حرفِ نیاز۔ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں - منیر احمد

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

مطبوعہ: دبستان نعت ۔ شمارہ نمبر 2

مضمون نگار: منیر احمد ( پاکستان )

حرفِ نیاز : بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نواَدِ نکہتِ گُل کا پیام پیش کروں

گلوں کا حُسن صبا کا خرام پیش کروں

حضور ﷺ نذر گزاروں میں آبگینۂ دِل

کہ ارمغانِ درود و سلام پیش کروں

( عند الکریم ثمر ؔ)


ان کی گلی کی آرزو میرا تمام جذب ِ شوق

ذکر انہی کا ہے علیم میری تمام گفتگو

اُن ﷺ کے نام۔۔۔جن سے والہانہ محبت حاصِل ایماں قرار پاتی ہے۔ جس سے دست بردار ہونا کسی بھی صاحب ایماں کے لیے ممکن نہیں۔


میرے لیے خدا کے بعد سب کچھ انہی ﷺ کی ذات ہے

عشق کی ابتدا حضور ﷺ عشق کی انتہا حضور ﷺ

میرے لیے چراغِ راہ میرے لیے راہِ عمل

آپ ﷺنے جو کہا حضور ﷺآپ نے جو کیا حضور ﷺ

حضور کی بارگاہ ِ ناز میں اس امید کے ساتھ کہ نجانے قلم کی کون سی کاوش ، زبان کی کون سی لکنت ، انکسار کا کون سا بول ، دل کی کون سی آہ ، آنکھ کاکون سا آنسو ، عقیدت کے چہرے کا وضو اور اِرادت کے پھول کی شبنم ثابت ہو جو آپ ﷺ کی بارگاہ ناز میں بار پا جائے۔


میرے تاجور تیری نذر ہیں میرے جذبِ دِل کی یہ شدّتیں

میرے خواب، میری بصارتیں ، میری دھڑکنیں ، میری چاہتیں

میرے روز و شب کے نصیب میں میرے پاس اپنا تو کچھ نہیں

تیرا قرض ہے میری زندگی میرے سانس تیری امانتیں

ع گر قبول افتد۔۔۔۔

بارگاہ محبوب ﷺ میں پیش کرنے کے لیے میرے پاس اشکِ ندامت کے سوا کچھ اور نہیں۔ نہ تو حُسنِ عمل کا زادِ راہ ہے اور نہ ہی شایانِ شان گہر ہائے عقیدت یہ گدائے بے نوا شہنشاہِ کونین ﷺ کے دربار میں پیش بھی کیا کر سکتا ہے ۔ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


شاید کوئی آ نکلے خوشبو کی تمنّائیں

صحراے محبت میں کچھ پھول کھلا جاؤں

اے رسول عربی ﷺ !اے میرے محبوب نبی ﷺ !

لبوں پہ اک تبسّم جواب ہو جس کا

میری زبان کو للہ عطا ہو ایسا سوال

بارگاہِ بیکس پناہ میں یہ حقیقت عرض کرنے کا اذن عطا ہو جس سے آپ بخوبی آشنا ہیں کہ آنسو بیان غم دل اور متاعِ تسکین جاں ہوا کرتے ہیں۔ آنسو محبت کے سفیر ہوتے ہیںاور محبت ہی وہ امرت ہے جو جذبے کو اظہار کا خوبصورت پیرہن عطا کرتی ہے۔ آنسو محبوب کی یاد کے کس قدر قریب ہوتے ہیں یہ کوئی دلِ عشاق سے پوچھے۔ عقیدت کی شبنم آپ ﷺ کے حضور کیوں گوہر نواز ہونے لگتی ہے۔ یہ کوئی روح میں اترے ہوئے ہجر کے تیکھے کانٹے کی چُبھن سے ادراک کرے آپ کے حُسن نصور کے آبگینوں سے با وضو ہوکر پلکیں کیوں پائے اقدس کے بوسے لینے لگتی ہیں۔ آپ کی یاد کے آنے سے آنکھوں کے جھرنے کیوں بہ نِکلتے ہیں۔ آپ کے ذکرِ جمیل کی خوشبو سے آنکھیں کیوں بے اختیار چھلک اُٹھتی ہیں ؟ آپ کا اسمِ گرامی لب پہ آتے ہی تمام جسم کا پانی نتھر کر دید کی پیاسی آنکھ سے کیوں رم جھم برسنے لگتا ہے۔ میرے فکر کی نا رسائی یہاں تک ہے کہ آپ کی محبت کے اِس منہ زور سوتے کی متحمل صرف اور صرف مشتاق دید آنکھ ہی ہو سکتی ہے۔ آنسو جس کی صدف کے موتی ہوتے ہیں۔ اِن آنسوؤں میں وہ ا نبساط اور جلن میں وہ ٹھنڈک ہوتی ہے کہ اک کیف سرمدی سا محسوس ہوتا ہے۔ جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ آنسو تشکر و امتنان کا اظہار بھی ہوتے ہیں اور تحدیثِ نعمت کا اقرار بھی ۔ ؎


غم ِ فراقِ نبی میں جو اشک بہتے ہیں

اُن آنسوؤں کو متاع حیات کہتے ہیں

نہ پوچھ ٹوٹے ہوئے دل کی آبرو کیا ہے

سُنا یہ ہے کہ وہ ﷺ ٹوٹے دلوں میں رہتے ہیں

پس محبت کے ان آنسوؤں کے ساتھ۔۔۔۔۔ اُن قدموں میں جن کا نام نامی آتے ہی آنکھیں عقیدت و اِرادت کے آنسوؤں سے وضو کرنے لگتی ہیں اور دیر تلک عشق و محبت کے ستارے پلکوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر دامن میں نور بھرتے رہتے ہیں ۔ ؎


یہ قلب و جگر یہ فکر ونظر کیا میں ان کی نذر کروں

پاس میرے اشکوں کے علاوہ اور کوئی سوغات نہیں

اگر چہ میرے دامن میں عقیدت کے وہ پھول اور آنکھوں میں اِرادت کے وہ ستارے نہیں جو سیدالکونین ﷺ کی شان کے شایاں ہوں۔ پھر بھی ۔ ؎

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی


تیری رحمت سے اِلٰہی پاس یہ رنگِ قبول

پھول کچھ میں نے چنے ہیں اُن کے دامن کیلئے

باعثِ صد رشک ہے وہ دل۔۔۔۔۔ جو حبیب کبریا ﷺ کی یاد میں دھڑکتا ہو۔۔۔۔ باعث ِ صد آفریں ہے وہ زباں۔۔۔۔۔جس کے لیے حضور ﷺ کا اسمِ گرامی درود کی حیثیت رکھتا ہو۔۔۔۔ وجہِ صد افتخار ہے وہ دماغ۔۔۔۔ جس میں خوشبوئے فکرِ محمد بسی ہوئی ہو اور عرش مقام ہے وہ قلم۔۔۔۔۔ جو سینہ ٔ قرطاس پہ مدحتِ رسول ﷺ کے موتی بکھیرتا ہو۔ ؎


میرے لفظوں میں خوشبو بسی آپ کی ﷺ

آپ ﷺ سے میرے شعروں کی وابستگی

آپ ﷺ ہیں میرے احساس کی تازگی

میرے افکار کی روشنی آپ ہیں

آپ ﷺ کی یاد سے دل کو راحت ملے

آپ ﷺکے ذکر سے دل کا غنچہ کھلے

آپ کا نام ہے جن کے وِردِ زباں

اُن کا سرمایۂ زندگی آپ ﷺْ ہیں

دِل ِ عالم کے دل نواز ﷺ !

آپ ﷺ کا اسمِ گرامی لب پہ آتے ہی آپ ﷺ کی نظرِ کرم کے طفیل ہے۔ آپ ﷺ کا ذکر اور دامنِ رحمت کی طرف کھچاؤ جہاں آپ ﷺ کی ذرہ نوازی ہے وہاں اک ایسا احساں بھی ہے جس کے مقابلے میں دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔۔۔۔ جب کوئی کسی کو یاد کرتا ہے ، یاد رکھتا ہے ، دل میں سجاتا ہے ، نگاہوں میں بساتا ہے ، روح میں سموتا ہے۔ جان میں گھلاتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ کوئی سبب ہوتا ہے۔ کوئی نسبت ہوتی ہے۔ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ بات تعلق کی ہے۔ لطف و عطا کی بارش اس کے بغیر نہیں ہوتی۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


ذکر ان ﷺ کا ادا ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے

دل میں یہ اُجالے اتر آتے ہیں کہاں سے

کرنیں سی چٹک جائیں اسی حجرہ دل میں

تم اُن کو پکارو تو حضورِ دل و جاں سے

میرے دیدہ ٔ دل کے مکیں !

کیوں کہتی ہے دنیا کہ مدینے کے مکیں آپ ﷺ

جھانکا ہے جو دل میں تو ہیں موجود یہیں آپ ﷺ

توصیف ہو مقصود تو الفاظ نہیں ہیں

کونین کی ہر شے سے جمیل آپ ﷺ حسیں آپ ﷺ

ہر علم ہو آپ ﷺ کے پر تو سے منوّر

اُمّی کہوں کیسے کہ ہیں قرآن مبیں آپ ﷺ

اگر چہ آپ ﷺ میرے دل میں بستے ہیں۔ پھر بھی یہ آرزو ہے کہ اس کی دھڑکنوں میں امنڈتے ہوئے جذب و شوق کے طوفانوں کا رخ آپ ﷺ کے مہر و وفا کے ساحل کی طرف موڑ دوں ، اپنے قلب کی پہنائیوں میں تڑپتی ہوئی اُمنگوں کو عقیدت کی راہ دکھا دوں ، پیاسی نظروں میں آپ ﷺ کی دید کے سلگتے ہوئے ارمانوں کو محبت کی زباں دے دوں۔ تمنّا ہے کہ اپنے جذب دروں کے سارے درد کو آپ کی مئے الفت کی ایاغ میں اُنڈیل دوں۔ ؎


گرے تھے ہجر میں موتی جو میری آنکھوں سے

وہی تو تحفتاً دینے میں آج لایا ہوں

میرے سرورِ دنیا و دیں ﷺ !

دور رہ کر بھی ہے ہر سانس میں خوشبو تیری ﷺ

میں مہک جاؤں جو تو پاس بلا لے مجھ کو

آپ ﷺکے آستانِ کرم سے دور بہت دور آپ ﷺ کا اک عصیاں شعار عجمی اپنے جذبوں کی ترجمانی کے شعور کا تمنّائی ہے۔ آپ ﷺ کی الفت کے عطر میں بسی جذبِ دل کی یہ آرزو عرض پرواز ہے کہ اپنی توصیف و ثنا میں میرے راہوار قلم کو الفاظ اس سلیقے سے پرونے کا ہنر عطا کیجئے کہ جیسے وفا کی نذر لیے اشکبار آنکھوں میں آپ کے دیوانے آپ کے در پہ بے قرار کھڑے ہوں اظہار محبت ہو تو اس طرح کہ چاہت کی روح کھچ کر الفاظ کے سینے میں سما جائے ، ان میں اثر ہو تو ایسا کہ پئے نذر ِ عقیدت ارادت کے یہ موتی آپ کی بارگاہ میں بار پاجائیں۔ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


وہ لکھیں حرف کہ روحوں میں اتر آئے گداز

سطریں خود بول اُٹھیں ایسی کتابت کی جائے

اُنگیاں لمس پڑھیں حرف تراشیں سانسیں

اس طرح درسِ تمنا کی ریاضت کی جائے

بارِ الٰہا !


روح سورج کی طرح جسم اجالے کی مثال

کیسے الفاظ میں ڈھالوں وہ تصویرِ جمال

ذکر اس نور مجسم ﷺ کا ہے کرنا مقصود

مالکِ لَوح و قلم تو میرے لفظوں کو اُجال

بارگاہ محبوب ﷺ میں عقیدت کا خراج پیش کرنا سہل نہیں۔ یہ وہ بارگاہ جلالت مآب ہے جہاں جنید رحمۃ اللہ علیہ و بایزید رحمۃ اللہ علیہ بھی دست بستہ دم سادھے نظر آتے ہیں۔ ؎


بابِ جبریل کے پہلو میں ذرا دھیرے سے

فخر کہتے ہوئے جبریل کو یوں پایا گیا

فخر کہتے ہوئے جبریل کو یوں پایا گیا

اونچی آواز ہوئی عمر کا سرمایہ گیا

اپنی پلکوں سے درِ یار ﷺ پہ دستک دینا

اونچی آواز ہوئی عمر کا سرمایہ گیا

میرے نبی محترمﷺ !

آپ کے بارے میں ایک لفظ بھی لکھنا تو کجا ، سوچنا بھی میرے فہم و ادراک سے بالا ہے۔ قلم ہے کہ سطوت رسالت ﷺ سے کانپ کانپ جاتا ہے۔ دامنِ قرطاس ہے کہ ندامت کے آنسوؤں سے بھیگ بھیگ جاتا ہے۔ مشک و عنبر میں بسی اور عطر و گلاب سے دھلی زبان ہے کہ آداب شہنشاہی کے سبب لڑ کھڑا لڑ کھڑا جاتی ہے۔ سوچیں ہیں کہ وفور شوق میں سو سو بار طہارت کا وضو کرتی نظر آتی ہیں۔ لفظ ہیں کہ بار بار بارگاہ اقدس کے طواف کے لیے پاکیزگی کا احرام باندھتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی بارگاہ جمال میں اظہار ارادت کے لیے قرطاس و قلم کا رشتہ ہے کہ پاسِ ادب کے سبب بارہا ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔۔ پس میں اپنے جھلملاتے ہوئے آنسوؤں کا خراج ، اپنے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کا سکوت ، اپنی لڑ کھڑاتی ہوئی زبان کا عجز اور اپنے لرزتے ہوئے قلم کا نیاز آپ ﷺ کی بارگاہ ناز میں اس آرزو کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔ ؎


و شاہا ﷺ نیازِ و عجز گدایاں قبول ہو

آقا ﷺ سلام حلقۂ بگوشاں قبول ہو

الفاظ ساتھ چھوڑگئے گنگ ہوگئے

بے ربطی نوائے پریشاں قبول ہو

ساری دعائیں سیلِ تجلی میں بہ گئیں

لرزاں اک اشک ہے سرِ مژگاں قبول ہو

میرے امام المرسلین ﷺ !

آپ ﷺ ایسے محبوب سے اظہار محبت کی تمنّا کو چند حرفوں کا ادھورا سا پیراہن پہنا کر چاہنے کے باوجود شاخِ نطق پہ آپ کی عقیدت کا ایک پھول بھی نہ کِھلا سکا۔ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


مرا عقیدہ ہے توفیق ایزدی کے بغیر

رواں ثنائے نبی میں قلم نہیں ہوتا

پھر کم و بیش دس سال بعد۔۔۔ اپنی لو دیتی ہوئی عطر بیز یادوں کی چاندنی میں میری ارادت کے گنگ جذبوں ، بے بصر لفظوں اور بانجھ سوچوں کے اظہار کی نا رسائی کو محبت کی زباں عطا کرنا آپ ﷺ کی نظرِ کرم اور بخشش و عطا کا ایک زندہ اعجاز ہے۔ در اصل جب تک لفظ احرام باندھ کر نہ نکلے اور خیال با وضو نہ ہو تو ذہن حضور ﷺ ، آپ ﷺ کے بارے میں کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ قلم حسنِ نگارش اور زباں متاع سخن سے محروم رہتی ہے مگر جب بارگاہ محبوب ﷺ سے مسافتوں کی دوریاں سمٹتی ہیں۔ لطف و احساں کے موتی لٹتے ہیں ، علم و عرفاں کے پھولوں کے دامن بھرتا ہے تو جذبے ریشم ریشم ہو جاتے ہیں ، لفظوں میں چاند اتر آتے ہیں۔ قلم محبت کا صحیفہ لکھتا ہے۔ زبان حُسنِ ادا کا کمخواب بنتی ہے۔ تب سینہ قرطاس پہ بکھرے ہوئے حروف نظر کا جمال بنتے ہیں۔ سانسوں میں عقیدت کے آبگینے پھوٹے ہیں اور دل کی ہر دھڑکن حرفِ سپاس بن جاتی ہے۔ ؎


وہ نظر کیا تھی کہ مٹی بھی گہر ہوتی گئی

راکھ جیسی شام مانند سحر ہوتی گئی

میرے لفظوں کے دیئے اسم محمد ﷺ سے جلے

میری سوچوں پہ عنایت کی نظر ہوتی گئی

میرے قبلہ ٔ جاں ﷺ ! آپ ﷺ کی عطا کے انداز نرالے ہیں۔ آپ ﷺ اپنی رحمتِ بیکراں سے سب کو نوازتے رہتے ہیں۔ کسی پہ چشمِ عنایت قرطاس و قلم کے حوالے سے ، کسی پہ فیضان ِ نظر قلب پہ القا کی صورت ، کسی پہ لطف و عطا سوچ سے ماورا جمالِ فکر کے انمول موتی کے ذریعے نکہت گل سے مہکتی ہوئی رات کے ریشمی دھندلکوں میں کہیں خوابوں میں آکر ، کہیں روح میں سما کر لذت آشنائی کے سبب دل کو دوعالم سے یوں بیگانہ کرتے ہیں کہ انسان خود ہی اپنے آپ سے ہم کلام رہنے لگتا ہے۔ وہ خود سے گویا ہوتا ہے۔ کوئی اس سے گویا ہوتا ہے۔یہ سب وقت و زمانہ کی ضروریات کے تحت ہوتا ہے۔ بارگاہ ِ قدس ﷺسے صحیح بخاری لکھنے کے لیے کسی پہ نظر انتخاب پڑتی ہے تو وہ بھی عالم ِ خواب میں ، کسی سیرت نگار کی سوچ کے ماتھے کا جھومر بنتے ہیں تو وہ بھی اس کی عالم پیری میں جس پر سیرت النبی ( شبلی نعمانی ) کے گلہائے رنگا رنگ کا ایک خوبصورت گل دستہ عالم ِ وجود میں آتا ہے۔ جس کی مہک شام دو عالم کو رہتی دنیا تک معطر کرتی رہے گی ۔ ؎


ہر چہرہ چاند سا لگتا ہے ہر آنکھ کنول ہو جاتی ہے

جب سوچ پہ وہ آجاتے ہیں ہر بات غزل ہو جاتی ہے

محبوب ﷺ کی سراپا نگاری ہو، یا سیرت نگاری، اصل بات تو عشق رسول ﷺ کے منزہ جذبوں کا اظہار ہے۔ یہ الفاظ و اشعار مقصودِ کائنات ﷺ کے چاہنے والوں میں اپنا نام لکھانے کی قلبی تمنا کا وسیلۂ اظہار ہوتے ہیں۔ عشق رسول ﷺ سرمایہ ٔ ہستی ہے اور آخرت کا زادِ راہ بھی۔ پس جس لفظ ،لمحے یا انسان نے اس مئے نایاب کا گھونٹ پی لیا ، وہ امر ہوگیا۔ حضور ﷺ کی مدح و ثنا متاع ِ نگارش اور معراجِ ہنر ہے۔ اس کے سبب سب سے بڑی شادمانی اور کامرانی جو نصیب ہوتی ہے۔ وہ محبوب کے دامنِ پاک ﷺ سے نسبت ِ عقیدت ہے۔ جسے یہ دولت مِل گئی اُسے اور کیا چاہئے۔ ؎


جو سرور و کیف ملتا ہے تیرے ﷺ افکار سے

وہ کسی مئے میں نہ ساغر میں نہ میخانوں میں ہے

کون چھینے گا تجھے ﷺ میرے بدن کی روح سے

تو تو میرے گوشۂ دل کے نہاں خانوں میں ہے

میری رگ رگ میں سمایا تیری ﷺ شفقت کا سرور

تو میرے شعروں میں پنہاں میرے افسانوں میں ہے

میرے حضور ﷺ !

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

طشتِ دل پہ سجے عقیدت کے ان پھولوں کے ساتھ کانپتے ہونٹوں دم بخود سانسوں اور ملتجی نظروں کے ساتھ آپ ﷺ کی بارگاہ ِ بیکس پناہ میں بار یابی کا متمنی ہوں۔ میری نگاہِ شرمسار میں ندامت کے آنسو بھی ہیں اور آپ ﷺ کی ذات اقدس سے وابستگی کا بے پایاں جذبہ بھی۔


صاحب ِ لوح و قلم !

آپ ﷺ کی دیدہ وری پہ عیاں ہے کہ محبت کے راہی کا زادِ راہ فقط آنسو ہی ہوتے ہیں۔ محبت حق طلب ہو یا مجاز آشنا بہر صورت آنسوؤں ہی سے عبارت ہوتی ہے۔ آنسو محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔ ہجر کی راتوں کے امین ہوتے ہیں۔جو برسوں کی جدائی کو پل بھر میں پلکوں کی زباں سے بیاں کر دیتے ہیں۔ اشکبار آنکھوں سے ٹوٹ نے والے اِن گرم گرم آنسوؤں کا گداز آپ پہ عیاں ہے۔ اپنے گنبدِ آبگینہ رنگ پہ نچھاور ہونے والے اِرادت کے آنسوؤں کی زبان آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔ اپنے ہجر میں سلگتے ہوئے دلوں کے رباب سے نکلے ہوئے مدھر نغموں کی حلاوت سے آپ بخوبی آشنا ہیں۔ اپنے فراق کے مضراب سے مرتعش دل کے تاروں کے گیت آپ کے لیے نیابت و انگبیں کی سی مٹھاس رکھتاہے۔

فخرِ عرب و عجم ﷺ !

مجھ سا عصیاں شعار بھی ٹوٹے ہوئے دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے سوا آپ ﷺ کے حضور اور کیا پیش کر سکتا ہے۔ ندامت کے یہ آنسو آپ ﷺ ہی کا تو عطیہ ہیں۔ آپ ﷺ ہی کی محبت کا اعجاز ہیں اور یہ صرف اور صرف ان خطاکاروں کا ہی نصیب ہیں۔ آپ ﷺ کی آغوش رحمت نے جن کی زینت بننا ہے۔ آپ کے لب گوہر بار کے سحر آفریں الفاظ (الطالع لی الصالح اللّٰہ۔گنہگار میرے لیے اور نیکو کار اللہ کے لیے ہے )کا آسرا نہ ہوتا تو کبھی بھی آپ ﷺ کی بارگاہِ ناز میں بار یابی کی جرآت بھی نہ کر پاتا۔ جہاں پہ جنید رحمۃ اللہ علیہ و بایزید رحمۃ اللہ علیہ کا زہد و اتقیٰ گوہر شبنم کی طرح آب دیدہ اور شوکتِ سنجر وسلیم قبائے گل کی طرح دریدہ نظر آتی ہے۔ ؎


شرم سے جو نہیںاٹھتی وہ نظرلایا ہوں

اپنی بہکی ہوئی شاموں کی سحر لایا ہوں

اپنی آنکھوں کے تیرے ﷺ در پہ گہر رکھتا ہوں

صرف اک نظرِ عنایت تیرے ﷺ پاؤں پہ سر رکھتا ہوں

دلبردل براںِ ﷺ !

اگر اذن عطا ہو تو آنسوؤں کے حوالے سے آپ ﷺ کے صحیفۂ عشق کے اک حسیں باب کا ورق الٹ دوں ، اجازت ہو تو آپ کی شاخِ عقیدت پہ مدحت کا اک اور پھول کھلا دوں۔ اگر طبع نازک پہ گراں نہ گزرے تو محبت آشنا پلکوں پہ سوز و گداز کا اک اور چراغ جلا دوں۔


نہ بار گر گوش مقدس پہ ہو یہ قصہ غم تو آپ کا اک نام لیوا

عطاالحق قاسمی آپ کی بارگاہ میں بار یابی کے حسن کو عقیدت کے دھنک رنگوں میں الفاظ کا پیراہن پہناتا ہے کہ میں ۱۹۸۷ میں ایک روز نماز عصر کے بعد حضور ﷺ کے روضے کے سامنے کھڑا تھا اور میرے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ مجھے بچوں کی طرح بلکتے دیکھ کر ایک عرب نے پوچھا ،تم یہاں آکر اتنا روتے کیوں ہو ؟ ا س پر مجھے اپنے ایک دوست کی بات یاد آگئی جو اس نے اس قسم کے سوال کے جواب میں کہی تھی۔ اس نے سوال کرنے والے سے کہا تھا۔۔۔۔ ’’کہ میں گزشتہ چودہ سو برس پہ محیط اس طویل عرصے میں اپنے خاندان کا واحد فرد ہوں جو یہاں تک پہنچنے میں کام یاب ہوا ہوں۔ اب میں اپنے آنسوؤں کو کیسے کہوں کہ تم تھم جاؤ۔ ‘‘ " اوج کا نعت نمبر مجھے پھر حضور ﷺ کے پاس لے گیا۔ اس دفعہ میرے ساتھ حضور ﷺ کے روضے کی جالی کے ساتھ لگ کر رونے والوں میںسیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ِ حضور کے دل کا چین سیدا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ، آنکھوں کا نور سیدا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہااور حضور کے وہ ﷺ تمام ثنا خواں جمع ہیں جو اس نعت نمبر میں موجود ہیں۔ جگر گوشۂ رسول ﷺ سیدا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی پلکوں پہ سجے آنسوؤں کے جھرکے سے کہ رہی ہیں۔۔۔ ’’جس نے صرف ایک بار خاکِ پائے مصطفی ﷺ سے اپنے مشام جاں کو معطر کر لیا تعجب کیا ہے اگر وہ ساری عمر کسی اور خوشبو کا محتاج نہ رہے۔۔۔ شیرِ خدا اپنے لب ِ گوہر بار سے فرماتے ہیں۔ آقا ﷺ کو کفن دینے اور محبوب ﷺ کو لحد میں اتارنے کے بعد آنکھ سے اوجھل ہونے لیکن دل میں بسنے والے کے غم میں غمگین ہوں جو پھولوں کے سے گداز کی حامل آغوش لحد میں جا بسا۔۔۔۔۔ہر نماز کے وقت عشاق کے دلوں میں سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رقت کا طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ جب وہ اپنے محبوب ﷺ کا نام لے کر پکارتے ہیں تو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز آتی ہے۔۔۔۔

" تو اے میری آنکھ آنسو بہا اور نہ تھک اپنے آقا ئے دو جہاں ﷺ کی یاد میں آنسو بہانا تو لازم ہو چکا۔۔۔ ‘‘

میرا جی چاہتا ہے کہ جس عرب نے مجھ سے پوچھا تھا کہ۔۔۔ حضور ﷺ کے روضے پہ تمھارے آنسو کیوں نہیں تھمتے ؟’’ میں اس سے پوچھوں کہ حضور ﷺ کے وصال سے آج تک آنسوؤں کا یہ قافلہ کبھی رکا ہے جو آج رک جائیگا۔۔۔ یہ آنسو تو ہم سیاہ کاروں کی زندگی کا سرمایہ ہیں۔ اگر ہم رونے کی دولت سے محروم ہو گئے تو ہمارے افلاس پہ آنے والے زمانے روئیں گے۔‘‘ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


ہے عشق شہِ دیں ﷺ توسنور جائیں گے ہم لوگ

یہ غم نہ ہو سینوں میں تو مر جائیں گے ہم لوگ

چلتے رہیں نقشِ قد م سرورِ دیں ﷺ پر

ذ ذروں کی طرح ورنہ بکھر جائیں گے ہم لوگ

سرکار ﷺ دو عالم کی محبت ہے جو دل میں

اس زینے سے ہر دل میں اتر جائیں گے ہم لوگ

شاہ خوبان ِ جہاں ﷺ !

اپنے محبوب کی مدح و ثنا کس محبّ کے دل کی دھڑکن اور آنکھ کی جنّت نہیں اور پھر ایسی محبت جس کا تعلق ایسے آپ ایسے ذیشان محبوب ﷺ کے جمالِ جہاں آرا سے ہو وہ راحتِ جاں بھی ہے اور تخلیق کاساماں بھی ۔ ؎


اے عشرت فرما نہ میر ا انتظار کر

میں اب ہوں بارگاہ رسالت ﷺ میں بار یاب

تاباں ہو کیوں نہ میرے خیالوں کی انجمن

عشقِ نبی ﷺ کا دل میں درخشاں ہے آفتاب

آئی ہوا جو زلف نبی ﷺ چومتی ہوئی

خوشبو بکھیر دی ہے زمانے میں بے حساب

حضور ﷺ کے حسن سراپا میں گم قدسی مقال اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی محبت بھری زباں یوںلب کشا ہوتی ہے۔ ؎


" جو دنیا بھر کے خوش جمالوں سے خوشتہ و زیبا تر و محبوب ترہے۔۔۔۔

دل جس کے عشق سے توانا اور خاک ہم دوش ِ ثریا ہو جاتی ہے۔۔۔

وہ دلوں کا مکیں اور ہماری آبرو جس کی نسبتِ گرامی سے۔۔۔

جلوۂ طور جس کے در کا موجِ غبار۔۔۔۔

وہ شبستان ِ حرا کا تنہا مسافر !۔۔۔۔۔

قوم و آئین حکومت کی طرح ڈالنے والا۔۔۔۔

جس کی تلوار جنگ میں لوہا پگھلاتی اور آنکھ نماز میں نم ہو جاتی تھی۔۔۔۔

جو نسخہ ٔ کونین کا دیباچہ۔۔۔۔۔

ایسا آقا تمام عالم غلام جس کا۔۔۔۔۔

وہ نگاہِ عشق و مستی میں اوّل بھی آخر بھی۔۔۔۔۔

جو قرآن بھی فرقان بھی۔۔۔۔۔

اور یٰسین و طہ کے سجیلے نام جس کے۔۔۔۔۔

جو الکتاب بھی اور آیہ کائنات کا معنی دیر یاب بھی۔۔۔۔

ایسے میں محبت میں ڈوبی ہوئی نگاہ بے ساختہ پکار اٹھتی ہے ؎

سرکار ﷺ دوعالم کی ہو شان بیاں کیسے

دنیا کی لغت میں ہیں الفاظ کہاں ایسے

محبوب ﷺ خدا جب سے محبوبِ نظر ٹھرے

نغمات درود ابھریں دن رات رگ وپے سے

امّی و ابی قرباں قربا ں دل و جاں بھی

محبوب خدا ﷺ مجھ کو محبوب ہیں ہر شئے سے

سرورِسروراںﷺ !

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

کسی بھی صاحب ایماں کے لیے اس سے بڑ ا اعزاز اور کوئی نہیں کہ اسے غلامان مصطفی ﷺ اور ثنا خوان محمد ﷺ میں شامل کر لیا جائے ۔ ؎


ان ﷺ کے در سے مجھے مل جائے غلامی کی سند

میرے معبود کوئی لفظ میں ایسا لکھوں

سایہ گستر نہ ہو گر صورتِ واللیل وہ زلف

ساری دنیا کو میں تپتا ہوا صحرا لکھوں

ہر نفس تازہ تغیر کا ہدف ہے دنیا

جز تیرے دہر میں آقا ﷺکسے اپنا لکھوں

یہ آرزو میرے دل کی معراج بنی کہ کارونِ عشق و سر مستی کے سالار سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر آپ ﷺ کے مدحت نگاروں میں کفش بردار اور بازار مصر میں یوسف کے خریداروں میں بنت نیل کی حیثیت سے شامل کر لیں تو یہ احساں میرے جرم و خطا کے لیے بخشش و عطا اور مجھ بے کس و بے نوا کے لیے وجہ صد افتخار و ناز ہوگا۔ ؎


میں کہاں اپنے محبوب ﷺکی توصیف کہاں

عرض کچھ کرتا ہوں رحمت کے بہانے کے لیے

تاجدار شہاں ﷺ !

دعائے خلیل و نوید مسیحا علیہماالسلام سے لیکراس آخری حرف تک جو آپ ﷺ کی مدح و ثنا میں کہا گیا سرمایہ۔۔۔ اظہار عجز کی وہ دولت اور محبت و عقیدت کا وہ خراج ہے جو آپ کے نام لیواؤں کی طرف سے بارگاہ جمال میں پیش کیا گیا ’’ لَولَاکَ لَمَا ‘‘ کا تاج وہ تاج ہے جو احسن الخالقین کی طرف سے آپ کے سر اقدس کی زینت بنا۔۔۔۔ ’’ وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک ‘‘۔۔۔ وہ سہرا ہے جو شب ِ اسریٰ کے دولہا ﷺ۔۔۔ آپ کے زیب و گلو ہوا ؎


تو وہ گل دستہ قدرت ہے رسول عربی ﷺ

کم ہے تجھ پر سے اگر جان چمن کو واروں

فرق عالی پہ میں صدقے کروں سر کو اپنے

پائے اقدس پہ ترے ﷺ اپنے میں تن کو واروں

تیری ﷺ توصیف کی راہ میں اے جان جہاں ﷺ

ہے سزاوار جو میں روح سخن کو واروں

حامی بیکساں ﷺ

ریاضِ رسول ﷺ میں کتنے بلبل چہک رہے ہیں ،ان کا شمار حد ادراک میں نہیں آتا۔۔۔ آپ کی عقیدت کی انگوٹھی میں سیدنا حسان بن ثابت ، کعب بن زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم ، رومی ؔو جامیؔ، عرفیؔ وخاقانیؔ، سعدیؔو سنائی ؔ،قد سیؔ و بوصیری، حالیؔ و مینائی ؔ ، امام اعظم و فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہم ، بیدمؔ وارثی و ظفر علی خاں ، نعیم ؔصدیقی و حفیظؔ تائب ، محسن ؔ کاکوروی و عبد العزیز خالد ، عارف عبد المتین و مظفر وارثی ، اقبال، آفتاب نقوی ، حافظ لدھیانوی و ریاض ؔ مجید ، اعظم چشتی و محمد علی ظہوری ، انور جمال و عاصی کر نالی ، حافظ مظہر الدین و لالہ صحرائی ایسے ان گنت نگینے ہیں جن کی جگمگاہٹ سے ایوان نعت میں فکر ونظر کی روشنی ہے۔ ہجر محبو ب ﷺ میں بے چین دلوں کا چین ہے۔ سوز فراق میں سلگتی ہوئی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ کئی رت جگوں کا سرور اور بے خواب راتوں کا نور ہے۔ آرزوئے وصال میں جلتے ہوئے لمحوںکا سوز اور تڑپتی ہوئی تمنّاؤں کا گداز ہے۔۔۔۔ عجز اظہار کا یہ سرمایہ کہکشاں رنگ رہے گا جب تک کہ سورج دامنِ شب سے طلوع ہوتا رہے گا۔ جب تک کہ چمن میں بہاریں آتی رہیں گی جب تک کہ شبنم پھولوں کا منھ دھلاتی رہے گی۔ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


میرے محبوب ﷺ میں سیکڑوں سال تک

اپنی گفتار سے اپنے افعال تک نثر لکھتا رہوں شعر بنتا رہوں

تمہارے ﷺ لیے پھول چنتا رہوں

ہم حسن و جمال بے نہایت داری

ہم جود و کرم بحد غایت داری

ہم حسن تیرا ﷺ مسلم و ہم احساں

محبوب ﷺ توئی کہ ہر دو آیت داری

میرے شہر یار محبت ﷺ !آپ ﷺحسن و زیبائی اور نکہت و رعنائی میں اپناثانی نہیں رکھتے۔۔۔۔ ٭ بخشش و عطا اور لطف و عنایت میں بھی بزم کونین میں کوئی آپ ﷺ کا ہم پایہ نہیں۔ ٭ حسن و احساں دونوں انداز محبوب آپ ﷺ کی ذات اقدس ﷺ کا زیور ہیں۔

میرے محبوب کائنات ﷺ ! ٭ اسی لیے تو آپ ﷺ ہی میرے محبوب ﷺ ہیں کیوں کہ حُسن و جمال اور لطف و عطا کی دونوں صفات سے آپ ﷺ متصف ہیں۔ ؎


یزداں نے مسکرا کے بڑی دیر میں لکھا

اک لفظ آرزو میرے دل کی کتاب میں

محبو ب ﷺ تیرے حُسن سے غنچوں کی آبرو

خوشبو ترے ﷺ بدن کی بسی ہے گلاب میں

کوئی محبوبِ نظر ہے نہ محبت کی مراد

بستیاں پیار کی تم ﷺ ہی سے بسی ہیں سرکار ﷺ

میرے محبوب ﷺ انس و جاں !۔۔۔۔

انسان جس ہستی سے محبت کرتا ہے اس کی ذات کے چمن سے وہ نہ صرف فکر و نظر کے پھول چنتا ہے۔ بلکہ اس کے وجود سے سوز و گداز کی کلیاں بھی جن سے وہ اپنے دل کا چراغ روشن رکھتاہے۔ جن سے وہ تنہائیوں میں بھی انجمن آرا رہتا ہے۔

میرے حضور ﷺ !۔۔۔۔

میں بھی تو محتاج کرم آپ ﷺ ہی کا اک گنہگار امتی ہوں۔ مجھے بھی تو آپ ﷺ کی ذاتِ قدسی سے نسبت و عقیدت ہے۔ میرے نامہ ٔ اعمال کی سیاہوں سے قطع نظر حسنین کریمین علیہ التحیۃ و السلام کے صدقے مجھے اپنی کملی کے سایے میں لے لیجیے۔ ِللہ مجھے اپنے قدموں میں جگہ دے دیجئے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

میر ے آقائے دو جہاں ﷺ !

آپ کی الفت کے اسیر۔۔۔۔۔خوجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں :

’ میںنے اپنے گھر میں بھی ایک پل بھی قرار نہیں پایا۔ آپ کے ہجر و الم میں میری ساری عمر گزر گئی۔ آپ کا فراق و اضطراب


مجھے در در لیے پھرتا ہے۔۔۔۔‘‘

اے خالقِ ہجر و وصال!

"تجھے زلف ﷺ و اللیل کی قسم !کوئی ایسا وسیلہ بنا کہ میری باقی عمر تیرے محبوب ﷺ کے در اقدس پہ ان ﷺ قدموں میں گزر جائے۔ ‘‘ ۔ ؎


میرے آقا ﷺ اپنے دل کا حال میں کس سے کہوں

چپ رہوں لیکن کہاں تک اور کیسے چپ رہوں

رات کی نیدیںمیسر ہیں نہ اب دل کو سکوں

اور ہوتا جا رہا ہے دردِ مہجوری فزوں

صبر کا دامن چھٹا جاتا ہے ہاتھوں سے میرے

آپ ﷺ خود فرمائیں آخر میں کروں تو کیا کروں

صرف اتنا عرض کرنے کی اجازت ہو عطا

دور رہ کر آپ ﷺ کے قدموں سے میں کیوں کر جیوں

دانائے سبل ﷺ !

تمنائے دید کے اس دشت کی پہنائی میں میری عمر بیت گئی۔ میری زیست کے کم و بیش اٹھارہ سال گزر گئے ! اس عرصہ ٔ ہجر اں میں میں نے راہ کے ہر سنگ ریزے کو پھول کی طرح چوم کر اپنی آنکھوں سے لگا یا ہے۔ اپنے دل میں جگہ دی ہے مگر اب تابِ انتظار نہیں۔ ؎

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659


اے نبی ﷺ ! اے میرے مولیٰ ﷺ اے رسولِ ہاشمی

میری شہ رگ کا لہو اور میری آنکھوں کی نمی

میری دولت میری عزت میری اولادِ عزیز

میرے ماں باپ اور میری جاں بے قیمت سی چیز

تیرے ﷺ قدموں پہ تیرے نقشِ اقدس پہ نثار

عرض یہ کرتا ہوں اور آنکھیں ہیں میری اشک بار

جاگتے میں اپنے قدموں میں بلا لیں ایک بار

ختم الرسل ﷺ !

آج تک کوئی ایسی ساعت کائنات کا مقدر نہیں نبی جو خوشبوئے اسم محمد ﷺ سے نہ مہک رہی ہو۔ آپ ﷺ کے دیدار کی آرزو کہکشاں رنگ لفظو ں میں ایک مانوس خوشبو بن کر اُبھرتی ہے اور مشام ِ روح و بدن کو معطر کرتی چلی جاتی ہے۔ حضور ﷺ آپ کے بلاوئے کے باوجود آپ کی بارگاہ ِ ناز میں مدّتوں بار یاب نہ ہو سکنے کے اس سبب ۔ ؎


گل نبی ﷺ سے زباں عرض حال کی خاطر

نسیمِ صبح کا لہجہ تلاش کرتی ہے

ملے جو لہجہ کروں کیسے سامنا اُنکا

کہ رو سیاہی میری سامنے سے ڈرتی ہے

آپ ﷺ کے دیار صبح بہار کے مطلع انوار میں بار یابی کے حوالے سے میں انتہائی کم نصیب گردانا گیا ہوں۔ خویش و اغیار کے طنزکے تیروں کے سایے میں دل کی چبھن کے باوجود اپنی حیات مستعار کی وفا کے سلسلے میں اس گماں سے پہلے ہی ہوش و خرد سے آری ہو جاؤں کہ آپ ﷺ کی شان کریمی پہ کوئی حرف آسکتا ہے کیونکہ یہ کومل سوچ میرے ایمان و ایقان کے فصلِ گل کی بہار ہے۔ ؎


نبی کی شان کریمی پہ حرف آتا ہے

انہیں پسند نہیں انتظار میں رکھنا

لگاتے رہنا مدینے کے قافلوں کا سراغ

اور آنسوؤں کے دیئے راہ گزر میں رکھنا

مولائے کُل ﷺ!

کسی آنکھ نے آج تک کوئی ایسا میزبان نہیں دیکھا جس نے اپنے در پہ بُلائے ہوئے مہمان کو خالی ہاتھ لوٹایا ہو اور میں تو آپ ﷺ کے در کا گدا ہواں جہاں مانگتے تاجدار پھرتے ہیں۔ میں تو آپ کی گلی کا فقیر ہوں جہاں مجھ جیسے انگنت سیاہ کار آپ ﷺ کے جود و سخا پر پل رہے ہیں۔ میرے حضور ﷺ ! میں آپ ﷺ کا مہمان ہوں۔ نا رسائی میرا نوشتہ ٔ تقدیر نہیں بلکہ آپ کی زیارت بفضل یزدی میرا مقدر ہے ۔ ؎

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png


اس سے پہلے کہ بجھیں میری بصارت کے چراغ

ان میں تصویر مدینے کی سجا لی جائے

یہ تو ممکن ہی نہیں رحمتوں والے آقا

ہاتھوں تیری چوکھٹ سے سوالی جائے

یا رحمۃاللعالمین ﷺ !

مہرو مہ سے تابندہ تر آپ ﷺ کے رخِ انور پہ بکھری ہوئی زلف واللیل کی قسم ! آپ ﷺ کے دربار گُہر بار سے آیا ہوا بلاوا میری زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں ہولے سے چلتی ہوئی باد ِ نسیم اور زیست کے اجڑے ہوئے دیار میں چپکے سے آتی ہوئی بہار سے زیادہ جاں فزا ہے۔ یہ نہ صرف بعد از وصال آپ ﷺ کی ابدی سیرت کا تحیر خیز معجزہ ہے بلکہ اللہ کا کرم بھی ؎


کیسے ادا زباں سے ہو شکر کردگار

جالی حرم کی اور یہ چشمِ گناہگار

آتا نہیں یقیں کہ میں اور درِ نبی ﷺ

میں اور قدم حضور ﷺ کے سوچا نہ تھا کبھی

کٹ جائے میری عمر تیرے ذکرِ پاک میں

مل جائے میری خاک مدینے کی خاک میں

یا سیدالمرسلین ﷺ !

تحدیثِ نعمت کے طور پر بصد عجز و نیاز عرض گداز ہوں کہ یہ امر میرے لیے باعث صد انبساط ہے کہ کروڑوں کی آبادی کے حامل پنجاب میں جو ارضِ پاک کا دل ہے لاکھوں نفوس میں سے میرے حضور ﷺ کی چشم التفات مجھ سیاہ کار پہ ہی پڑی ہے اور مجھ گنہگارکے عرقِ انفعال کے قطروں کونہ صرف افتخار سے نوازا ہے بلکہ آپ ﷺ کی شان ِ کریمی نے انہیں موتی سمجھ کے چن لیا ہے ؎


یہ پوچھنا ہے مجھے اپنی فردِ عصیاں سے

مجھے یہ اذنِ حضور عطا ہوا کیسے؟

مجھ پہ یہ عنایت ہوئی کیوں کر ؟۔۔۔۔ وادی حیرت میں گم میرے عقل و شعور اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔۔۔۔ کیا میں استحقاق رکھتا تھا کہ میں اس سعادت سے نوازا جاؤں؟۔۔۔ نہیں ، بخدا نہیں۔۔۔ میں تو اس قابل بھی نہ تھا کہ درِ سرکار ﷺ پہ یاد کیا جاؤں۔۔۔۔ نہ جانے میرے حضور ﷺ کو کیسے خیال آگیا کہ اپنے عصیاں شعارکو اپنے آستان ِ کرم پہ بُلا لیا۔ میرے پاس کہنے کو ان لفظوں کے سوا کچھ اور نہیں ۔ ؎


دید کے قابل یہ کہاں میری نظر ہے

یہ ان ﷺ کا کرم ہے کہ نظر اُن ﷺ کی ادھر ہے

آپ ﷺ کی طرف سے آیا ہوا بُلاوا میرے لیے شہیدی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح باعثِ صد فخر و انبساط ہے۔ حضور ﷺ ! پ ﷺ کی خاک پا کی قسم صرف اسی خوشی میں گزارنے کے لیے میری ساری عمر بھی کم ہے۔ ؎


ان کا پیغام طلب ہاں اُن کا پیغام طلب

اللہ اللہ ان کا پیغام طلب پہنچا مجھے

کیوں نہ عاصی آج میں خود کو مبارک باد دوں

رحمت اللعالمین ﷺ نے یاد فرمایا مجھے

شرم سے چہرہ مرا گل رنگ ہو کر رہ گیا

شہر طیبہ کی ہوا نے اس قدر چوما مجھے

میں خش و خاشاک مشتِ خاک مجھ پر یہ کرم

یوں پذیرائی ! یہ کب تھا اندازہ مجھے !

میرے شفیع المذنبیں ﷺ !

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

یہ تمنّا میری سوچ کا جھومر ہے کہ میرا انجام کرامت علی شہیدی رحمۃ اللہ علیہ کے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اس شعر کی زندہ تفسیر ہو ۔ ؎


تمناّ ہے درختوں پہ ترے روضے کے جا بیٹھے

قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ مقیّد کا

میری حسرت و آرزو ہے کہ مجھ سیاہ کار کا جسم اپنی سیاہ کاریوں اور عصیاں شعاریوں سمیت اپنی نگاہوں سے گنبدِ خضریٰ کی زیارت کر لے تاکہ یہ کہنے کا اعزاز حاصل کر سکے۔ ؎


حضور روضۂ اقدس ﷺ پہ کھڑا ہوں

تمنّا ہے نہ اب کوئی طلب ہے

اور پھر بس اس قابل نہ رہے کہ انہی آلودگیوں سمیت بارگاہ ِ محبو ب ﷺ میں بار یاب ہوسکے صرف آپ ﷺ کی چشم ِ کرم میں آجائے کہ اک گنہگار جو آپ کا امتی تھا اپنی گناہوں پہ منفعل تھا اسی لیے وہ اپنی گنہگار آنکھوں کو ہی گنبد خضریٰ پہ نچھاور کر سکا اپنے آلودۂ معصیت جسم کو حدِ کوئے محبوب ﷺ میں نہیں لایا کیوں کہ اسے اس بارگاہ کی عظمت و جلالت کا حد درجہ احساس تھا جو بوسہ گاہ ملائک ہے جس کا درباں جبریل امین علیہ السلام ہے جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتوں کی نورانی جماعت حاضر ہوکر درود و سلام کے بے پایاں پھول میرے آقائے کریم ﷺ آپ پہ نچھاور کرتی ہے اور اپنے عنبریں پروں سے روضۂ اقدس پہ غبارِ گل کی افشاں کو اپنے چہرے کا غازہ اور آنکھوں کا سرمہ بناتی ہے جہاں روز و شب انوار و برکات کی بارش ہوتی ہے ، جہاں جنید و بایزید رحمۃ اللہ علیہ ہاتھ باندھے گم کردہ نفس نظرآتے ہیں جس کی رفعت کے سبب عرش ِ اعظم بھی جھکا رہتا ہے۔


میرے آقائے بے کس نواز ﷺ !

کا سے میں اس بھیک کے ساتھ سائل کی اس صدا کے ساتھ اور عجزِ بیاں کی اس التجا کے ساتھ ریاض حسین چودھری کے مشک بو لہجے میں آپ ﷺ کی بارگاہ اقدس سے نگاہ لطف و کرم اور بخشش و عطا کا طالب ہوں ؎


حضور ﷺ حاضر ہے ایک مجرم ﷺ اس کو معاف کر دیں

اور اس کے کشکول آرزو کو کرم کے سکوں سے آج بھر دیں

یہ ہجرتوں کے اُگا کے موسم حضور ﷺ لایا ہے کشت غم

یہ ہجرتوں کے اُگا کے موسم حضور ﷺ لایا ہے کشت غم

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
مضامین میں تازہ اضافہ
نئے صفحات