تنویر پھول کا ایک خط ۔ نعت نامے

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

تنویرپھولؔ ۔نیویارک

15/نومبر 2014

نیویارک میں برادرم فیروز احمد سیفی صاحب کی محبت اور کرم فرمائی کے طفیل ’’نعت رنگ‘‘ کا شمارہ نمبر ۲۴ نظر نواز ہُوا جسے پاکر دل باغ باغ ہو گیا، اُن کے لئے اور آپ کے لئے دل سے دعائیں نکلیں۔ یہ خبر بے انتہا مسرت کا باعث ہوئی کہ ’’نعت رنگ‘‘ کا اگلا شمارہ سلور جوبلی نمبر ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’نعت رنگ‘‘ مستقبل قریب میں اپنے عظیم سفر کی ۲۵ منزلیں طے کر لے گاسبحان اللہ ، ماشا ء اللہ ، جزاک اللہ۔

سر پر صبیح کے ہے سجا تاجِ ’’نعت رنگ‘‘

ممکن نہیں کہ دل سے ہو اخراجِ ’’نعت رنگ‘‘

اے پھولؔ ! جشنِ سیمیں مبارک صبیح کو

محبوب اہلِ دل کو ہے معراجِ ’’نعت رنگ‘‘

اب آئیے زیر نظر شمارے کے حوالے سے کچھ باتیں ہو جائیں ۔سر ورق پر بہت خوب صورتی سے ’’ اللہ ربّ محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ ‘ تحریر ہے یعنی :

گناہوں کو وہ پھولؔ ! بخشے گا بے شک

بڑا مہرباں ہے خدائے محمد

صفحہ نمبر ۲۵ پر راقم الحروف کی حمد کے ساتھ نام ’’ تنویر پھولؔ ‘‘ کی جگہ ’’ تنویل پھولؔ ‘‘ غلط کمپوز ہو گیا ہے ۔ صفحہ نمبر ۲۷ پرڈاکٹر اشفاق انجم کی جو حمد ہے اُس کے چھٹے شعر کا دوسرا مصرعہ’’ وہی کہ اخلاص و نشرح والا ، وہی کہ رعد و دخان والا ‘‘ شاعر کی نظر ثانی کا طلب گار ہے ، ’’ نشرح‘‘کی جگہ ’’فتح‘‘ (سورۃ الفتح) یا ’’ناس‘‘ ( سورۃ الناس) یا اسی کا ہم وزن کوئی لفظ استعمال ہوسکتا ہے ۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کا مقالہ ’’ پاکستان میں نعتیہ صحافت‘‘ ایک معلوماتی تحریر ہے ، موصوف نے حال ہی میں نعت کے موضوع پر پی ایچ ۔ ڈی کی سند حاصل کی ہے جس پرراقم الحروف کی طرف سے دلی مبارک باد۔ صفحہ نمبر ۲۲۳ پر راقم الحروف کے مضمون کی تیسری سطر میں ’ ’ حمد اور مناجات ‘‘ کی جگہ ’’حمد اور نعت‘‘کمپوز ہُوا ہے جو درست نہیں۔براہِ کرم جملہ اس طرح پڑھا جائے ’’سورۃ الفاتحہ حمد اور مناجات کی یک جائی کا مظہر ہے ‘‘ ۔ صفحہ نمبر ۲۲۵ پر لفظ ’’ارم‘‘ کے استعمال پر بحث کی گئی ہے جو معلوماتی ہے اور صفحہ نمبر۲۱۷ پر ایک دوسرے مقالہ نگار نے تحریر کیا ہے ’’ قرآن وحدیث اور دیگر مذہبی کتابوں میں جن آٹھ جنتوں کا ذکر ہے ’’ارم‘‘ ان میں شامل نہیں ہے ، اس حقیقت سے جاہل و کم علم شعرا بے خبر ہو سکتے ہیں ‘‘۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر زبان کا الگ الگ انداز ہے ۔ اردو زبان میں لفظ’’ارم‘‘ کا حوالہ کسی مخصوص جنت یا جنت کے کسی حصے کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اس سے مجازاََجنت یا بہشت مراد ہے ، فیروز اللغات ، نسیم اللغات اور جواہر اللغات سب اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں۔ جو لوگ لفظ ’’عشق‘‘ کی طرح اسے استعمال نہ کرنا چاہیں وہ نہ کریں لیکن استعمال کرنے والوں کو ’’ جاہل و کم علم شعرا‘‘ کہنا مناسب نہیں ۔ غالب ؔ جیسا بڑا شاعر بھی لفظ ’’ارم‘‘ کو اسی مفہوم میں استعمال کرتا ہے : ’’ خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں ‘‘ ۔

عربی میں تو لفظ ’’بہشت‘‘ بھی نہیں ہے ، کیا اسے بھی استعمال کرنا قابل اعتراض ہوگا؟ عربی میں ’’ رقیب‘‘ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے لیکن ہماری غزلوں میں اس کے دوسرے معنی ہیں۔

اردو میں لفظ ’’مولیٰ‘‘ سے مراد ’’آقا‘‘ ہے لیکن عربی میں اس سے مراد ’’ آزاد کیا ہُوا غلام ‘‘ بھی ہے۔ دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ کوئی لفظ کس مفہوم میں استعمال کیا جارہا ہے ۔ حال ہی میں کچھ لوگوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ گوشت اور دالوں کے آمیزے کو ’’حلیم‘‘ کہنا گناہ ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے ، اسے ’’حلیم‘‘ نہیں بلکہ ’’دلیم‘‘ کہا جائے ۔ یہ سب لایعنی باتیں ہیں اور زبان کو محدود کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اگر ’’حلیم‘‘ پر اعتراض ہے تو ’’ رقیب‘‘ اور ’’حکیم‘‘ کا کیا ہوگا؟ ’’ رقیب رُو سیاہ ‘‘ اور ’’ حکیم صاحب‘‘ ، ’’ حکیم جی‘‘ ا ن سب کو زبان سے خارج کرنا پڑے گا ۔ صفحہ نمبر ۲۳۴ پر نمرود کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ اُس نے بلند ترین مینار یا محل بنوایا تاکہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے معبود کو تلاش کرے لیکن قرآن پاک میں یہ بات نمرود نہیں بلکہ فرعون اور ہامان کے حوالے سے ہے ( سورۃ المومن آیات ۳۶ و ۳۷ ، نیز سورۃالقصص آیت نمبر ۳۸) ۔

ڈاکٹر محمد طاہر قریشی کا مقالہ ’’نعت اور نعتیہ عناصر‘‘ ایک وقیع تحریر ہے جس پر موصوف مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صفحہ نمبر ۴۷۴ پر نعت کا ایک شعر ہے :

رحمۃ للعالمیں ! ، خیرالامم

آپ ہی کا سب سے اونچا ہے علم

اس شعر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ’’خیر الامم ‘‘کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو درست نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فخر امم یا شاہِ امم صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہئے ۔ ’’ خیرالامم‘‘ سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک نہیں بلکہ آپؐکی امت کو ’’خیر الامم‘‘ کہا گیا ہے (سورہ آل عمران ، آیت نمبر ۱۱۰ ۔ علامہ اقبال ؒ کی نظم ’’ بلادِ اسلامیہ ‘‘ میں ایک شعر ہے:

سوتے ہیں اس خاک میں خیرالامم کے تاجدار

نظم عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار

ڈاکٹر عزیز احسن کی تحریر ایک گراں قدر تحقیقی مقالہ ’’ہماری ملی شاعری میں نعتیہ عناصر‘‘ ایک قیمتی تحریر ہے جس میں ڈاکٹر محمد طاہر قریشی کے مقالے کا تعارف کرایا گیا ہے ۔ ملی شاعری میں حمدیہ و نعتیہ عناصر کے حوالے سے راقم الحروف اپنے ملی نغموں کے مجموعے ’’ نغماتِ پاکستان‘‘ ( صدارتی ایوارڈ یافتہ ) میں شامل کچھ اشعار کا ذکر کرنا چاہتا ہے ۔ اس مجموعے کی ابتدا اس حمد اور نعت سے ہوتی ہے :

تو ہے سب سے بڑا ۔ تیرے ارض و سما

دہر میں جا بجا ۔ تیرا چرچا ملا

شکر تیرا خدا !

ملک پیارا دیا

پاک ہے یہ زمیں ۔ نام ہے دل نشیں

پرچمِ سبز ہے ۔خوب صورت،حسیں

شکر تیرا خدا !

ملک پیارا دیا

تیری رحمت ملی ۔ خوب دولت ملی

یعنی آزادی کی ۔ ہم کو نعمت ملی

شکر تیرا خدا !

ملک پیارادیا

کام اچھے کریں ۔ سچے مسلم بنیں

ہم کو توفیق دے ۔ تیری رہ پر چلیں

شکر تیراخدا!

ملک پیارادیا

تو ہی رحمان ہے ۔ تو ہی منان ہے

ہر نفس پھولؔ پر ۔ تیرا احسان ہے

شکر تیرا خدا !

ملک پیارا دیا

مشاہدہ ہے کہ کچھ لوگ بلاسمجھے بوجھے حیات النبیصلی اللہ علیہ وسلمکے موضوع پر بحث میں اپنی توانائیاں صرف کر تے ہیں،ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں اور فریق مخالف کوشیطان اور گمراہ قرار دیتے ہیں جبکہ سورۃالحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ، ہوسکتاہے وہ اُن سے بہترہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں مبتلا ہونا بہت بری بات ہے، جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں‘‘۔

یہاں ایک نکتے کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے ، قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’شہیدوں کو مردہ نہ کہو ، وہ زندہ ہیں اور رزق پارہے ہیں لیکن تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ ظاہر ہے کہ نبی ؐ کادرجہ شہید سے بڑا ہے اس لئے ہمیں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں تردد کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ، یہ غیب کی باتیں ہیں اور ایمان کی پہلی شرط ہی غیب پر ایمان لاناہے(سورۃ البقرہ ،آیت نمبر ۳) ۔ اس بحث کے نتیجے میں ایسا نہ ہو کہ شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی گستاخی سرزد ہو جائے اور سارے اعمال اکارت ہو جائیں(سورۃ الحجرات، آیات نمبر ۱ اور ۲) جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو عام لوگوں کی موت کی طرح سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا بڑا بھائی سمجھو۔ اس بات پر ہنسی آتی ہے کہ زمرہء علما میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ان لوگوں کو کیاہوگیا ہے؟ ذرا قرآن پر ہی غور کر لیتے کہ ازواج مطہراتؓ کو قرآن نے امہات المومنین قرار دیا ہے۔ جب وہ مسلمانوں کی مائیں ہیں تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کم از کم باپ کے برابر تو ہوئے ، بڑے بھائی کیسے ہو گئے؟اب آئیے وفات اور حیات کے مسئلے کی طرف ، قرآن میں حضرت عیسیٰ ؑ کے لئے بھی وفات ( انی متوفیک ) کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے جبکہ وہ آسمان پر زندہ اٹھا لئے گئے (سورہ آل عمران،آیت نمبر ۵۵)۔دنیا کی دائمی زندگی کسی کو نہیں ملی ، ہاں شیطان کو قیامت تک کی زندگی اُس کی خواہش پر عطا کی گئی ہے۔ آخرت کی زندگی حسب مراتب عطا کی جاتی ہے جس کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ ایک بات یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ شہیدوں کو زندہ کہا گیا لیکن ان کی بیوائیں دوسری شادی کرسکتی ہیں جبکہ ازواج مطہراتؓ کے لئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا کرنا یاکسی کو اُن کے بارے میں ایسا سوچنا بھی سختی سے ممنوع ہے(سورۃ الاحزاب ،آیت نمبر ۵۳) ۔ یہ بھی دیکھیں کہ لفظ ایک ہی استعمال ہوتا ہے لیکن دیکھنا پڑتا ہے کہ یہ کس تناظر میں اور کس کے لئے استعمال ہوا ہے؟ ، قرآن میں فرمایا ’’ کل نفس ذآئقۃ الموت‘‘ ( ہر نفس کو موت کامزہ چکھنا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بھی لفظ ’’نفس‘‘ استعمال کیا ہے(سورۃ الانعام ، آیت نمبر ۱۲) ، نعوذ باللہ کسی کوغلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے قرآن کو مکمل طور پر سمجھنا چاہئے ٹکڑے ٹکڑے کر کے نہیں۔ دونوں جگہ لفظ ’’نفس‘‘ ہے لیکن یہ دیکھا جائے گا کہ کس کے لئے ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات الحی القیوم ہے اس لئے یہاں نفس کے معنی دوسرے ہوں گے ، اسی طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو عام لوگوں کی طرح سمجھنا صریح غلطی ہے ۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات ( دونوں کا دن پیر بتایاجاتاہے )کی تاریخوں کے بارے میں اختلاف ہے ، ولادت کی تاریخ ۹ ربیع الاول ، ۱۲ ربیع الاول اور اہل تشیع کی روایات میں ۱۷ ربیع الاول بتائی جاتی ہے جبکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی تاریخ وہ ۱۲ ربیع الاول نہیں بلکہ ۲۸ صفر بتاتے ہیں۔ بارہ وفات کے مہینے کی ترکیب عوام الناس کی زبان ہے جس طرح وہ صفرالمظفر کوتیرہ تیزی اور ذیقعد کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں ، اس کی کوئی مستند حیثیت نہیں ہے۔ شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے یا نہ دیکھنے کا معاملہ بھی نزاعی بنا لیا گیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ کوئی نظر اللہ تعالیٰ کی ذات کااحاطہ نہیں کر سکتی ، حضرت موسیٰ ؑ نے کوہ طور پر جو روشنی دیکھی تھی اور جسے وہ آگ سمجھے تھے ، وہ بھی اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہی تھا ، انھوں نے اسے دیکھا لیکن جب مزید کی خواہش کی تو تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے اپنی وسعت کے مطابق دیدار تو انھوں نے بھی کیا۔ اسی طرح شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر ہے حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلے میں زیادہ ہی دیکھا لیکن کتنا دیکھا؟ یہ ہمیں نہیں معلوم ، اسی لئے حضرت ابن عباسؓ کہتے تھے کہ معراج کی شب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ( اور قیامت میں جنتی بھی کریں گے جو حدیث سے ثابت ہے) جبکہ حضرت عائشہؓ کی روایت اس کے خلاف ہے لیکن جب معراج کا واقعہ ہوا تھا اُس وقت وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں نہیں آئی تھیں اس لئے اس مسئلے میں جھگڑنا نہیں چاہئے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ’’ فیوض الحرمین ‘‘ کے صفحہ نمبر ۳۳ پر مکہ مکرمہ میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس موقع پر انوار کے ظہور کا تذکرہ کیا ہے جو انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں خود محسوس کیا ۔ وہ رقم طراز ہیں : ’’ اس سے پہلے میں مکہ معظمہ میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد مبارک میں تھا ، میلاد شریف کے روز لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتے تھے اور وہ معجزے بیان کرتے تھے جو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت ظاہر ہوئے تھے اور وہ مشاہدے جو اعلان نبوت سے پہلے ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ یکبارگی انوار ظاہر ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیاان آنکھوں سے دیکھا اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ فقط روح کی آنکھوں سے ۔ خدا جانے کیا امر تھا ان آنکھوں سے دیکھا یا روح کی ۔ پس میں نے تامل کیا تو معلوم ہواکہ یہ نور اُن ملائکہ کا ہے جو ایسی مجلسوں اور مشاہد پر موکل و مقرر ہیں اور میں نے دیکھا کہ انوار ملائکہ اور انوارِ رحمت ملے ہوئے ہیں‘‘ ۔ صفحہ نمبر ۳۵ پر رقم طراز ہیں : ’’ میں نے دیکھا آں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر امور میں اصلی صورت مقدس میں بار بار ، باوجودیکہ مجھے بڑی آرزو تھی کہ روحانیت میں دیکھوں نہ جسمانیت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ، پس مجھ کو دریافت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے رو ح کو صورتِ جسم میں کرنا اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول سے اشارہ فرمایا ہے کہ انبیاء نہیں مرتے اور اپنی قبروں میں نماز پڑھا کرتے ہیں اور انبیاء حج کیا کرتے ہیں، اپنی قبروں میں وہ زندہ ہیں وغیرہ وغیرہ اور جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا تو مجھ سے خوش ہوئے اور انشراح فرمایا اور ظاہر ہوئے اور یہ اس واسطے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت للعالمین ہیں‘‘۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب ’’ فیوض الحرمین ‘‘ اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے :

https://archive.org/stream/Fuyooz-ulHaramainarabicWithUrduTranslation /00357_FUYOOZ-UL-HARAMAIN-ur#page/n6/mode/2up

وہ بھی زندہ ، شہادت ہے جس کو ملی

جان لو ، جاوداں کوئی اُن سا نہیں

پھولؔ ! بعد از خدا اُن کا ہے مرتبہ

خلق میں بے گماں کوئی اُن سا نہیں

لاہور سے شائع ہونے والے ایک جریدے میں دارالعلوم اٹک سے تعلق رکھنے والے ایک حافظ صاحب نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اپنی آخری علالت میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ قیامت کے دن میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی۔میں نے جواباََ لکھا کہ حدیث میں’’قیامت کے دن‘‘ کے الفاظ میں نے نہیں پڑھے ، یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے اور یہ ایک پیش گوئی ہے کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعداہل بیتؓ میں سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کی وفات ہوئی ۔ حافظ صاحب موصوف حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تردد کا شکارتھے اس لئے انھوں نے حدیث میں’’قیامت کے دن‘‘ کے الفاظ بڑھا دیئے۔ دراصل ہم حیات النبیصلی اللہ علیہ وسلمکا صحیح ادراک نہیں کر سکتے جس طرح شہدا کی حیات کا ، جو قرآن سے ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ نبی ؑ کا درجہ شہید سے بڑا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی ؒ نے اپنے ایک شعر میں حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس طرح کیا :

تو زندہ ہے واللہ ، تو زندہ ہے واللہ !

مری چشمِ ظاہر سے چھُپ جانے والے

صبیح رحمانی کا یہ خوب صورت نعتیہ شعر بھی اسی کیفیت کی عکاسی کر رہا ہے :

میں لب کشا نہیں ہوں کہ یہ جانتا ہوں میں

سنتے ہیں وہ صدائیں سکوتِ نگاہ کی

ایک صاحب نے راقم الحروف کے مجموعہ ء نعت ’’قندیل حرا‘‘ میں ایک نعت پڑھی جس کا مطلع یہ تھا:

آپ جیسا یا نبی ! باحوصلہ کوئی نہیں

کھا کے پتھر دشمنوں کو دے دعا،کوئی نہیں

فرمانے لگے ، نعت تو اچھی ہے لیکن آپ نے ’’ یا نبی !‘‘ کہہ کر اسے قابل اعتراض بنادیا ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کو اُن کی وفات کے بعد ’’ اے قائد اعظم !‘‘کہنے پر تو اعتراض نہیں کرتے ( میرا اشارہ اس مشہور شعر کی طرف تھا : یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران۔ اے قائد اعظم ! ترا احسان ہے احسان) لیکن نعت میں ’’یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘کہنے پر اعتراض کر رہے ہیں ! اس پر وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گئے ۔

حضرت امام زین العابدینؓ کے یہ اشعار بھی سند کی حیثیت رکھتے ہیں :

یا مصطفی ! یا مجتبیٰ ! اِر حم علیٰ عصیا ننا

مجبورۃ اعمالنا ذنب وّ طمع وّ الظلم

یا رحمۃ للعالمیں !اَد رِ ک لزین العابدیںؓ

محبوسِ ایدی الظالمیں فی الموکبِ و المزدحم

ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ اشعار حضرت امام زین العابدینؓ کے نہیں ہو سکتے کیونکہ ’’زین العابدین‘‘ اُن کا تعریفی لقب تھا اور وہ خود اسے اپنے لئے استعمال نہیں کرسکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنا تعریفی لقب ’’صدیق‘‘ اپنی مناجات میں بطور تخلص استعمال کیا ہے :

انت وافی انت کافی فی مھمّّات الامور

انت حسبی انت ربی انت لی نعم الوکیل

این موسیٰ ؑ این عیسیٰ این یحییٰ ؑ این نوحؑ

انت یا صدیقِ عاصِِ تب الی المولی الجلیل

جو لوگ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ جو سال میں ایک ایک مرتبہ آتی ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے کہ حدیث میں جمعہ کو بھی عید المومنین کہا گیا ہے جو سال میں ہر ہفتے ہی ہے ۔ عید اُس خوشی کے دن کو کہتے ہیں جو بار بار آئے ۔ یہ لوگ ’’بدعت بدعت‘‘ کی تکرار کرتے ہیں لیکن ’’بدعت سیۂ‘‘ اور ’’بدعت حسنہ‘‘کا فرق نہیں سمجھتے ۔ بدعت کا مطلب ہے نئی چیز ایجاد کرنا ، ’’البدیع‘‘ اللہ تعالیٰ کے اسما ء الحسنیٰ میں شامل ہے جو اسی کا اسم فاعل ہے ۔ اچھی بات اچھی ہوتی ہے اور بُری بات بُری ہوتی ہے۔

اگریہ لوگ ہر نئی بات کو بدعت کہہ کر ممنوع قرار دیتے ہیں تو قرآن کو کتابی شکل میں لانے اور نماز تراویح کی پابندی کرنے کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ مساجد میں برقی پنکھے اور ایئر کنڈیشنر کیوں لگاتے ہیں؟اونٹ پر سواری کی جگہ کاریں اور ہوائی جہاز کیوں استعمال کرتے ہیں؟ خصوصاََ حج اور عمرے کے سفر کے لئے ۔ایک روایت میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صاحب نے رکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ ، ربنا لک الحمدکے بعد حمداََ کثیراََ طیباََ مبارکاََ فیہ بھی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند فرمایا اور اُن کی تحسین کی ۔ یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ سعودی عرب والے جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے خلاف ہیں لیکن ہر سال اپنا قومی دن بڑے دھوم دھام سے مناتے ہیں ! اُن کے فلسفے کے مطابق تو یہ بھی بدعت ہے اس لئے ممنوع ہونا چاہئے ۔

حمد و نعت میں لفظ ’’عشق‘‘ استعمال کرنے کے خلاف جاپان کے ایک اردو اخبار میں ایک صاحب نے یہ بے تکی دلیل پیش کی کہ لفظ ’’عشق‘‘ بہت ہی خراب ہے ، کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی بہو سے عشق کرتے ہیں؟ اتنا خراب لفظ حمد و نعت میں کس طرح استعمال ہو سکتا ہے ! ۔ راقم الحروف نے انھیں جواب دیا کہ کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی بہو کا بوسہ لیتے ہیں؟آپ کے کہنے کے مطابق لفظ ’’بوسہ‘‘ بھی قبیح و مردود ٹھہرا پھر آپ حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ لفظ کس کے لئے اور کس تناظر میں استعمال ہو رہاہے ؟ خط طویل ہو گیا ہے اس لئے اب اجازت دیجئے۔ ای میل سے رابطہ رکھیے گا ۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25