پہلا : زمانہ طالب علمی میں شاہجہاں آباد کا سفر ۱۱۳۴ ؁ ہجری

دوسرا: سیوستان کا سفر ۱۱۴۳ ؁ ہجری

تیسرا: حرمین شریفین کا سفر ۱۱۵۰ ؁ہجری

دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ غلام علی آزاد بلگرامی تین بار بلگرام سے عازم سفر ہوئے ہیں اور ہر بار کے درمیان جو جزوی اسفار ہوئے ، انہیں وہ علیحدہ شمار نہیں کرتے۔ اور اس پس منظر میں دیکھیے تو غلام علی آزاد بلگرامی کی تحدید اسفار میں نہ کسی طرح کا کوئی اشکال ہے اور نہ ہی کوئی کذب وتضاد۔


سفر حرمین شریفین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی نے بچپنے میں دوران خواب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے تھے۔ خواب کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے دیکھا کہ وہ مسجد حرام میں حاضر ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محراب میں کھڑے ہیں۔وہ آگے بڑھتے ہیں اور سرکا ردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف مسکراتے ہوئے ملاقات کرتے ہیں ، بلکہ کچھ دیر گفتگو کی سعادت سے بھی نوازتے ہیں۔ ۸؎

ویسے تو مرکز عقیدت کی چوکھٹ پر سجود نیاز لٹانے کی آرزوسارے مسلمانوں کے دلوں میں مچلتی رہتی ہے ، لیکن جس وقت غلام علی آزاد بلگرامی خواب میں آقائے نعمت کے دیدار سے مشرف ہوئے ، اسی لمحے سے حرمین شریفین کی حاضری کے لیے تڑپ اور بڑھ گئی۔ بہت کوشش کی کہ کوئی راہ نکل آئے اور دست غیب سے سفر کے انتظامات ہوجائیں ، تاہم جب بظاہر کوئی تدبیرثمر آور نہ ہوئی تو ایک دن چپکے سے پاپیادہ تکمیل آرزو کے لیے نکل پڑے۔ دودنوں کے بعد اہل خانہ کو خبر ہوئی توانہوں نے اپنی بساط بھر تلاش کرنے کی کوشش کی ، لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ ۹؎

اِدھر سید غلام علی آزاد بلگرامی پیدل چلتے رہے۔کہیں تکلیف دہ راستے ملتے ، کہیں خاردار جھاڑیاں اور کہیں جنگلات ، لیکن عزم مصمم میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور آگے بڑھتے رہے ، یہاں تک کہ مالوہ پہنچ گئے۔ قسمت دیکھیے کہ یہاں نظام الملک نواب آصف جاہ کے ایک وفد سے ملاقات ہوگئی۔ قافلہ والے ہمدردی سے پیش آئے اور اپنے ساتھ لیے ہوئے بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ سید غلام علی آزاد بلگرامی نے موقع غنیمت سمجھا اور قصیدہ سنانے کی اجازت چاہی۔ جوں ہی اجازت ملی ، انہوںنے بادشاہ کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے حرمین شریفین کی حاضری میں مدد کی درخواست کردی۔ اس پس منظر میں یہ شعر سماعت کیجیے۔


ای حامی دیں محیط جود واحساں حق داد ترا خطاب آصف شایاں

او تخت بدرگاہ سلیماں آورد تو آل نبی را بہ درکعبہ رساں ۱۰؎

نظام الملک نواب آصف جاہ نے مبارک سفر کے جملہ اہتمامات کردیے اور سید غلام علی آزاد بلگرامی ۱۹؍محرم الحرام ۵۱ا۱؁ ہجری میں جدہ پہنچ گئے۔ ۱۱؎

جدہ میں غلام علی آزاد بلگرامی کے ایک مخلص دوست شیخ محمد فاخر استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان کی معیت میں مکہ مکرمہ حاضر ہوئے اور عمرہ کرنے کے بعد ۲۶؍محرم الحرام کے دن مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین پر قدم رکھنے کی سعادت حاصل کی۔یہاں پر غلام علی آزاد بلگرامی نے شیخ حیات سندی سے ملاقات کی ، جن کی علمی شہرت دوردور تک پھیلی ہوئی تھی، خاص طورپر علم حدیث کے حوالے سے وہ مرجع العلماء سمجھے جاتے تھے۔ آزاد بلگرامی نے موقع مناسب سمجھا اور عرض کیا کہ مجھے بخاری پڑھنی ہے۔ شیخ حیات سندی نے کہا کہ کیاتم بخاری شریف اپنے ساتھ لائے ہو، اس لیے کہ میرے پاس بھی کوئی نسخہ فی الحال موجود نہیں ہے ؟ آزاد بلگرامی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنے ساتھ کتاب تونہ لاسکاہوں ، تاہم مجھ سے سن لیجیے۔ اور یہ کہتے ہی ابتداء سے پڑھنا شروع کردیا۔ شیخ حیات سندی حیرت واستعجاب سے دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ تم نے تو بخاری شریف مکمل حفظ کرلی ہے ، اب اور کیا چاہیے ؟ آزاد بلگرامی نے عرض کیا کہ مجھے صرف روایت کی اجازت چاہیے۔ ۱۲؎


آزاد بلگرامی نے تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے ؛

’’وقرأت ایام اقامتھا صحیح البخاری علی شیخی ومولائی صاحب الجاہ السنی الشیخ محمد حیات السندی المدنی قد س سرہ واخذت عنہ اجازۃ الصحاح الستۃ وسائر مقروآتہ واقتطفت ثمارا ‘‘ ۱۳؎

یعنی میں نے مدینہ منورہ میں ٹھہرنے کے دوران اپنے شیخ اور کرم فرما حضرت شیخ محمد حیات سندی مدنی سے بخاری شریف ، نیز صحاح ستہ اور دوسری تمام روایتوں کی سند حاصل کی اور ان سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل کی۔شوال کے اخیر میں ادائے ارکان حج کے لیے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے، تو یہاں شیخ عبدالوہاب طنطاوی سے کسب فیض کا موقع میسر آگیا۔ آزاد لکھتے ہیں ؛

’’ ۔۔۔اقتبست جذوات النیران العلویۃ واخذت عنہ فوائد جمۃ من الاحادیث ‘‘ ۱۴؎

یعنی میں نے شیخ عبدالوہاب طنطاوی سے احادیث کے حوالے سے اہم معلومات حاصل کیں۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

دکن واپسی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۳ ؍جماوی الاولیٰ کو آزاد بلگرامی واپسی کے لیے نکل پڑے۔ یمن ، سورت ہوتے ہوئے اورنگ آباد پہنچے۔ یہاں عارف ربانی شاہ مسافر غجدوانی کے آستانے پر حاضری ہوئی اور سات سالوں تک یہیں مقیم رہے۔ اسی دوران نواب نظام الدولۃ جنگ ابن نواب نظام الملک آصف جاہ سے ملاقاتیں رہیں۔ ۱۵؎

یہ عجیب اتفاق ہے کہ نواب نظام الدولۃ جنگ کو ادبی ذوق سے وافر حصہ ملاتھا۔دوسری جانب حسان الہند آزاد بلگرامی بھی شعروشاعری سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ اس طرح ہم ذوقی کی وجہ سے آزاد بلگرامی قریب سے قریب ہوتے گئے۔عینی شاہدین کہتے ہیں کہ نواب ناصر جنگ اکثر غلام علی آزاد بلگرامی سے کلام سننے کی فرمائش کرتے ، بلکہ ان کے ملکہ شعری سے مستفیض ہونے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ نواب ناصر جنگ نے اپنی عقیدت ومحبت کا ثبوت دیتے ہوئے آزاد بلگرامی کے علومرتبت ،ملکہ شعری اورعلوم وفنون میں دسترس کا برملا اعتراف کیا ، نیز انہیں اپنے تخت خاص میں بیٹھنے کا موقع بھی عنایت کیا۔ ۱۶؎

اسے نیرنگی ایام کہیے کہ نواب نظام الملک آصف جاہ دہلی گئے ہوئے تھے کہ اسی درمیان ان کے صاحبزادے نواب ناصر جنگ نے باپ کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور تخت سلطنت پر براجمان ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ یہ اقدام نہایت ہی افسوسناک اور تکلیف دہ تھا، اس لیے باپ اور بیٹے کے درمیان خلیج وسیع ہوتی گئی ، یہاں تک کہ طرفین کے مابین ۱۱۵۴؁ ہجری میں جنگ چھڑ گئی ، جس میں والدگرامی فتح یاب ہوئے۔ ایسے پر خطر موقع پر غلام علی آزاد بلگرامی نے فریقین کے درمیان صلح کرانے میں نہایت ہی مدبرانہ کردار اداکیا۔ ۱۷؎

بہر کیف، ۱۱۲۱ ؁ہجری میں نظام الملک آصف جاہ انتقال کرگئے اور صاحبزادے نواب ناصر جنگ مسند نشیں ہوئے۔ انہوںنے اپنے پرانے احباب ، رفقأ اور ہم نشینوں کو خصوصیت کے ساتھ دربار میں طلب کیا۔ سید غلام علی آزاد بلگرامی کی خدمت میں سرکاری ذمہ داری قبول کرنے کی پیشکش کردی ، تاہم انہوں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلی کہ یہ دنیا طالوت کے نہر کی طرح ہے ، جس میں سے ایک گھونٹ توحلال ہے ،لیکن اس سے زیادہ حرام ہے۔ ۱۸؎


دریں دریار کہ شاہی بہر گدا بخشند

غنیمت ایں کہ مارا ہمیں بما بخشند

نہر طالوت سے قرآن کریم کی آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے ، طالوت کے ساتھ جانے والوں کو ایک گھونٹ پانی پینے کی اجازت تھی۔ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللّہَ مُبْتَلِیْکُم بِنَہَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْْسَ مِنِّیْ وَمَن لَّمْ یَطْعَمْہُ فَإِنَّہُ مِنِّیْ إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً بِیَدِہِ فَشَرِبُواْ مِنْہُ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ۔۔۔۔ (سورت: ۲، ص: ۲۴۹) جب طالوت اپنے لشکر کے ہمراہ کوچ کرنے لگے توانہیں ہدایت دیتے ہوئے بولے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے حوالے سے آزمائش میں ڈالنے والا ہے ، تو جس کسی نے بھی نہر کا پانی پیا وہ میری جماعت سے نہیں سمجھا جائے گااور جس نے نہ پیا، وہی میرا ساتھی کہلائے گا، سوائے ایک آدھ گھونٹ کے۔

سرکاری عہدہ نہ لینے کے باوجودحسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی ارباب اقتدار کے درمیان بڑے عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔شیخ محمد صلابت جنگ اعتراف حقیقت کرتے ہوئے ، انہیں ’رئیس الکل ‘ ، ’سراج المحدثین ‘، اور ’رئیس العلماء ‘ جیسے خطابات سے نوازا۔ اسی طرح نواب میر محمد شریف خان بسالت جنگ نے خلعہ فاخرہ ، قیمتی گھوڑا اور پالکی تحفے میں دی، نیز ایک لق ودق زمین بھی عنایت کی ، جس کی سالانہ آمدنی اس وقت بارہ روپئے سے زیادہ تھی ، تاہم انہوںنے شکریہ کے ساتھ اسے واپس کردی۔ ۱۹؎

سید غلام علی آزاد بلگرامی دکن میں علمی حلقہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ شعر وشاعری، تصنیف وتالیف اور دعوت واصلاح کے حوالے سے منعقد ہونے والی بزموں میں مصروف رہتے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ حرمین شریفین سے واپسی کے بعد انہوںنے اپنی علمی اور ادبی خدمات کامرکز دکن ہی کو بنائے رکھا۔ ارباب سیاست سے کسی قدر قربت کی وجہ سے حلقۂ احباب میں تیزی سے وسعت ضرورہوئی ، لیکن طبیعت میں بے نیازی اور خودداری کی وجہ سے غلام علی آزاد نے نہ کوئی ذاتی فائدہ اٹھایا اور نہ ہی اپنے تعلقات کو علمی تحریک کی تقویت کے لیے استعمال کیا۔اس لیے یہ کہنا ترجمانی حقیقت ہے کہ دکن میں بڑے بڑے علمائے کرام ، فقہائے عظام ، ادبا ئے عصر، اصحاب تصنیف وتالیف اور شعراء کے درمیان جو عزت وتوقیر بھی انہیں ملی ، وہ سرتاسر ان کے اپنے استعداد، علمی رعب ودبدبہ اور عبقریت کی بنیاد پر تھی۔

وفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شیخ برہان الدین رضی اللہ عنہ کے مزار کے قریب حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی نے ۱۱۹۵ ؁ ہجری میں زمین خریدی اور اپنے لیے قبر کی تعمیر کروائی۔ کہتے ہیں کہ جب قبر تیار ہوگئی توانہوں نے ایک عظیم الشان مجلس سجائی ، جس میں چیدہ چیدہ علمائے کرام ، سلسلۂ تصوف کے مشہور شیوخ ، ارباب سیاست اور دوسرے احباب مدعو کیے گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آزاد بلگرامی نے انواع واقسام کے طعام ، لذید حلوے اور عمدہ مشروبات کے ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع بھی کی۔ اخیر میں مہمانوں کو رخصت کرتے ہوئے قرآنی اسلوب بیان میں کہتے ہیں :

’’ھذا فراق بینی وبینک ‘‘۲۰؎

یعنی یہ میرے اور تمہارے درمیان وقت فراق ہے۔

متذکرہ پروگرام کے بعد حسان الہند سید غلام علی آزاد بلگرامی نے یہیں گوشہ نشینی اختیارکرلی یہاں تک کہ ۲۴؍ذو القعدہ ۱۲۰۰ ؁ ہجری میں مالک حقیقی سے جاملے۔اس طرح انہوںنے اپنی عمرفانی کے ۴۸سال دکن میں گزاردیے۔ ان کے تنہا صاحبزادے موسوم بہ نورالحسن بلگرامی عین عالم شباب میں بلگرام کے ایک تالاب میں ڈوب کر ۱۱۶۷ ؁ہجری کو انتقال کرگئے تھے۔ ۲۱؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

تصانیف وتالیفات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

برصغیر پاک وہند میں دین اسلام کے حوالے سے اصحاب قرطاس وقلم کی تاریخ حسان الہند سید غلام علی آزاد بلگرامی کے بغیر ہرگز مکمل نہیں اور ہو بھی نہیں سکتی کہ انہوںنے علوم وفنون کے کئی جہتوں پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔نقدونظر ، شعر وسخن سے لے کر تاریخ ، حدیث اور سوانح حیات تک سارے میدانوں میں آپ سے قابل قدر خدمات منسوب ہیں۔بات بغیر دلیل کے نہ رہ جائے ، اس لیے آئیے ان کی تصانیف وتالیفات پر ایک سرسری نگاہ ڈال لیتے ہیں۔

سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مؤرخین کہتے ہیں کہ علمائے ہند کے احوال وکوائف کے بارے میں یہ پہلی کتاب ہے۔ اسی کی وجہ سے برصغیر پاک وہند میںشخصیات شناسی کا مزاج پروان چڑھا اور یکے بعد دیگر ے علمائے کرام، فقہائے اور محدیثیں کی خدمات پر مقالات لکھنے کی روایت پڑی، جو اب تک جاری ہے۔ ۲۲؎

متذکرہ کتاب چارفصول پر مشتمل ہے۔

پہلی فصل۔ تفاسیر واحادیث میں ہندوستان کے تذکرہ کے بارے میں ۲۳؎

سید غلام علی آزاد بلگرامی نے ابتداء میں اسے علیحدہ کتاب کی صورت میں تصنیف کیا تھا، تاہم جب’ سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘ تصنیف کی ، تو موضوع سے متعلق ہونے کی وجہ سے کتاب کی پہلی فصل بنادی۔یہ حقیقت خود انہیں کی زبانی سنیے۔

’ولقد الفت من قبل رسالۃ فی ھذاالباب فاجعلھا جزء ا من ھذا الکتاب‘۲۴؎

کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب اپنے موضوع پر بالکل نئی تھی، اس سے پہلے نہ کسی نے متذکرہ عنوان پر لکھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس جانب کسی نے اشارہ ہی کیا۔ اس حقیقت کے بعد یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ سید غلام علی آزاد بلگرامی اپنے عہد میں نہ صرف صاحب تصانیف کثیر ہ ہونے کا شرف رکھتے تھے ، بلکہ قادر الکلام شاعر بھی تھے اور علمی وتحقیقی میدان میں نئی نئی جہتیں تلاش کرنے میں بھی ممتاز تھے۔ اور مجھے توایسا محسوس ہوتاہے کہ اس موضوع پر یہ کتاب اول بھی تھی اور آخر بھی ، کہ اب تک اس سے ملتے جلتے موضوع پر میری نگاہ سے کوئی کتاب نہیں گزری ہے۔ گفتگو کی اس منزل پر یہاں پہنچ کر کہنے دیا جائے کہ اربا ب قرطاس وقلم کی لمبی چوڑی فہرست میں حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی شاید یکتائے روزگار مصنف ہیں، جنہوں نے ایک ایسے موضوع پر طبع آزامائی کی جو انہیں سے شروع ہوئی اور انہیں پر ختم بھی ہوگئی۔

موضوع کی دلچسپی کے پیش نظر متذکرہ فصل کی ایک دومثالیں سماعت کرلیں۔

’’قال الشیخ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ فی الدرالمنثور فی تفسیر سورۃ ’ احقاف‘ : اخرج ابن ابی حاتم عن علی رضی اللہ عنہ قال : خیر واد فی الناس وادی مکۃ ووادنزل بہ آدم بارض الہند ‘‘۔۲۵؎

یعنی شیخ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’الدرالمنثور ‘ میں سورۂ احقاف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابن حاتم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوںنے فرمایا کہ لوگوں کے درمیان سب سے بہتر علاقہ مکہ ہے اور ہندوستان کا وہ علاقہ ہے، جہاں حضرت آدم علیہ السلام نازل ہوئے۔

ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں ؛

’’ ومنھا وقع لغۃ الہند فی القرآن : قال السیوطی فی تفسیر قولہ تعالیٰ ’طوبیٰ لھم وحسن مآب‘ ، اخرج ابن جریر وابو الشیخ ۔۔۔قال: طوبیٰ اسم الجنۃ بالھندیۃ ۔۔۔۔۔۔ونقل السیوطی فی قولہ تعالیٰ : ’ سندس خضر‘ ۔۔۔ان السندس رقیق الدیباج بالھندیۃ ۔۔۔۔۔ ‘‘ ۲۶؎

یعنی اسی سلسلے کی ایک یہ ہے کہ ہندوستان میں مروجہ لفظ قرآن مقدس میں بھی موجود ہے ؛ جیسے شیخ جلال الدین سیوطی آیت قرآن ’طوبیٰ‘۔۔۔۔۔۔۔ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابن جریراور ابو الشیخ نے لکھا ہے کہ ’طوبیٰ‘ ہندوستانی زبان میں باغ کا نام ہے ۔۔۔۔۔اسی طرح آیت قرآن ۔۔۔۔۔۔میں مذکور ’السندس‘ ہندوسان میں باریک دیباج کو کہتے ہیں۔

دوسری فصل۔ہندوستان کے مشہور ومعروف علمائے کرام کے بارے میں

دوسری فصل کے حوالے سے صاحب نزھۃ الخواطرعبدالحی لکھنوی نے لکھا ہے کہ علامہ محمدبن عبدالرحمن سخاوی نے عالم اسلام کے مشہور علمائے کرام کے حالات پر ’الضوء اللامع فی اعیان القرن التاسع ‘ لکھی۔ اس میں انہوں نے ہندوستان کے بھی بعض علمائے کرام کا تذکرہ کیا ہے ، تاہم انہوںنے سارے نہیں تو اکثر وبیشترہی سہی ،صرف ایسے علمائے ہند کے حالات ہی لکھے ہیں ، جو عالم عرب ہجرت کرگئے تھے یا تحصیل علوم کے لیے گئے۔ ظاہر ہے کہ جب طریقۂ انتخاب کا معیار یہی ٹھہرے ، تویہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کتاب ایسے علماء ، شعراء اور مصنّفین کے حالات وکوائف پر مشتمل ہوگی ، جنہوںنے علمی ، دینی اور فکری پیمانے پر گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ اس لیے یہ کہنا اعتراف حقیقت ہے کہ ’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان ‘ کا یہ باب ہندوستانی علمائے کرام کے تذکرہ پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ ۲۷؎

متذکرہ فصل میں سید غلام علی آزاد بلگرامی نے صرف ۴۵علمی شخصیات کے حوالے سے ہی گفتگوکی ہے ، جب کہ شک نہیںکہ اس سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں علمائے ہندنے علمی ، ادبی اور دینی میدانوں میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اسی طرح سرزمین ہندوستان میں اسلام کی نشر واشاعت اور اصلاح معاشرہ کے حوالے سے اولیائے کرام کی شبانہ روز جد وجہد سے کسی طورمجال انکار نہیں ، تاہم متذکرہ فصل ان کے تذکرے سے خالی ہے۔ ٹھیک ہے سید آزاد نے اس نقص کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوفیائے کرام کی سوانح حیات لکھنے سے لوگ عام طورپر دلچسپی لیتے ہیں اور اپنے ممدوحین کے بارے میں لکھتے رہے ہیں ، اس لیے میں نے انہیں کتاب میں شامل نہیں کیاہے۔ میرے خیال میں یہ وضاحت کسی حدتک قابل قبول بھی ہوجائے ، جب بھی یہ بات مناسب نہیں کہ شیخ معین الدین چشتی اجمیری اور محبوب الٰہی شیخ نظام الدین اولیاء جیسی عظیم شخصیات شامل نہ کی جائیں کہ انہیں جہاں ایک طرف دینی علوم وفنون پر دسترس حاصل تھی، وہیں روحانی بالیدگی ، فکری نشوونمااور ذہنی تسکین کے وہبی کمالات بھی حاصل تھے۔ پھر یہ بھی تودیکھیے کہ متذکرہ کتاب عربی زبان میں لکھی جارہی ہے ، جس سے یہ امر بہت نمایاں ہے کہ اسے عالم عرب کے اصحاب قرطاس وقلم کے نزدیک ہندوستانی علمائے کرام کا ترجمان ہوناہے۔اس حیثیت سے بھی دیکھیے ، تویہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کبار صوفیائے کرام کی عدم شمولیت متذکرہ فصل کا وہ عیب ہے ، جو چھپائے نہیں چھپ سکتا۔

تیسری فصل۔ سرزمین ہندوستان میں پروان چڑھنے والے تعبیر وبیان کے بارے میں سید غلام علی آزاد بلگرامی نے ’تسلیۃ الفؤاد‘‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی تھی ، جسے انہوں نے متذکرہ کتاب کی تیسری فصل میں شامل کردیا ہے۔ خودکہتے ہیں۔

’’ وقد حررت فصلا فی کتابی تسلیۃ الفؤاد ، فاجعلہ جزء ا من ھذالسواد ‘‘۔ ۲۸؎

یعنی میں نے اپنی کتاب ’ تسلیۃ الفؤاد‘ میں ایک فصل لکھی تھی، جسے اس کتاب میں شامل کرتاہوں۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

متذکرہ فصل کے مشمولات پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالنے والے پرمخفی نہیں کہ یہ بھی اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے، جس میں سید غلام علی آزاد بلگرامی نے ہندوستان کے مروجہ ادبی مصطلحات کو عربی زبان میں نہ صرف منتقل کیا ہے ، بلکہ اپنی فہم وفراست ، وسعت اطلاع اورزبان وبیان پر غیر معمولی قدرت کے سہارے ایسے نام بھی تجویز کیے ہیں ، جو اہل عرب کے لیے قابل قبول ہوں۔ ظاہرہے کہ پرانی زمین پردوبارہ گل بوٹے سجانا کسی قدر مشکل ضرور ہے ، تاہم اس سے کہیں زیادہ مشکل ترین یہ ہے کہ نئی زمین بھی تیارکی جائے اورنئے پودے بھی لگائے جائیں۔کہنے دیاجائے کہ سید غلا م علی آزاد بلگرامی نے یہاں شعر وادب کی ایک نئی زمین بھی ڈھونڈ نکالی ہے اور اسے نت نئے ادبی محاسن کے پرکشش گل بوٹے سے آراستہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

’’ ۔۔۔۔ عمدت علی استخراج الامثلۃ عن المجامیع والدواوین، سنحت لی نبذہ من الانواع وظفرت باقراط ثمینۃ للاسماع فاخترت من الانواع الھندیۃ ثلاثا وعشرین وسمیتھا فی العربیۃ باسماء مناسبۃ مسمیاتھا‘‘۔ ۲۹؎

یعنی میں نے لغات اور شعری دیوان کے سہارے مثالیں ڈھونڈنے کی کوشش کی ، تو مجھے چندپرکشش قسمیں مل گئیں۔ میں نے ہندوستانی نوعیت کی ۲۳قسمیں منتخب کرلیں اور انہیں مناسب عربی نام بھی عطاکردیئے۔

بطور تمثیل ’ تنزیہ ‘کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ ھذا النوع استخراجہ بعض الاھاند فی مقابلۃ التشبیہ وھو ان یبری المتکلم شیئا عن این یماثلہ شی ء آخر کقولہ تعالیٰ [ لیس کمثلہ شیء ]۔۳۰؎ وقولہ تعالیٰ [ارم ذات العماد ، التی لم یخلق مثلھا فی البلاد]۔۳۱؎ وقول حسان رضی اللہ عنہ فی مدح النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔


واحسن منک لم ترقط عینی واحسن منک لم تلد النساء

خلقت مبر ا من کل عیب کانکک قد خلقت کما تشاء ‘‘ ۳۲؎

یعنی یہ قسم وہ ہے ،جسے بعض ہندوستانیوں نے ’ تشبیہ ‘ کے مقابل میں درج کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ متکلم ایک چیز کو دوسری مدمقابل چیز سے دورکرے۔ جیسے کہ اللہ رب العزت قرآن مقدس میں فرماتاہے،’ اس کی مثل کچھ بھی نہیں ‘ ، یا وہ فرماتاہے ،’ وہ عاد ارم ، جو ستونوں کی طرح بلند قامت تھے ، جن کی طرح بلند قامت دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔‘ نیز حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ سے زیادہ حسین وجمیل کسی آنکھ نے آج تک نہیں دیکھا آپ سے زیادہ خوبصورت عورتوں نے جنم ہی نہیں دیا۔

آپ ہر عیب ونقص سے اس طرح پاک پیدا ہوئے ہیں کہ جیسے آپ جس طرح چاہتے تھے ، اسی طرح پیدا کیے گئے۔

چوتھی فصل۔ عاشق ومعشوق کے بارے میں

بلاشبہ سابقہ تین فصلوں کی طرح یہ فصل بھی اپنے اندر جدت لیے ہوئے ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ابتدائی تمہیدکے بعد حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی نے اسے بھی ہندوستانی رنگ میں رنگنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور عشق وعاشقی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ہندوستانی تہذیب وتمدن کے مروجہ مصطلحات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

’’ ۔۔۔والآن ابین نبذہ من اقسام النسوان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔واسمی کل قسم باسم رائع واعرفہ بتعریف جامع ومانع واثبت امثلۃ تقر بھا عیون الادباء ۔۔۔۔۔والامثلۃ التی نسبتھا لی نفسی فی ھذہ المقالۃ اکثر معانیھا من مخترعاتی وقلیل منھا من اشعار الاھاند۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۳۳؎

یعنی اب میں عورتوں کے اقسام کے حوالے سے بات کروں گا۔۔۔۔۔اور ہر قسم کو پرکشش نام دیتے ہوئے اس کی تشریح بھی کروں گااور اس کی جامع ومانع تعریف بھی پیش کروں گا، نیز ایسی مثالیں بھی دوں گا، جن سے ادباء کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔۔۔۔اور ایسی مثالیں بھی، جو مجھ سے منسوب ہیں ، ان کے اکثر مفاہیم میرے اپنے ہیں اور بعض اہل ہند کے اشعار سے بھی ہیں۔

مزید دلچسپی کے لیے بطور مثال ایک عورتوں کی ایک قسم کی جھلک دیکھتے چلیے۔

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

سید غلام علی آزاد بلگرامی لکھتے ہیں کہ نیک اور بد کے پس منظر میں عورتوں کی قسمیں ۳۴؎

نیک بد

گھریلو بازاری

پوشیدہ رہنے والی پردہ کرنے والی برسر عام رہنے والی

ضوء الدراری شرح صحیح البخاری:

یہ صحیح البخاری کی شرح ہے ، جو کتاب الزکاۃ تک ہی لکھی جاسکی ہے۔ میرے علم کے مطابق یہ کتاب اب تک مخطوطہ کی صورت میں ہے۔ اپنی پی ایچ ڈی کے لیے مصادرو مراجع کی تلاش کے سلسلے میں ہونے والے ایک سفر کے دوران میں نے اسے ندوۃ العلماء لکھنؤ کے کتب خانے میں دیکھا ہے۔ یہ بڑے سائز کے ۷۴ صفحات پر مشتمل ہے ، خط نستعلیق ہے۔ مخطوطہ کی حالت بہت اچھی نہیں ہے ، اسی لیے آخری صفحات کا پڑھنا نہایت ہی دشوار ہے۔ کئی مقامات پر کیڑے لگنے کی وجہ سے سوراخ بھی ہوگئے ہیں۔

یہ بات گزر چکی ہے کہ سید غلام علی آزاد بلگرامی نے حرمین شریفین میںشیخ حیات سندی سے بخاری شریف پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ اس دوران بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح ’ارشاد الساری ‘ مطالعہ میں رہی۔فطری ذہانت وفطانت کی وجہ سے سید غلام آزاد بلگرامی بعض تشریحات وتوضیحات لکھتے رہے۔ اس طرح یہ شرح وجود میں آگئی۔خود رقمطراز ہیں :

’’ ۔۔۔۔اتفق بعونہ تعالیٰ قراء تی صحیح البخاری ومطالعۃ شرحہ المسمیٰ بارشاد الساری التحریر المؤید بالتأیید الربانی احمد بن محمد بن الخطیب القسطلانی ، ھممت ان التقط منہ مایتعلق بمتن الحدیث من جل المبانی وتحقیق المعانی ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۳۵؎

یعنی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے صحیح البخاری اور اس کی عظیم الشان شرح ، ارشاد الساری ، تصنیف لطیف شیخ احمد بن محمد الخطیب القسطلانی پڑھنے کی سعادت میسر آئی ، تو متن حدیث کی تحقیق وتشریح کے حوالے سے بعض اہم باتیں منتخب کرلیاکرتاتھا۔

بطور مثال ایک جھلک دیکھ لیجیے۔

’’ باب قول اللہ تعالیٰ : لا یسألون الناس الحافا ، ای الحاحا وھو ان یلازم المسؤول حتی یعطیہ من قولھم لحفنی من فضل لحافہ ای اعطانی من فضل ما عندہ ، ومعناہ انھم لا یسألون عن ضرورۃ لم یلحوا وقیل ھو نفی للسوال والالحاح کقولہ : علی لاحب لایھتدی منارہ ، فمرادہ لا منار ولا اھتداء بہ ولا ریب ان نفی السؤال والالحاح۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۳۶؎

اب یہ دیکھیے کہ سید غلام علی آزاد بلگرامی نے نہایت ہی ایجاز کے ساتھ اہم نکات سمیٹ لیے ہیں۔

’’ باب قول اللہ تعالیٰ لا یسألون الناس الحافا ۔۔۔۔وھو این یلازم المسؤل حتی یعطیہ الولمعنیٰ انھم لا یسألون الناس عن ضرورۃ لم یلحوا وقیل ھو نفی للسوال والالحاح ۔۔۔۔ ‘‘ ۳۶؎

شفاء العلیل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ کتاب سید غلام علی آزاد بلگرامی کے ملکۂ نقد ونظر پرناقابل انکار دلائل وشواہد پیش کرتی ہے ، جس میں انہوں نے برصغیر ہند وپاک میں پھیلے ہوئے لاکھوں مدارس اسلامیہ کے درسی نصاب میں شامل ’دیوان متنبی ‘ پر نہ صرف تنقید کی ہے ، بلکہ اپنی فہم وفراست کے مطابق عیوب ونقائص بھی دورکرنے کی کوشش کی ہے۔ خود انہیں کے الفاظ میں سماعت کیجیے۔

’’ ۔۔۔۔۔۔ثم الناقدون لکلامہ والناثرون لنظامہ اقتنعوا بتحریرمارأوا فیہ من الخطل واقتصروا علی تفسیر ما وجدوا فیہ من الخلل ولم یلتفتوا الی اصلاح ما فسد۔۔۔۔‘‘۳۸؎

یعنی شعروشاعری کے ناقدین اور نثرنگاری پر عقابی نگاہ ڈالنے والے عام طورپر عیوب ونقائص کی طرف اشارے اور قدرے وضاحت کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اصلاح کلام ونثر کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

اسی کے ساتھ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بعض ناقدین نے دیوان متنبی پر گرفت کرتے ہوئے اصلاح کرنے کی کوشش بھی کی ہے تووہ بہت ہی مختصر اور بعض مقامات تک ہی محدود ہے ، اسی لیے انہیں یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھانی پڑی ہے۔ آگے لکھتے ہیں :

’’ ۔۔۔ فوقع فی خاطری ان اصلح مافی کلامہ من الفساد واشفی مافی فلذۃ کبدہ من الکباد واستھل مافیہ من التعقیدات وابدل قدر الوسع سیئاتہ بالحسنات فبذلت مابی من الجھد البالغ والسعی الجمیل ۔۔۔۔۔ ‘‘ ۳۹؎

یعنی میں نے سوچا کہ کلام کی اصلاح کروں اورداخلی خرابی دورکروں ، نیزگنجلک مفاہیم کو درست کردوں اورجہاں تک ممکن ہوعیوب ونقائص کو خوبیوںسے تبدیل کردوں ، لہذا میں نے انتہائی جد وجہد کی۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

خیال رہے کہ یہ کتاب میں نے سالارجنگ میوزیم حیدرآباد میں مخطوطہ کی صورت میں دیکھی ہے۔ اس کے دونسخے موجود ہیں۔ دونوں کی حالت بہت اچھی ہے اور پڑھے جانے لائق ہے۔خط نستعلیق ہے۔ مخطوطہ میں لگی مہر کے مطابق ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ ۱۲۰۶ ؁ ہجری میں لکھی گئی ہے۔

اب آئیے ایک دومثالیں اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں۔

’’ فأسقینھا فدی لعینک نفسی من غزال وطار فی وتلیدی من غزال بیان لکاف الخطاب مثل افدیک من رجل وقوع الخبر الذی تمت بہ الجملۃ وھو نفسی فاصلا بین کاف الخطاب وبین بیانھا وھو من غزال وقوع من غزال فاصلا بین المعطوف علیہ وبین المعطوف تعقید ایما تعقید ویمکن ان یصلح ویقال :

فأسقینھا فدی لعینک من ظبی فؤادی وطار فی وتلیدی ‘‘ ۴۰؎

یعنی شعر میں ’ لعینک ‘ کے کاف خطاب کی توجیہ ’ غزال ‘ سے کی گئی ہے۔ اور دونوں کے درمیان ’نفسی ‘ سے فاصلہ ہوگیا ہے ، جس سے شعر میں غیر ضروری سقم پیدا ہوگیا ہے۔

حسان الہند غلام علی آزاد نے کہیں کہیں متنبی کے شعر پر واحدی کے ذریعہ کیے گئے نقد ونظر کی اصلاح کرنے کی بھی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے۔


’’ وقال یمدح ابا القاسم عبید اللّٰہ ؛

تمثلوا حاتما ولو عقلو ا لکنت فی الجود غایۃ المثل

قال الواحدی : اراد تمثلو ا بحاتم فی الجود ،فحذف الباء ضرورۃ۔ اقول یمکن ان یصلح ویقال : تخیروا حاتما أ ی اختاروہ غایۃ المثل فی الجود ۔۔۔۔ ‘‘ ۴۱؎

یعنی واحدی نے متنبی کے متذکرہ شعر پر نقد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں ’’ بحاتم ‘‘ ہونا چاہیے ، تاہم ’’ب ‘‘ ضرورت شعری کی وجہ سے حذف کردیا گیاہے۔ حسان الہند اصلاح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں ’’ تخیروا حاتما ‘‘ ہوناچاہیے ، تاکہ مفہوم بھی واضح ہوجائے اور کوئی سقم بھی نہ رہے۔

کہیں کہیں حسان الہند واحدی کے ذریعہ کی گئی بے جاتنقید پر گرفت کرتے ہوئے ، متنبی کا دفاع بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ شعر دیکھیے۔


’’ وکلما نطحت تحت العجاج بہ اسد الکتائب رامتہ ولم یرم

قال الواحدی رامتہ زالت عنہ ولم یزل ھو اراد رامت عنہ فحذف حرف الجر واوصل الفعل والاصل استعمالہ بحرف الجر کما قال الأعشی:


أبانا فلا رمت من عندنا فأنا بخیر اذا لم ترم

۔۔۔۔۔۔ اقول : قال الجوھری رامہ یریمہ ریما ۔۔ثم ذکر بیت الأعشی المذکور ثم قال: رمت فلانا ورمت من عند فلاں بمعنی وعلم بھذا أن الریم یتعدی بنفسہ وبمن۔ فعلی ھذا صحیح کلام المتنبی۔‘‘۔۴۲؎

یعنی واحدی نے کلام متنبی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ لفظ ’ رام یریم ‘ بغیر حرف جر کے متعدی نہیں ہوتا،پھر اس پر اعشی کے شعر سے استشہادبھی کیاہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ حسان الہند نے اعشی کے اسی شعر سے استدلال کیا اور جوھری کی لغت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ متذکرہ لفظ خود بخود بھی متعدی ہوجاتاہے۔

شعری خدمات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ حسان الہند غلام علی آزاد نے علوم وفنون کے مختلف جہتوں میں اپنے گرانقدر نقوش ضرور چھوڑے ہیں ، تاہم وہ فطری طورپر شاعر تھے اور شعری ذوق کسبی نہیں ، بلکہ خاندانی وراثت سے ان کے رگ وپئے میں منتقل ہواتھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے منسوب شعری سرمایہ میں کئی ایک ضخیم دیوان شامل ہیں۔

شیخ غلام علی آزاد بلگرامی سے عربی کے دس دیوان منسوب ہیں۔ پہلے سات دیوان کی طباعت کے موقع پر اسے انہوں نے ’’سبع سیارہ ‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ ۴۳؎

’’ ۔۔۔۔اما بعد فیقول العبد المستضی ء بالنور التھامی آزاد الحسینی الواسطی البلکرامی انی صرفت العمر فی مذاکرۃ العلوم العربیۃ وشمرت الذیل فی مزاولۃ الفنون الادبیۃ ونظمت من الخرائد مایجلو نواظر البصراء وجمعت من الفرائد ماتقر عیون الادباء الی ان رتبت بعونہ تعالیٰ سبعۃ دواوین وزنت الجواھر الزواھر بسبعۃ موازین وسمیت الدواوین السبعۃ بالسبعۃ السیارۃ۔ ‘‘ ۴۴؎

یعنی حمد وثنا کے بعد، آزاد حسینی بلگرامی عرض کرتاہے کہ میں نے اپنی عمر علوم عربیہ اور فنون ادبیہ سمجھنے سمجھانے میں گزاری ، نیزاللہ کے بفضل وکرم سے ایسے اشعار کہے ہیں ، جن سے اہل بصیرت کی نگاہیں تیز ہوجائیں اور ارباب علم وادب حیرت واستعجاب میں ڈوب جائیں۔ یہ اشعار سات دیوانوں کی صورت میں ترتیب دئے گئے اور انہیں ’’ سبع سیارۃ ‘‘ سے معنون کیا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اس کے بعد مزید تین دیوان شائع ہوئے۔ اس طرح عربی زبان میں دس دیوان سید غلام علی آزاد بلگرامی سے منسوب ہیں۔ ۴۵؎

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ایچ ڈی کے رسالہ کی تیاری کے سلسلے میں ہونے والے اسفارکے دوران میں نے یہ سارے دیوان ہندوستان کی قدیم لائبریریوں میں خود دیکھے ہیں ، جن میں سے کچھ مطبوعہ ہیں اور بعض ہنوز مخطوطہ کی صورت میں ہیں۔

ہم اجمالی طور پر، یہاں ان سے منسوب سارے دیوان پر نگاہ ڈالتے ہوئے ،مختلف جہتوں اور متنوع خصوصیات کے پس منظر میں بعض اشعار قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے پیش کرنے کی سعادتیں حاصل کریں گے۔

ویسے تو سید غلام علی آزاد بلگرامی نے اپنے سارے دیوان کی ابتدا مدائح نبویہ سے کی ہے ، تاہم پہلے دیوان کا بیشتر حصہ اپنے مرکز عقیدت کی تعریف وتوصیف پر مشتمل ہے۔ عام طورپر اشعار شروع کرنے سے پہلے ، اپنا نام ضرور لکھتے ہیں ، جس سے آنے والے دورمیں اشعار کے خلط ملط ہونے کے امکانات بہت حدتک معدوم ہوگئے ہیں۔

سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کا یہ انداز ملاحظہ کیجیے۔


برھان رب العالمین ، حبیبہ فی الامۃ الامیۃ العرباء

ھو نیر اسنی الکواکب ساطع ملا ء الاھلۃ کلھا بسناء

من معشر الانسان الا انہ انسان عین المجد والعلیاء۔ ۴۶؎

جہانوں کے رب کی دلیل اور اس کے حبیب امی لقب ملت عرب کے درمیان

وہ تو روشن کرنے والے ، ستاروں سے بلند چمک رہے ہیں بلند ی سے سارے دورکے ماہتاب پر چھائے ہوئے۔

وہ ہیں تو گروہ انسان سے ، تاہم وہ ایسے انسان ہیں ، جو سراپا عظمت وبلندی ہیں

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

سفر حرمین شریفین کے تذکرہ کے ضمن میں یہ بات گزر چکی ہے کہ وفور شوق میں حسان الہند کسی کو بتائے بغیر ایک صبح پاپیادہ نکل پڑے۔ چند اشعار اسی حوالے سے کہے ہیں :


لوکنت اخبر جیرتی وعشیرتی لتزاحموا بینی وبین رجائی

فخرجت عنھم خائفا مترقبا شوقی امامی والاناس ورائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔

ومشیت من غیر المطیۃ برھۃ مع ان جسمی ضامر الاعضاء۔ ۴۷؎

اگر میں اپنے پڑوسی اور اہل خانہ سے بتادو ں تو وہ میرے اور میری خواہش کے درمیان آڑے آجائیں

لہٰذا میں چپکے سے ڈرتے ہوئے نکل پڑا میرا شوق جنوں میرے سامنے ہے اور لوگ میرے پیچھے ہیں

میں بغیر کسی سواری کے تھوڑی دیر تک پیدل چلا گوکہ میرا جسم نحیف وناتواں اعضاء والا ہے

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یوں تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین اسلام کی اساس ہے اور اس کے بغیر نہ دین مکمل ہے اور نہ ہی معمولات دین ، تاہم اسے جذبہ عشق ، حسن طلب اور قرب بے پایاں کہیے کہ حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی علیہ الرحمہ نے اپنے پوشیدہ احساسات کے اظہار میں کبھی بخالت نہیں کی ہے ، بلکہ جا بجاصاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے۔

مرکز عقیدت سے استمداد کرتے ہوئے کہتے ہیں :


یاسیدی یا عروقی ووسیلتی یاعدتی یامقصدی مولائی

قد جئت بابک خاشعا متضرعا مالی وراء ک کاشف الضراء

ولک الوسیلۃ والفضیلۃ فی غد ولأنت اقدم معشر القضاء

ارجو وآمل من جنابک سیدی شیئا تناول جملۃ النعماء۔ ۴۸؎

اے میرے آقا، اے میرے اصل وجود، اے میرے وسیلہ اے میرے ہدف، اے میرے مقصد ، اے میرے کرم فرما

میں آپ کی چوکھٹ پر لرزتے کانپتے حاضر ہوں آپ کے علاوہ میرے مصائب وآلام دورکرنے والاکوئی نہیں

اورروز محشر آپ ہی کے حصہ میں شرف وسیلہ وفضیلہ ہے اور آپ ہی سب سے پہلے لوگوں کے مسائل حل فرمائیں گے

میرے آقا! میں آپ کی بارگاہ سے امید رکھتاہوں کہ سرور ونعمت کے کچھ چھینٹے مجھ پر بھی برسیں گے

نہایت ہی صاف وصریح الفاظ میں عقیدہ استمداد پر مشتمل یہ شعرپڑھیے۔

اغث آزاد یا مولی الموالی وکن عونا لہ یوم القفول۔ ۴۹؎

اے آقاؤں کے آقا! آز اد کو تھام لیجیے اور حشر کے دن اس کے لیے مددگار رہیے

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اسی حوالے سے یہ شعر بھی دیکھیے۔

احسن الی آزاد یا اسخی الوریٰ ھو فی الارامل افقر الفقراء۔ ۵۰؎

لوگوں میں سب سے زیادہ سخی !آزاد پر کرم فرمائیے کہ یہ ایسا ہے ، جیسے بیواؤں کے درمیان سب سے زیادہ محتاج وفور شوق ومحبت میں حسان الہند نے اپنے آپ کو ’’عبدمصطفی ‘‘ کہہ دیا ہے۔


یا ملجأ الخلق اوصلنی الی املی کریمۃ یدک العلیا ، فخذ بیدی

آزاد عبدک یرجو منک مرحمۃ ولیس غیرک یامولائی ملتحدی۵۱؎

اے مخلوقات کے لیے پناہ گاہ ! میری آرزو پوری فرمائیے آپ کے تو بابرکت بلند ہاتھ ہیں ، میرے ہاتھ تھام لیجیے

آزاد آپ کا غلام ، آپ سے رحمت کا متمنی ہے اور اس کے لیے آپ کے علاوہ اے آقائے نعمت کوئی اور جائے پناہ نہیں

اسی حوالے سے یہ شعردیکھیے۔


آزاد عبدللنبی وآلہ من ثم مفتخر علی الاحرار۔۵۲؎

آزاد تو نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کا بندہ ہے اس طرح اسے دوسروں پر فخر ہے

حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی عجم سے تعلق رکھتے تھے ، تاہم اہل زبان کی طرف عربی پر قدرت حاصل تھی۔ وہ زبان وبیان کی نزاکت، الفاظ وتراکیب کی ندرت اور اشارات وکنایات کے مروجہ اسلوب سے خوب واقف تھے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف میں ان کے مشہور ومعروف قصیدہ کے چند اشعار دیکھیے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ آپ بھی ان کے علوفضل وشرف کے گرویدہ ہوجائیں گے۔


شمس علی اوج الجلال محمد بدر علی افق الکمال محمد

اسری الی الفلک المحدد وانثنی واتی بامکان المحال محمد

منظور رب العالمین حبیبہ قد فاق یوسف فی الجمال محمد

غصن رطیب مثمر یوم الندی ومہند یوم القتال محمد

غیم ملث لایتم صبیبہ اربی علی السحب الثقال محمد

لم یبق فی العھد المقدس سائل اغنی الارامل بالنوال محمد ۵۳؎

محمد صلی اللہ علیہ وسلم عظمت وافتخار کی بلندی پر آفتاب ہیں شرف وکمال کے افق پر روشن ماہتاب ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم

رات میں محدود آسمانوں سے گزرے اور پیچھے چھوڑتے گئے اور امکان کے اعتبار سے مقام محال پر پہنچے محمد صلی اللہ علیہ وسلم

رب کائنات کے منظور نظر اور محبوب حسن وجمال میں یوسف علیہ السلام پر سبقت لے گئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم

آسانی کے دنوں میں پھلوں سے لدی تر وتازہ ٹہنی ہیں اور ایام جنگ میں ہندوستان سے بنی ہوئی تلوار ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم

سرسبز وشاداب کرنے والی بارش ہیں ، جوکبھی نہیں رکتی بوجھل بادل سے کہیں زیادہ سود مند ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم

ان کے مقدس عہد میں کوئی سائل نہیں بچا بیواؤں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے داد ودہش نے بے نیاز کردیا

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

قصائد :

حسان الہند آزاد بلگرامی نے جہاں اپنے حقیقی مرکز عقیدت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف میں نہایت ہی فصیح وبلیغ ،حسین وجمیل اور پرکشش نعتیہ اشعار کہے ہیں ، وہیں فرضی محبوب کے سراپائے حسن وجمال کا بھی نقشہ کھینچاہے۔بطورمثال ہم یہاں ، ’’مرأۃ الجمال‘‘ کے نام سے مشہور ومعروف قصدہ کے چند اشعار نقل کرتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ حسان الہند بلگرامی نے متذکرہ قصیدہ کو بھی ایک نئی جہت سے روشناس کیا ہے۔ کسی دن خیال آیا کہ کسی فرضی محبوبہ کے سارے اعضائے حسن کی تعریف وتوصیف کی جائے۔ ظاہرہے کہ کسی ایک پہلو سے مفروضہ محبوبہ کے حسن وجمال کے تذکرے تو عام طورپرقصائد میںہوتے ہی رہے ہیں ، لیکن ایک ہی قصیدے میں سارے اعضائے وجوارح کے اوصاف بیان کرنے کی روایت آپ سے پہلے کسی سے منسوب نہیں ہے۔اور یہ اعتراف بھی وہ خود ہی کرتے ہیں۔ ۵۴؎

یہ قصیدہ ایک سوپانچ اشعار پر مشتمل ہے ، جس میں ہر عضو کے حوالے سے دواشعار موجود ہیں ؛

محبوبہ کی چوٹیوں کے حسن وجمال کا نقشہ کھینچتے ہوتے کہتے ہیں :


اضفیرتان علی بیاض خدودھا اوفی کتاب الحسن سلسلتان

اولیلتا العیدین اقبلتا معا او من قصائد ھم معلقتان۔ ۵۵؎

کیا اس کے روشن وتابناک رخسارپر دوچوٹیاں ہیں یا کتاب حسن کے دوسلسلے ہیں

کیا عیدالفطر اور عیدالاضحی کی دونوں راتیں بیک وقت آگئیں یا پھر ان کے قصائد کی لڑیاں ہیں

اسی طرح ہونٹ کی خوبصورتی بیان کرتے ہوئے کہتے :


شفۃ الفتاۃ عقیقۃ یمنیۃ تشفی مویھتھا صدی الظمآن

رطبان کل منھما ذو حمرۃ متفاخر باللوان والحلوان۔۵۶؎

دوشیزہ کے ہونٹ یمنی عقیق جیسے ہیں جس کی تری پیاسے کی روح کو سیراب کردیتی ہے

دونوں رسیلے اور سرخ ہیں جن کی سرخی اور شیرینی پر فخر ہے

اسی طرح پیشانی کے حوالے سے کہتے ہیں :


جبھتھا المضیئۃ فی الدجٰی وھب الالہ علو مکان

ھی نصف بدر کامل لکنھا تربو علی القمرین فی اللمعان ۵۷؎

اس کی روشن پیشانی تاریک رات میں جسے اللہ تعالیٰ نے بلند مقام عطافرمایا

ویسے تویہ بدرکامل کا نصف دکھائی دیتاہے ، لیکن چاندکے دونوں حصوں سے زیادہ تابناک ہے

حسان الہند بلگرامی نے یوں ہی فرضی محبوبہ کے اعضاء وجوارح کے حسن وجمال کی تصویر کھینچتے ہوئے ۱۰۵ اشعار میں یہ قصیدہ مکمل کیاہے۔

حکایات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اسے حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی کا ملکہ شعری کہیے کہ انہوں نے بڑی بڑی حکایات کو شعری قالب میں سمیٹنے کی کامیاب نہ صرف کوشش کی ہے ، بلکہ اس حوالے سے ایک مستقل کتاب چھوڑی ہے ، جسے ’’مظہر البرکات ‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ میں نے یہ کتاب مخطوطہ کی صورت میں سالارجنگ میوزیم حیدرآبادمیں دیکھی ہے ، جو ۲۳۲صفحات پر مشتمل ہے۔۱۹۸۰ء؁ میں ڈاکٹر مہرالنساء شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کی نگرانی میں، جناب محمد فضل الدین نے اس پر پی ایچ ڈی کی ہے ، تاہم میرے علم کے مطابق یہ اب تک غیر مطبوعہ ہے۔ میں نے یہ تحقیقی مقالہ جامعہ عثمانیہ کی مرکزی لائبریری میں دیکھا اور کچھ حصہ پڑھا بھی ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

خیال رہے کہ ’مظہر البرکات ‘ نہ صرف حسان الہند آزاد بلگرامی کی قادرالکلامی پر دلالت کرتی ہے ، بلکہ ان کی زودنویسی پر بھی سب سے بڑھ کر شہادت دیتی ہے۔ یہ حقیقت خود انہیں کی زبانی سماعت کیجیے۔

’’۔۔۔۔۔ فنظمت ھذہ المزدوجۃ احد وخمسمائۃ بیت فی عشرین یوما فی رجب سنۃ ثلاث وتسعین ومائۃ والف وسمیتھا ’ مظہرالبرکات۔‘‘ ۵۸؎

۔۔۔۔۔ لہٰذا میں نے یہ مزدوجہ بیس دنوں میں مکمل کیا، جو ۵۰۱ اشعارپر مشتمل ہے ، اور اسے مظہر البرکات سے موسوم کیا۔

اندازہ لگائیے کہ صرف بیس دنوں میں پانچ سو ایک اشعار کہہ ڈالے ، یعنی یومیہ پچیس اشعار۔ کوئی شک نہیں کہ یومیہ پچیس اشعار کہہ لینا کوئی معمولی امر نہیں ہے ،بلکہ کوئی دن بغیر ایک شعر کہے بھی گزرنے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔ اس طرح یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ حسان الہند آزاد بلگرامی ایک دن میں پچاسوں اشعار کہنے کی قدرت تامہ رکھتے تھے۔

ہم یہاں ’مظہر البرکات ‘ سے صرف ایک مثال پیش کرنے پر اکتفاء کریں گے۔

حکایۃ الامیر خسروالدھلوی

خسروالھند صاحب العرفان والعدیم النظیر فی الاقران

جوھر قابل من الاتراک بشر کامل من الاملاک

شیخہ المقتدیٰ نظام الدین نورہ فی الدجیٰ نظام الدین

مصرہ زینۃ الثریٰ دہلی نزھۃ العین للوری دھلی

صام للہ اربعین سنۃ فماذاقت العیون سِنۃ

ھو فی الفرس شاعر مشہور فی فنون کثیرۃ دستور

قد اتانا باعذب الکلمات ھی ماء الحیاۃ فی الظلمات

کل الفاظہ جمانات ودواوینہ خزانات

ھو فی ما قالہ عدیم المثل عام ترحالہ’عدیم المثل ‘

ذکرہ فی تراجم النفحات داخل فی مجالس الحضرات

کان فی عصرہ جلال الدین ملک الھند قابل التحسین۔ ۵۹؎

ہندوستان کے خسرو ، جو صاحب عرفان ہیں اور اپنے ہم عصروں میں بے مثال ہیں

ترکی النسل شاہی خاندان سے مکمل انسان

ان کے شیخ حضرت نظام الدین اولیا ء تاریک رات میں ان کے لیے راہنما حضرت نظام الدین اولیاء

ان کا شہر ، دولت وثروت کی آماجگاہ دہلی لوگوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک دہلی

چالیس سالوں تک روزہ دار رہے آنکھوں نے ایک لمحہ کے لیے آرام نہیں کیا

وہ فارسی کے بڑے مشہور شاعر اور کئی فنون وعلوم کے مرجع

انہوں نے نہایت ہی شریں کلام ہمیں عطاکیا جو ظلمت وتاریکی میں مائے حیات ہے

ان کے الفاظ موتیوں کی طرح ہیں اور ان کے دیوان خزانے ہیں

وہ اپنے کلام میں عدیم المثال ان کے وصال کی تاریخ ’عدیم المثل‘

ان کاتذکرہ اصحاب شہرت کے درمیان لوگوں کی مجالس میں شامل

ان کے عصر میں جلال الدین جو قابل تعریف بادشاہ ہندوستا ن

یہ قصیدہ تیس اشعار پر مشتمل ہے ، جس میں حسان الہندبلگرامی نے حضرت شیخ امیر خسرو رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان کے حالات وکوائف کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

کلمۂ اختتام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسان الہند حضرت غلام علی آزاد بلگرامی نہ صرف اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہے ، بلکہ ان سے پہلے اور ان کے بعدبھی ہندوستان کی سرزمین پر ایسی بہت کم شخصیات نے جنم لیا ہے ، جنہیں بیک وقت مختلف علوم وفنون اورمتنوع زبانوں پرکامل عبور حاصل ہو۔ عقل حیران ہے کہ موصوف نثر ونظم پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ اچھا پھر صرف تصنیف وتالیف اورشعروشاعری تک ہی خدمات محدود ہوتے تو کسی امتیازی خصوصیت سے متصف کرنے میں بحث ومباحثہ کی گنجائش باقی رہتی ، تاہم حسان الہند غلام علی آزاد بلگرامی کی حیات وخدمات پر نگاہ ڈالنے سے یہ امر کسی طور مخفی نہیں رہ سکتا ہے کہ جناب نے ہر میدان میں نت نئے افکار وخیالات کے گل بوٹے سجانے کی کامیاب کوشش کی ہے ، بطور مثال، نثری تالیف میں’’ شمامہ العنبر فی ما ورد فی الہندمن سید البشر‘‘ پیش کی جاسکتی ہے ، نیز سبحۃ المرجان میں ہندوستانی تہذیب کی روشنی میں خواتین کے اقسام سے استفادہ کرتے ہوئے عربی مصلحات کی ایجاد کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

نئے صفحات

اور شعروشاعری کے پس منظر میں درجنوں ایسی جہتیں دکھائی جاسکتی ہیں ، جو آپ کے اختراعات میں شامل ہیں۔ بات بغیر دلیل کے نہ رہ جائے ، اس لیے پانچویں دیوان میں بحر المتقارب اور رکض الخیل میں مستزاد ، چھٹے دیوا ن میں عربی زبان میں ترجیع ،بحرخفیف میں عربی مزدوجہ وغیرہ کی مثالیں دیکھیے ، جن میں تحدیث نعمت کے طورپر خود حسان الہندآزاد بلگرامی نے ذاتی اختراعات کی صراحت کی ہے ، نیز مرأۃ الجمال میں سارے اعضائے محبوبہ کی تعریف وتوصیف بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اخیر میں یہ اعتراف ضروری ہے کہ میں نے موصوف کی شخصیت پر پی۔ایچ۔ڈی کرتے ہوئے عربی زبان میں مقالہ پیش کیا تھا، تاہم یہ خواہش ہمیشہ رہی کہ اہل اردو کے لیے اختصار کے ساتھ آپ کی حیات وخدمات پر کچھ گفتگوکروں ، لیکن امروز وفردامیںبات ٹلتی رہی۔ اور جویہ چند سطریں آپ کے سامنے ہیں ، تو یہ سب مولانا ڈاکٹر سراج احمد قادری اور جناب فیروز احمدسیفی کے پیہم اصرار کا نتیجہ ہے۔ مولائے قدیر ’دبستان نعت‘ کو سلامت رکھے۔


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
نعت کائنات پر نئی شخصیات
نئے صفحات

حواشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱- دیکھئے، مآثر الکرام ، ص: ۱۶۱

۲۔ سبحۃ المرجان ، ج:۱، ص:۲۹۹

۳۔ سبحۃ المرجان ، ج: ۱، ص:۲۹۹

۴۔ دیکھئے۔ سبحۃ المرجان ، ج:۱، ص:۲۹۹

۵۔ دیکھیے ، خزانہ عامرہ ، ص: ۱۶۴

۶۔ دیکھیے ، سہ ماہی اردو، شمارہ : ۱، ۱۹۸۳؁ء ، ص:۳۷

۷۔ نفس مصدر

۸۔ دیکھئے ، مآثر الکرام ، ص:۳۰۳

۹۔ دیکھئے ، سبحۃ المرجان ، ج:۱، ص:۳۰۰

۱۰۔ مآثر الکرام ، ص:۳۰۷

۱۱۔ دیکھیے ، سبحۃ المرجان ، ج:۱، ص:۳۰۰

۱۲۔ دیکھیے ، تذکرہ جلوہ خضر، ج:۱، ص:۱۰۳

۱۳۔ سبحۃ المرجان ، ج:۱، ص:۳۰۲

۱۴۔ نفس مصدر، ج:۱، ص: ۳۰۳

۱۵۔ دیکھیے ، نفس مصدر، ج:۱، ص:۳۰۷

۱۶۔ دیکھیے ، سہ ماہی اردو ، شمارہ : ۱، ۱۹۸۳ء؁ ، ص:۲۷

۱۷۔ دیکھیے ، اردو دائرۃ معارف اسلامیہ ، ج: ۱، صـ۱۰۵

۱۸۔ مآثر الکرام ، ص: ۱۶۳

۱۹۔ دیکھیے ، اردو دائرۃ المعارف، ج:۱، ص:۱۰۵، نیز سہ ماہی اردو، شمارہ: ۱، ۱۹۸۳ء؁ ، ص:۳۰

۲۰۔ قرآن کریم ، سورت:۱۸، آیت: ۷۸

۲۱۔ دیکھیے ، سہ ماہی اردو ، شمارہ : ۱، ۱۹۸۳ء؁ ص:۳۷

۲۲۔ مقدمہ : ڈاکٹر محمد فضل الرحمن، سبحۃ المرجان ، ج:۱، ص: الف

۲۳۔ حال ہی میں یہ کتاب ڈاکٹر علیم اشرف جائیسی ، مولانا آزاد اردویونی ورسٹی کے اردوترجمہ کے ساتھ’’تفسیر وحدیث میں ہندوستان کا تذکرہ ‘ کے نام سے ہندوپاک کے اشاعتی اداروں سے شائع ہوئی ہے۔

۲۴۔ سبحۃ المرجان ، ج:۱، ص:۷

۲۵۔ سبحۃ المرجان ، ج:۱، : ۸

۲۶۔ نفس مصدر، ص:۴۸

۲۷۔ دیکھیے ، نزھۃ الخواطر ، ج:۱، ص:۱۸

۲۸۔ سبحۃ المرجان ، ج:۲، ص:۱

۲۹۔ نفس مصدر، ج:۲، ص:۳۹

۳۰۔ قرآن کریم ، سورت: ۴۲، آیت: ۱۱

۳۱۔ قرآن کریم ، سورت: ۸۹ ، آیت: ۷

۳۲۔ سبحۃ المرجان ، ج:۲، ص:۴۲

۳۳۔ نفس مصدر، ج:۲، ص:۳۳۸

۳۴۔ نفس مصدر ، ج:۲، ص: ۳۴۱۔۳۴۵

۳۵۔ ضوء الدراری ، ص:۱

۳۶۔ ارشادالساری ، ج:۳، ص:۶۳

۳۷۔ ضوء الدراری ، ص:۷۰

۳۸۔ شفاء العلیل ، ص:۱

۳۹۔ نفس مصدر

۴۰۔ شفاء العلیل ، ص:۳

۴۱۔ شفاء العلیل ، ص:۳

۴۲۔ نفس مصدر، ص:۵

۴۳۔ تقی رضا بلگرامی نے ’ سبع سیارۃ ‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ فارسی زبان کے اشعار پر مشتمل ہے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ رائے سرتاسر بے بنیاد اور غلط ہے۔ دیکھیے ، سہ مارہی اردو، شمارہ : ۱، شمارہ :۱۹۸۳ء؁ ، ص: ۴۱

۴۴۔ مقدمۃ الدیوان السبع ، ص: ۳۱۰

۴۵۔ دیکھیے ، آزاد بلگرامی واثراء ہ فی اللغۃ العربیۃ وآدابھا: ڈاکٹر غلام زرقانی قادری، ص: ۱۳۳

۴۶۔ الدیوان الاول ، ص:۳

۴۷۔ نفس مصدر، ص:۴

۴۸۔ الدیوان الاول ، ص:۵

۴۹۔ نفس مصدر، ص:۳۳

۵۰۔ الدیوان الثانی ، ص:۳

۵۱۔ الدیوان الاول ، ص:۱۵

۵۲۔ الدیوان السادس ، ص:۲۶۳

۵۳۔ الدیوان الثامن ، ص:۹

۵۴۔ دیکھیے ، دیوان آزاد، مخطوطہ خدابخش خاں لائبریری ، پٹنہ ، ص:۱۹۷

۵۵۔ نفس مصدر، ص:۱۹۷

۵۶۔ نفس مصدر ، ص: ۱۹۱

۵۷۔ نفس مصدر ، ص: ۱۹۲

۵۸۔ مقدمۃ مظہرالبرکات ، ص:۴

۵۹۔ مظہر البرکات ، دفتر اول ، ص: ۳۵۔۳۷