حسرت موہانی کا شعرِ عقیدت ۔ خورشید ربانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Khursheed Rabbani.jpg

مضمون نگار: خورشید ربانی

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Hasrat Mohani possessed a multi -faceted personality. He was a political activist and leader, a poet, a spiritual leader and practical Muslim, a devoted lover of Holy Prophet Muhammad (S.A.W), a journalist and literary historian. The article presented here covers some spiritual aspects of life of Maulana Hasrat Mohani .It also sheds light on his poetic sensibility, emphasizing reflection of his deep routed emotions for creating devotional poetry i.e. Hamd and Naat with examples from such poetry.

حسرتؔ موہانی کا شعرِ عقیدت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مولاناحسرتؔ موہانی کے بغیر اردو شاعری اور بالخصوص غزل کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی ، میرؔ اور غالبؔ جیسے عظیم شعراء کی فہرست میں بلا شبہ ان کا نام پہلے دس شاعروں میں شامل ہے ۔ حسرت ؔ بیک وقت ایک اہم غزل گواور منفرد سیاست دان تھے،صوفی بھی تھے اور باکمال صحافی بھی۔

حسرتؔ موہانی نے غزل کی روایت کو اس وقت سہارا دیا جب اس کا تناور درخت بادِ خزاں کی زد پر تھا اور اس کے برگ وبار بکھر رہے تھے۔حسرت ؔ نے غزل کے شجر کو اپنے جذبوں اور فکر سے سیراب کرکے اسے تروتازہ کردیا۔انہوں نے خلوص کوبنیاد بنا کرتغزل سے بھر پور ایسی غزل لکھی کہ وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی۔

حسرتؔ موہانی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے بدل سیاست دان بھی تھے،ان کی سیاسی زندگی حق گوئی اور بیباکی سے عبارت ہے،ان کا خلوص،سچائی،انکسار،معصومیت اوربھولا پن اپنی مثال آپ تھا،ان کی عظمتِِ کردار کے تو ان کے مخالفین بھی معترف تھے۔حسرتؔ آئینے کی طرح شفاف بھی تھے اور’’ شیشے کی طرح صاف بھی کہ جس کے آرپار دیکھاجا سکتاہے اور جس کا ظاہر وباطن ایک ہوتا ہے‘‘(سجادباقررضوی۔تہذیب وتخلیق۔ص129)۔ان کی منفرد اور بے مثال شخصیت کا ایک عالم گرویدہ ہے۔سید مقصود زاہدی اپنی کتاب’’یادوں کے سائے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ مولانا کا تغزل اور تصوف ،دونوں انہیں ہنگامہ ہائے ہو سے گوشہ ء تنہائی میں لے جاتے تھے۔یہ مولانا کی زندگی کاسب سے بڑا تضاد رہا۔ایک ہی ذات میں بیک وقت اتنی صفات کا اجتماع لاکھوں کیا کروڑوں انسانوں میں کسی ایک میں بہ مشکل مل سکتا ہے۔ایک حسن پرست ،حسن کا ادا شناس شاعر،ایک صوفی صافی، اشتراکی اور انقلابی تصورات کا حامی۔انگریزسامراج کا دشمن،حق بات پر مٹنے والی کوہ ثبات طبیعت اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ایک عاجز و مسکین،گدائے بوریہ نشین،محنت و مشقت کی توفیق کو سب سے بڑی سعادت سمجھنے والا۔کبرو نخوت،زاہدانہ غرور سے متنفر،سادہ و بے ریا انسان مشکل ہی سے پید اہوتا ہے۔‘‘حسرتؔ کی صحافتی خدمات بھی بے مثل ہیں۔

حسرت ؔ موہانی خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے ، ان کی زندگی کے تین رنگ سب سے نمایاں رہے ایک تو سیاسی رہنما کی حیثیت ہے جو اپنی مثال نہیں رکھتی ، دوسری خوبی ان کی غزل گوئی ہے جو معاصر شعراء میں منفرد رہی اور تیسر ی جہت ان کی مذہب سے محبت ہے ، دینِ الہی کی پیروی کے ساتھ وہ عشقِ رسولؐ کی دولت سے بھی مالامال تھے اور اسی سبب حمد، نعت اور منقبت گوئی ان کاوصفِ خاص رہی ، انہوں نے چمن زارحمدو نعت میں جو دل آویز شگوفے کھلائے ہیں ان کی مہک سے اہل ایمان کے دل آج بھی معطر ہیں ، رئیسہ موہانی (حسرت ؔ کی بھتیجی) لکھتی ہیں

’’ تصوف میں یوں تو مولانا کو خاص تعلق تھا لیکن بار بار کی قیدِ فرنگ میں اس رنگ نے اور بھی پختگی اختیار کی ، مولانا کا قول ہے کہ ’’تصوف جانِ مذہب ہے اور عشق جانِ تصوف‘‘ اور وہ اس بات کا اکثر ورد کرتے رہتے تھے ، یہ مذاق حسرت ؔ پر اس قدر غالب ہے کہ ان کے کلام میں اس کی جھلک نظر آتی ہے ، کلیاتِ حسرتؔ کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے راہِ سلوک و تصوف کو طے کر لیا تھا ۔ فنا فی الشیخ سے فنا فی الرسول Vوئے اور درجۂ کمال یعنی فنا فی اللہ بھی حاصل کر لیا۔‘‘ (1)

حسرت ؔ کو قادریہ کے ساتھ چشتیہ سلسلہ میں بھی خلافت حاصل تھی ۔ اس کی تفصیل ان کے ایک خط بنام مولانا عبدالباریؒ میں موجود ہے ۔

’’از یرودا سنٹرل جیل

شعبان المعظم

مخدومی و مطاعی! بعد سلامِ مسنون گذارش ہے کہ اس وقت تک میں نے شرم کے سبب سے اپنا حال آپ کو نہیں لکھا تھا مگر آج بہ ایمائے خاص بذریعہ عریضہ ہذا درخواست کرتا ہوں کہ بہ وقت ضرورت مجھ کو سلسل�ۂچشتیہ صابریہ ، رزاقیہ انواریہ ، والیہ رزاقیہ میں بیعت لینے کی اجازت مرحمت ہو ۔ میں آپ کی اجازت کو اپنے اور آپ کے مرشد علیہ الرحمتہ کی اجازت کا قائم مقام سمجھوں گا۔ درصورت منظوری ء درخواست،اگر جواب بذریعہ تار مرحمت ہو تو اور بھی خوب ہو‘‘۔

خاک پائے شما و بزرگانِ شما : فقیر حسرتؔ موہانی

اس خط کے جواب میں مولانا عبدالباری صاحب نے لکھا کہ

’’آپ کا خط مولانا عبدالولی صاحب کے عرس کے دوران پہنچا جو آپ کی شرکت کا قائم مقام ہے ۔ میں آپ کو مطلوبہ اخذ بیعت کی اجازت بہ خوشی دیتا ہوں اور اپنے لیے باعثِ افتخار و مغفرت سمجھتا ہوں۔ ‘‘ (2)

اجازت بیعت طلب کرنے کے حوالے سے نعیمہ بیگم کا بیان ہے کہ

’’ حسرت ؔ جیل میں کسی قیدی کو بیعت کرنا چاہتے تھے ۔ اس لیے اجازت طلب کی تھی۔‘‘(3)

مولانا جمال میاں نے لکھا ہے کہ

’’ مولانا کو دوسرے سلاسل میں بیعت لینے کی اجازت ان کے مرشد زادے نے دے دی تھی لیکن شاگردانِ شاعری کی طرح مریدانِ حسرتؔ کی تعداد بھی بہت مختصر ہے‘‘۔4))

طرزِ طریقت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مولانا جمال میاں کا بیان ہے کہ

’’ حسرت ؔ موہانی اپنے سلسلہء طریقت کے سلوک اور ریاضت سے آگاہ تھے ۔ ان کی طریقت ایک طرف مجاہدات اور مکاشفات سے وابستہ ہے تو دوسری طرف ان کے سیاسی افکار پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ وہ ایک سچے درویش کی طرح زندگی بھر سازو سامان سے بے نیاز رہے ۔ کبھی کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کیا ، قید کے مصائب خوشی اور صبر سے برداشت کیے ۔ کبھی مایوس اور ملول نہیں ہوئے‘‘ ۔ (5)

طالبانِ حق کو جو کچھ چلہ کشی اور ریاضت سے حاصل ہوتا ہے حسرتؔ کو وہ سب چکی کی مشقت اور جیل خانوں کے اعتکاف سے مل گیا ۔’’ مشاہداتِزنداں‘‘ کے اوراق گواہ ہیں کہ سیاسی جدوجہد اور قید و بند کے سارے مراحل انہوں نے ایک صوفی کے انداز سے طے کیے ۔ ان کے سیاسی نظریات کلیتاً ان کی درویشی کا نتیجہ تھے ۔ مولانا حسرتؔ نے متعدد بار اس کا اظہار کیا کہ ان کی بے انتہا قوتِ برداشت اور فطری شادمانی و بے غمی کا سرچشمہ ان کا ذوقِ تصوف اور جذبۂ عشق ہے ۔

عشقِ بتاں سراجِ طریقِ صفا بنا

حق الیقیں تک آئے ہیں عین الیقیں سے ہم

مولانا حسرتؔ ، صاحبِ نسبت تھے ، اپنے مرشدین سے اکتسابِ فیض کرتے رہتے، ان کے سلسلہء طریقت میں صفائیِ باطن اور تہذیبِِ اخلاق کے ساتھ شریعت کی پابندی لازمی ہے حسرت ساری زندگی اس پر کاربند رہے ۔ بقول مولانا جمال میاں

’’ طریقت نے ان کو سب سے بڑی نعمت یہ عنایت کی کہ وہ صوم و صلوٰۃ ، حج اور خیرات کی انتہائی پابندی اور منہیاتِ شریعت سے مکمل احتراز کے باوجود تقشف کی خشونت اور زہد کے غرور سے محفوظ رہے‘‘ ۔ (6)

کلیاتِ حسرتؔ اس بات کی شاہد ہے کہ انہوں نے راہِ سلوک و تصوف طے کر لی تھی ، فنا فی الشیخ سے فنا فی الرسول ہوئے اور درجۂ کمال فنا فی اللہ حاصل کر لیا ۔ کلیات کے ابتدائی حصوں میں شیوخ کی مدح سرائی ہے اور آخر میں زیادہ ترحمد و نعت ۔پروفیسر عبدالشکور کے بقول

’’عشقِ مرشد بڑھتے بڑھتے عشقِ رسول Vتک پہنچا اور قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سرمایہ کے فقدان کے باوجود انہوں نے 14حج کیے‘‘) 7)

قلبی کیفیات اور زیارتِ رسولV:

حسرت ؔ کی زندگی انسانی عظمت کے واقعات اور تصوف و روحانیت کے آثارِ دل پذیر سے بھری پڑی ہے ۔ عشقِ رسولV ، اہلِ بیت سے محبت اور اولیاء سے عقیدت کا اظہار شاعری اور شخصیت ہر دو مظاہر میں نمایاں ہے ۔ مولانا جمال میاں نے ان کی ذاتی ڈائری سے چند واقعات ایسے نقل کیے ہیں جن سے ان کی قلبی کیفیات اور رویائے صادقہ کی تفصیل معلوم ہو جاتی ہے۔ (8)

’’آج بیگم حسرت ؔ مرحومہ کا فاتحہ تھا ۔ حسبِ معمول میں نے بتاشوں پر نیاز دے کر بچوں میں تقسیم کر دیے ۔ میرا تجربہ ہے کہ ہر ماہ کی گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں تاریخ کی درمیانی شب میں پہلی بار رسول اللہ (V) کی زیارت نصیب ہوئی ۔ حضورؐ تہہ بند میں لپٹے ہوئے تھے اور جسمِ مبارک پر ایک کوٹ نما قمیض تھی اور شکل مبارک کا ایک حصہ فقیر کی نظروں میں اس وقت تک موجود ہے ۔ ایک قلعہ نما عمارت میں پہلی مرتبہ حاضری کا اتفاق ہوا اور وہیں شناسائی کی دولت نصیب ہوئی ۔ قلعہ کے باہر میدان میں ایک بڑی جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جا رہی تھی ۔ ایک رکعت ختم ہو گئی تھی ۔ میں رسول اللہ(V) سے دور تھا مگر میں نے دوڑ کر حضور ؐ کے قریب جا کر جماعت میں شرکت کی اور پہلی رکعت نہ ملنے کی پروا نہ کی ۔ بعد نماز کرسیوں پر جماعت بیٹھی رہی ۔ حضورؐ نے اپنے سامنے ایک قاب سے دو نارنگی کی پھانکیں مجھ کو خاص طور عطا کیں ۔ سب لوگوں نے اس لطفِ خاص پر مجھ کو مبارک باد دی ۔ میرے خیال میں یہ پھانکیں اس کی علامت تھیں کہ حضور ؐ کو درویشی کی اشاعت منظور ہے‘‘

’’13مارچ 1942کی رات کے خواب کا آج دن بھر دل پر اثر رہا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ(V) کو شاید آزادئ مسلمینِ ہند کا مجھ سے کام لینا ہے ۔ اب مجھ کو یاد آتا ہے کہ پہلے سفرِ حج کے موقع پر جبلِ احد پر چلہ میں نے اس لیے باندھا تھا کہ انگریزوں کی حکومت کا ہندوستان سے خاتمہ ہو جائے۔ رات کے خواب کی نسبت میں یہ دو باتیں اور یاد آئیں ۔‘‘

۱۔ یہ کہ نماز سے پہلے ہی قلعہ میں حضورؐ کی نظر مجھ پر پڑ چکی تھی اور حضور ؐ نے خوب پہچان کر توجہ کے لیے مخصوص کر لیا تھا۔

۲۔ اجلاسِ عام میں جب پہلے اُلش ایک رکابی جملہ حاضرین میں تقسیم کی گئی اور ہر شخص کو چند دانہائے انار نصیب ہوئے،مجھ کو بھی ملے۔نارنگی کی پھانکیں صرف مجھ کو ملیں۔

’’رات یعنی 2اور 3 اپریل کی درمیانی رات میں دو بجے دفعتاً رسول اللہ(V) کی زیارت دوبارہ نصیب ہوئی ۔ ایک مربع کمرے میں آپؐ استراحت فرما رہے تھے ۔ صورت قاضی محمد حامد حسرت فیض آبادی سے مشابہہ تھی ۔ فرطِ شوق میں جب میں دست بوسی کے قریب ہوا تو حضورؐ نے لیٹے لیٹے دستِ مبارک میری طرف بڑھا دیا اور میری اس بے باکی کو گستاخی پر محمول نہ فرمایا بلکہ بہ تبسم کچھ نصیحتیں کیں جو مجھے یاد نہ رہیں‘‘ ۔(9)

دنیا و آخرت کے بادشاہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں کہ

’’ ہر چند تغیر کائنات کا لازمی قانون ہے مگر حقائق زندگی تبدیل نہیں ہوا کرتے ۔ وہی صبح و شام وہی چاند سورج ، وہی زمین و آسمان ، وہی فطرتِ انسانی ، وہی فطری کائنات ہے لیکن کسی کی صبح عزم و ارادے کی ایک نئی صبح اور احتساب عمل کی ایک نئی شام ہوتی ہے اور کوئی کسی اور لذتِ نفس میں زندگی کے دن گزارتا ہے گویا اس کے لیے :

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یونہی تمام ہوتی ہے

دونوں ہستی کے بحرِبے کنار میں موجوں سے کھیلتے ہیں ، ایک تیر کرنکل جاتا ہے ، نظروں سے اوجھل ہوتا ہے او ر حیاتِ تازہ پاتا ہے ۔ دوسرا تیرتا نہیں نفس و نفسیات کے سمندر میں اپنے جذبات کا غلام بن کر بہتا چلا جاتا ہے ۔ اس کی مثال ان خس و خاشاک کی سی ہے جن کو نہیں معلوم کہ ان کا ساحل کہاں ہے ۔ دونوں کی زندگی کے مقاصد پورے نہیں ہوتے ۔ دونوں آرزوؤں کی ایک دنیا لے کر جہانِ فانی سے رخصت ہوتے ہیں لیکن ایک حسرتِ مہجور کے ساتھ یہ کہتا ہوا جاتا ہے کہ

بے خودی میں اب نہیں کچھ امتیازِ وصل و ہجر

رات دن پیشِ نظر ہے جلوہء نیکوئے دوست

دنیا کے فقیر ، آخرت کے فقیر[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسرت ؔ موہانی کا شمار لوگوں کے دوسرے گروہ میں کریں گے یعنی آخرت کا بادشاہ اور دنیا کا فقیر۔ لیکن اگر ذرا وسیع النظری سے دیکھا جائے اور اقلیمِ ملک و سلطنت میں ، اقلیمِ سخن میں دوسرا خاموش ، مایوس ، اپنی حسرتوں میں ڈوبا ہوا رخصت ہو جاتا ہے جس کی ترجمانی غالبؔ مرحوم کو کرنا پڑتی ہے ۔

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یا رب! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

انسان کے انہیں افکار و اعمال کی بنا پر اسلامی نقطہء نظر سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے ان کی چار قسمیں بیان کی ہیں ۔

۱۔ دنیا کے بادشاہ ، آخرت کے فقیر

۱۲۔ آخرت کے بادشاہ ، دنیا کے فقیر

۳۔ دنیا کے بادشاہ ، آخرت کے بادشاہ

اور اقلیمِ قلوب کو بھی شامل کر لیا جائے تو انہیں دنیا کا بادشاہ اورآخر ت کا بھی بادشاہ کہنا پڑے گا‘‘ ۔ (10)

سچے اور اچھے مسلمان :

ابراہیم جلیس نے لکھا ہے کہ

’’ ایک بار میرے ایک عیسائی دوست نے مجھ سے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں ۔ میں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا احتشام الحق کے پاس چلے جائیں تو وہ انہیں مسلمان کر لیں گے لیکن وہ اگر سچے اور اچھے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو مولانا حسرت ؔ موہانی کی زندگی کا غور سے مطالعہ اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت حاصل کریں ۔ پیغمبروں اور خلفاء راشدین کی زندگی سے قطع نظر عام انسانوں کی زندگی میں مجھے صرف دو آدمی ایسے نظر آتے ہیں جو غریبوں بلکہ فقیروں کی سی زندگی گزارنے کے باوجود دنیا کے بڑے اور نامور لوگوں سے زیادہ بڑے ہیں ۔یہ دو بڑے غریب آدمی حسرتؔ موہانی اور گاندھی جی تھے اور ان دونوں میں حسرتؔ کو ہر اعتبار سے شرفِ اولیت اس لیے حاصل ہے کہ انہوں نے غریب انسان کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ نیا تھا نہ ان کا اپنا دریافت کردہ بلکہ یہ راستہ خدا کے سب سے زیادہ محبوب بندے حضرت محمدV کے قدموں سے پھوٹا تھا ۔ پھر اس راستہ کو عظمت، خلفائے راشدین نے عطا کی تھی اور میں نے اپنی زندگی میں صرف مولانا حسرت ؔ موہانی کو اس راستے پر گامزن دیکھا ہے ۔ اس راستے سے ہی حضرت عمر فاروقؓ اپنے اونٹ کی مہار پکڑے گزرے تھے جس پر ان کا غلام سوار تھا اور صدیوں بعد اس راستے پر حسرت ؔ موہانی اپنا بستر اپنے ہاتھ سے اٹھائے دیکھے گئے‘‘۔ (11)

پابندیِ نماز[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

الطاف علی بریلوی لکھتے ہیں کہ

’’ جنگِ عظیم دوم پورے شباب پر تھی ، ان دنوں مجھے حیدر آباد سے واپسی کے لیے سکندر آباد اسٹیشن سے ریل میں سوار ہونا تھا لیکن یہ کام آسان نہ تھا ، فرسٹ اور سکینڈ کلاس فوجی آفیسرز کے لیے ریزرو تھی ، انٹر تھا نہیں اور تھرڈ کلاس میں عام سپاہیوں کا ایسا ہجوم تھا کہ الامان والحفیظ ۔ بہرحال چند دوستوں کی مدد اور محنت سے مجھے ایک ڈبہ کے اندر جگہ مل گئی ۔ ٹرین کی روانگی سے قبل کیا دیکھتا ہوں کہ مولانا حسرتؔ موہانی ایک برقع پوش خاتون (بیٹی) کے ہمراہ اسی ڈبہ میں سوارہونے کی کوشش میں مصروف ہیں ، مجھ سے ضبط نہ ہوا اور اٹھ کر مولانا کے پاس گیا ۔ سہارا دے کر انہیں ، ان کے سامان اور شریکِ سفر خاتون کو ڈبہ کے اندر لے آیا اور عرض کی کہ وہ میری سیٹ پر تشریف رکھیں ۔ اس پر مولانا نے جواب دیا کہ میں وہاں نہیں بیٹھوں گا ۔ غسل خانہ دور ہو جائے گا اور مجھے نماز کے لیے وضو کی خاطر دقت ہو گی ۔ چناں چہ وہ دروازہ کے قریب اپنے سامان پر ہی بیٹھ گئے۔ دہلی پہنچتے پہنچتے 36 گھنٹے ایسی شدید مصیبت میں گزرے کہ بیان کرنا مشکل ہے ۔ ہوائی حملے کے خوف سے رات کو مکمل بلیک آؤٹ ہوتا ۔ رفعِ حاجت یا راستہ میں کسی اسٹیشن پر اتر کر کچھ کھانے پینے کا تو سوال ہی نہ تھا ۔ اذیت نا ک چیز وحشی سپاہیوں کی اودھم بازی ، گالی گلوچ اور دوسری ناقابل تحریر شرم ناک حرکتیں تھیں ۔ اس ساری کرب ناک کیفیت میں مولانا مسلسل غسل خانہ جا کر وضو کرنے اور نماز پڑھنے سے غافل نہ ہوئے ۔و اللہ کیسا عزم و استقلال اور کیسی دین داری تھی‘‘ ۔ (12)

روحانی مرتبہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مولانا جمال میاں کا بیان ہے کہ

’’حسرتؔ کی زندگی کا معیار ایسا تھا جو صرف کتابوں میں پڑھا جاتا ہے ، وہ ایک چلتا پھرتا خاکہ تھے۔ سیاسی عقائد کی پختگی کے ساتھ تصوف کی ایک لطیف فضا بھی تھی جو ان کے انکسار ، خلوص ، زہد ، حق گوئی ، بے باکی ، شاعری، الغرض ان کی ساری زندگی کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے تھی ۔ انہوں نے ایک زمانے تک اپنے روحانی سلسلہ کے کسی بھی عرس کا ناغہ نہیں کیا ، ان کا بہت سا کلام کئی سلاسل میں اوراد کے طور پر پڑھا جاتا ہے ، قوالی کے بہت شوقین تھے اور محفلِ سماع میں ایک خاص جذب و کیف کے ساتھ شرکت کرتے ، جب روپے پیسے ختم ہو جاتے تو اپنے کپڑے اتار کر قوالوں کو دے دیتے ، بیعت کے حوالے سے حسرتؔ نے خود بتایا کہ ایک بار ان کے ذہن میں کچھ شکوک پیدا ہو گئے تھے اور انہوں نے چاہا کہ اگر مولانا عبدالوہاب میرے شبہات بغیر بات کیے صرف اپنی نظر سے دور کر دیں تو میں ان کا قائل ہو جاؤں گا ۔ ادھر یہ خیال آیا اور ادھر ان کے ہونے والے مرشد نے ان کو ایک ایسی نگاہ سے دیکھا کہ مولانا ان کے قدم بوس ہو گئے اور بیعت کر لی ۔ اس واقعہ کو انہوں نے اپنے شعر میں یوں بیان کیا ہے۔

کیا چیز تھی وہ مرشد وہاب کی نگاہ

حسرت ؔ کو جس نے عارفِ کامل بنا دیا (12)

مولانا حسرتؔ کو اپنے مرشد سے بے حد عقیدت تھی ۔’’ اردوئے معلی‘‘ اگست 1928 میں انوارِ رزاقیہ (سوانح حیات حضرت مولانا شاہ عبدالرزاق ) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ہمارے مرشد کاولیِ کامل ، امامِ وقت اور غوثِ دوراں ہونا اربابِ نظر اور اہلِ تحقیق کے نزدیک مُسَلَّم ہے ۔ خوش قسمت ہیں وہ جنہیں ان کی زیارت نصیب ہوئی ۔ جن لوگوں کو یہ دولت حاصل نہ ہو سکی ان کے لیے کم سے کم اس کتاب سے فیض یاب ہونا لازمی ہے۔

خاندانِ فرنگی محل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسرت ؔ موہانی اور ان کا خاندان سات پشتوں سے بزرگانِ فرنگی محل کا مرید اور عقیدت مند تھا ۔ مولانا شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ

’’ تمام ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں یہ اعزاز صرف اس خاندان کو حاصل ہے کہ گذشتہ دو سو برس سے مسلسل اس میں علماء چلے آتے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے‘‘۔(13)

اس خاندان کے جد امجد ملا قطب الدین شہید تھے جن کا سلسلہ نسب صحابی رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ تک پہنچتا ہے ۔

شجرہ روحانی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سلسلہ قادریہ ، رضویہ ، رزاقیہ

سید العالم خاتم النبین حضرت محمد مصطفے V

سید الاولیاء حضرت علیb ابن ابی طالب

امام الائمہ حضرت امام حسینb

امام الائمہ حضرت امام محمد باقرl

امام الائمہ حضرت امام جعفر صادق l

امام الائمہ حضرت امام موسیٰ کاظم l

حضرت امام موسیٰ رضاl

حضرت شیخ معروف کرخی l

حضرت شیخ سری سقطی l

حضرت خواجہ جنید بغدادی l

حضرت مولانا عبدالحق لکھنوی فرنگی محلیl

حضرت مولوی احمد انوار الحق فرنگی محلیl

حضرت مولانا حافظ عبدالولیl

پیشوائے عشاق حضرت شاہ عبدالرزاق فرنگی محلیl

مرشدی حضرت شاہ عبدالوہاب شہید فرنگی محلیl

مولانا حسرتؔ موہانی

حسرت ؔ نے نعت لکھی ، حمد کہی اور اپنے ایوانِ شعر میں منقبت کے پھول بھی سجائے مگر ہر جگہ سادگی، شگفتگی اور شائستگی کے ساتھ ان کا رنگِ تغزل موجود رہا ، غزل میں انہوں نے موضوعات کے لحاظ سے اور روایت کے احیاء کے حوالے سے بالخصوص ایک بلند مقام پایا تو حمد و نعت اور منقبت نگاری میں بھی انہوں نے ایک منفرد حیثیت حاصل کی ۔

حمدیہ کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

پروردگارِ عالم کی توصیف کا سلسلہ تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور آج تک خالق و مالکِ کائنات کی حمد گوئی جاری ہے۔ اردو شاعری میں حمد کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود اردو زبان۔ اردو شعر کہنے والے قریباً تمام شعراء کے ہاں معبودِ حقیقی کی تعریف کے درخشاں نمونے موجود ہیں ، مولانا حسرتؔ بھی رب تعالیٰ کی حمد اور توصیف نگاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے

مایوس کر سکا نہ ہجومِ بلا مجھے

طلب میری بہت کچھ ہے مگر کیا

کرم تیرا ہے اک دریا عطا کا

حسرتؔ کا حمدیہ کلام بندگی کے اظہار کے ساتھ ساتھ عجز و انکساری ،خلوص ، ہدیۂ تشکر اور عقیدت کا حامل ہے ۔

اسی کا جلوہ ہر جانب عیاں ہے

نمودِ حسن بے صورت کہاں ہے

لاؤں کہاں سے حوصلہ آرزوئے سپاس کا

جب کہ صفاتِ یار میں دخل نہ ہو قیاس کا

عشق میں تیرے دل ہوا ایک جہانِ بے خودی

جان خزینہ بن گئی حسرتِ بے قیاس کا

عطائے خداوندی اورا اللہ کریم کے کرمِ خاص پر فخر یہ انداز اور خطاؤں کے اعتراف کا رنگ ملاحظہ ہو۔

لطف و عطائے یار کی عام ہیں بس کہ شہرتیں

قلبِ گناہ گار میں نام نہیں ہراس کا

دعا کا انداز ملاحظہ ہو ۔

دل کو ہو تجھ سے واسطہ، لب پہ ہو نامِ مصطفیؐ

وقت جب آئے اے خدا ، خاتمۂ حواس کا

ڈاکٹر سید عبدا للہ لکھتے ہیں کہ ’’ حسر ت ؔ کی شاعری میں عقیدت و نیاز کے جذبات بھی ہیں ، جن سے قلبِ حسرت ؔ کے خلوص اور ان کی روحانی لگن کا پتہ چلتا ہے‘‘ ۔ 15))

نعت گوئی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ ’’ اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں کہ حسرتؔ موہانی اپنے ہم عصر شعراء میں ایک مسلمان کی حیثیت سے سب سے زیادہ باشرع اور باعمل آدمی تھے۔ صرف یہی نہیں کہ صوم و صلوٰۃ کے زندگی بھر پابند رہے اور متعدد حج کیے بلکہ حمد و نعت گوئی اور منقبت نویسی کو بھی انہوں نے اپنی شاعری کا موضوعِ خاص بنائے رکھا ‘‘۔ 16))

ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی کے بقول ’’ مولانا حسرت ؔ موہانی نے اپنی زندگی کی تلخیوں کو ایک جذبۂ تشکر کا لبادہ پہنا کر اس طرح پیش کیا کہ ان کے ذاتی اخلاص ، اسلامی اقدارسے بے پناہ محبت ، معرفتِ الہٰی ، عشقِ رسولؐ پاک پر ان کے رنگِ تغزل نے ایک پردہ ڈال دیا تاکہ لوگ انہیں شہنشاہِ غزل تو کہیں لیکن ان قلبی اور روحانی کیفیات کے چرچے نہ ہوں خود ان سے ملیں تو ان کا حال نہ پوچھیں ، ان سے شعر سن کر خوش خوش چلے جائیں اور اپنے مذاق اور اپنے ظرف کے مطابق جس طرح چاہیں لطف اندوز ہوں ۔لیکن جس نے حسرتؔ کا یہ انداز سمجھ لیا ہے اس کے لیے ان کی زندگی حجاب ہے نہ ان کی شاعری‘‘ ۔(17)

حسرت ؔ موہانی کی نعت سادہ ، بے تکلف اور دلی جذبات کی عکاس ہے ۔

پسندِ شوق ہے آب و ہوا مدینے کی

عجب بہار ہے صلی علیٰ مدینے کی


اے قافلہ والو کہیں وہ گنبدِ خضری

پھر آئے نظر ہم کو کہ تم کو بھی دکھائیں

ہاتھ آئے اگر خاک ترے نقشِ قدم کی

سر پر کبھی رکھیں، کبھی آنکھوں سے لگائیں


روحانی کیف اور جذب سے لبریز اشعار ملاحظہ ہوں ۔

مظہرِ شانِ کبریا صلٰی علٰی محمدؐ

آئینۂ خدا نما صلٰی علٰی محمدؐ

موجبِ نازِ عارفاں باعثِ فخرِصادقاں

سرورِ خیر انبیاءؐ صلٰی علٰی محمدؐ


مونسِ بیکراں درود شریف

راحتِ عاشقاں درودشریف

طالبانِ وصال کو ہر دم

چاہیے بر زباں درود شریف

اسمِ اعظم ہے قیدیوں کے لیے

قید میں بے گماں درود شریف

پھر اک شوقِ بسیار کی آرزو ہے

طوافِ درِ یار کی آرزو ہے

جو لبریز ہو بادۂ عشقِ حق سے

پھر اس جامِ سرشار کی آرزو ہے

حسرت ؔ نے مدینہ پہنچ کر بارگاہِ رسالت میں یوں سلامی دی ۔

السلام اے شہء بشیر و نذیر

داعی و شاہد و سراجِ منیر

پروفیسر آفاق صدیقی لکھتے ہیں کہ’’ ہیئت کے اعتبار سے حسرتؔ کی نعت ، غزل کا رنگ و آہنگ رکھتی ہے ، انہوں نے اپنی وارداتِ قلبیہ ، دروں بینی ، احساس اور عینی مشاہدات کی کیفیات کو خصوصیت کے ساتھ بیان کیا ہے‘‘ ۔ (18)

میں بیمارِ غم ہوں ، مداوائے غم کو

ترے در کی خاکِ شِفا چاہتا ہوں

انہیں کیا بتائیں وہ خود جانتے ہیں

جو میں اپنے حق میں دعا چاہتا ہوں

حسرتؔ کو زیارتِ رسولؐ کا شرف بھی نصیب ہوا ، ان خوابوں کا ذکر انہوں نے اپنی ڈائری میں بھی کیا ہے اور ان کے اشعار ذیل بھی اس بات کے شاہد ہیں ۔

جلد سے جلد پہنچنا ہے مدینے مجھ کو

کیوں نہ تڑپوں کہ بلایا ہے نبیؐ نے مجھ کو

مدینے چلوں کیوں نہ ہر سال حسرؔ ت

بلائیں جو خود تاجدارِؐ مدینہ


پھر یاد جو آئی ہے مدینے کی بلا نے

کیا یاد کیا پھر مجھے شاہِ دوسراؐ نے

جمالِ مصطفیؐ کی تعریف میں حسرتؔ کا اندازِ بیان دیکھیے ۔

برکتیں سب ہیں عیاں دولتِ روحانی کی

واہ کیا بات ہے اس جلوۂ نورانی کی


شوق دیکھے تجھے کس آنکھ سے اے مہرِ جمال

کچھ نہایت ہی نہیں تیری درخشانی کی


مجھ سے وہ سنگ بھی افضل جسے عزت ہے نصیب

آستانِ حرمِ یار پہ دربانی کی


اس حسنِ بے عدیل کی ہو کیا صفت بیاں

پیدا ہیں جس کے نور سے انوارِ کبریا


نظرِ حسن کی ہے بینائی

آپؐ کی شانِ جلوہ فرمائی

حسرت ؔ کی نعت میں عشقِ رسولؐ اور جذبِ دروں کے علاوہ سیرتِ رسولV کی عظمت ، گنبد خضریٰ کے دیدار کی کیفیت اور مدینہ منورہ کے صبح و شام کی منظر کشی کا بیان بھی والہانہ ہے ۔

جب دور سے وہ گنبدِ خضریٰ نظر آیا

اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آیا


ہے شام اگر گیسوئے احمدؐ کی سیاہی

تو نورِ خدا صبحِ دلآرائے مدینہ


کھنچ گئی نور اعلیٰ نور کی تصویرِ جمیل

بعد کعبہ کے جو آنکھوں نے مدینہ دیکھا

اور اب حسرتؔ کی وہ دعائیں ملاحظہ ہوں جو بارگاہِ رسالت میں پیش کی گئیں ۔

خیالِ غیر کو دل سے مٹا دو یا رسول ؐاللہ

خرد کو اپنا دیوانہ بنا دو یا رسولؐ اللہ

تجلی طور پر جس نور کی دیکھی تھی موسیٰؑ نے

ہمیں بھی اک جھلک اس کی دکھا دو یا رسولؐ اللہ

سیدمحمد اصغر کاظمی لکھتے ہیں کہ ’’ مولانا حسرت ؔ موہانی کی نعتیہ شاعری رسمی نہیں بلکہ حضور اکرمؐ سے ان کی گہری عقیدت مندی کا نہایت روشن ثبوت ہے ۔ انہوں نے شاعرانہ صلاحیتوں کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے سلیقے سے برتا ہے اور حضور اکرمؐ سے والہانہ محبت کی تمام منزلیں طے کی ہیں ، ان کے نعتیہ اشعار میں عقیدت کا والہانہ انداز بدرجہ اتم موجود ہے یہ نعتیہ کلام محض زورِ قلم یا فنی کمال نہیں بلکہ حقیقی محبت اور فریفتگی کا اظہار ہے۔‘‘ ( 19)

اور بقول ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی ’’مولانا حسرتؔ موہانی کی نعتیہ شاعری ان کی سوانح حیات کا بابِ جلی ہے‘‘ ۔ (20)

منقبت نگاری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حسرتؔ حنفی المذہب اور قادری سلسلۂ طریقت سے وابستہ تھے۔ بچپن ہی میں مولانا شاہ عبدالرزاق فرنگی محلی سے بیعت کی تھی۔اس کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا عبدالوہاب فرنگی محلی سے بیعت کی اور پھر ان کے صاحبزادے مولانا عبدالباری فرنگی محلی سے خلافت حاصل کی اور بعض افراد کو مرید بھی کیا (35) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سے انہیں عشق کی حد تک عقیدت تھی جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا ۔

دستگیری کا طلب گار ہوں شیاً للہ

میر بغداد میں ناچار ہوں شیاً للہ

حالِ دل آپ سے اب تک نہ کہا تھا لیکن

آج میں در پئے اظہار ہوں شیاً للہ

کرمِ خاص کے لائق تو نہیں میں پھر بھی

آپ کا غاشیہ بردار ہوں شیاً للہ

مجھ سے اب دین کی پستی نہیں دیکھی جاتی

غلبۂ کفر سے بیزار ہوں شیاً للہ

یہ منقبت اکثر سلاسلِ اولیاء کرامؓ میں بطور ورد رائج ہے ۔ ایک اور منقبت میں یوں گویا ہوتے ہیں ۔

کرو کچھ تو ارشاد یا غوثِ اعظمؒ

سنو میری فریاد یا غوثِ اعظمؒ

حسرتؔ کو اولیائے کرام سے گہری عقیدت تھی اور ان کی شان میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے رہتے تھے ۔

حضرت شاہ عبدالرزاق فرنگی محلی کے حوالے سے ایک غزل میں کہتے ہیں ۔

اک خلش ہوتی ہے محسوس رگِ جاں کے قریب

آن پہنچے ہیں مگر منزلِ جاناں کے قریب

روز ہو جاتی ہے رویاء میں زیارت حسرتؔ

آستانِ شہِ رزاق ہے زنداں کے قریب

یہ غزل حسرت ؔ نے اس وقت لکھی جب اسیری کے دوران فیض آباد جیل سے لکھنؤ سنٹرل جیل منتقل ہوئے تھے ۔ آستانہء رزاق سے مراد شاہ عبدالرزاق ہیں ۔ ’’تصوف سے یوں تو حسرت ؔ کو خاص لگاؤ تھا لیکن قید کے زمانے میں یہ لگن پختگی اختیار کر گئی ۔ ان کا قول ہے کہ تصوف جانِ مذہب ہے اور عشق جانِ تصوف۔

العشق ھو اللہ ھو اللہ کا اکثر ورد کرتے ۔ یہ ذوق ان کی طبیعت پر غالب رہا اور اس کی جھلک ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے‘‘۔ (21)

اُسی کا جلوہ ہر جانب عیاں ہے

نمودِ حسن بے صورت کہاں ہے


شمسؒ و رومیؒ سے پوچھ لیں ، ہو جنہیں

سخنِ عشقِ معتبر کی تلاش


مجھے فیضِ سخن پہنچا ہے حسرتؔ

زروحِ پاکِ شمس الدینؒ تبریز


ہر لحظہ وظیفہ ہے جان و دلِ آگہ کا

’’الحسن ہوالحق‘‘ کا ، ’’والعشق ہو اللہ‘‘ کا


کتابیات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

1۔ .نعیمہ بیگم۔حسرتؔ کی کہانی نعیمہ کی زبانی ۔ حسرت ؔ موہانی میموریل ٹرسٹ کراچی 1990ء

2۔ ایضاً

3 ۔ ایضاً

4۔ سیداشتیاق اظہر۔سید الاحرار ۔حسرت ؔ موہانی میموریل ٹرسٹ کراچی 1988ء

5۔ ایضاً

6۔ ایضاً

7۔ ایضاً

8۔ ایضاً

9۔ ایضاً

10۔ سید محمداصغرکاظمی ۔مولانا حسرت ؔ موہانی ۔ ایک ہمہ جہت شخصیت ۔ حسرتؔ موہانی میموریل ٹرسٹ کراچی 2004ء

11۔ سیداشتیاق اظہر۔سید الاحرار ۔حسرت ؔ موہانی میموریل ٹرسٹ کراچی 1988ء

12۔ مولانا جمال میاں ۔ مقدمہ کلیاتِ حسرتؔ ۔حسرت ؔ موہانی میموریل ٹرسٹ کراچی 1997ء

13۔ سیداشتیاق اظہر۔سید الاحرار ۔حسرت ؔ موہانی میموریل ٹرسٹ کراچی 1988ء

14۔ ایضاً

15۔ ایضاً

16۔ ایضاً

17۔ ایضاً

18۔ ایضاً

19۔ سید محمداصغرکاظمی ۔مولانا حسرت ؔ موہانی ۔ ایک ہمہ جہت شخصیت ۔ حسرتؔ موہانی میموریل ٹرسٹ کراچی 2004ء

20۔ ایضاً

21۔ ڈاکٹر سید معراج نیئر ۔حسرتؔ موہانی۔ الوقار پبلی کیشن لاہور ، 2008ء