تفہیم کلام رضا ۔ چند معروضات ۔ صبیح رحمانی

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : صبیح رحمانی

تفہیم کلام رضا ۔ چند معروضات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

اُردو نعت آج ایک منفرد صنفِ سخن کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے۔ نعت کی صنفی شناخت کا یہ دائرہ نہ تو صرف مسلمان حلقوں تک محدود رہے اور نہ ہی اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے والوں تک۔ نعت کی تخلیقی اور تفہیمی دنیا ایسی تمام سرحدوں سے ماورا اور کہیں زیادہ وسیع تر ہے۔ بلاشبہ نعت کے بیانیہ کی ساخت اور اُس کے متن کے اظہاری سانچوں کی تشکیل اور ان کی معنویت کا عمل براہِ راست اسلامی عقائد سے مشتق ہوتا ہے۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ غیر مسلم شعرا کی نعت نگاری آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی محبوبیت کا وہ اعتراف ہے جو بجائے خود معجزے ہی کا درجہ رکھتا ہے۔ انسانی تاریخ کے ہزاروں برسوں میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ عقل و دل دونوں ہی اس امر کی گواہی دیتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآنِ کریم نے اس معجزے کی گواہی کچھ اس طرح پیش کی ہے


‘‘اور ہم نے آپ کے ذکر کو آپ کی خاطر بلند کیا۔’’

یہ ذکر اور اِس کی بلندی کی سطحوں کا فروغ نعت کا شیوہ ہے اور یہی نعت نگاروں کی آرزو۔


اُردو نعت کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ اس صنفِ سخن کی آبیاری میں متعدد شعرا نے اپنا خونِ جگر صرف کرکے عقیدت نگاری کے باب میں اپنے خلوص، وارفتگی اور فنی مہارت کے جاوداں نقوش ثبت کیے اور حرفِ نسبت کے اعزاز کے ذریعے اپنے نام ہی کو نہیں، کام کو بھی دست بردِ زمانہ سے بچالیا۔ اردو کے تناظر میں دیکھا جائے تو نعتیہ شاعری کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہنوں میں جو پہلا نام روشن ہوتا ہے، وہ مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ کا ہے۔ کہتے ہیں قدرت بڑے کاموں کے لیے بڑے لوگ پیدا کرتی ہے اور انھی بڑے لوگوں کے عظیم کارناموں سے کسی قوم کی فکری تاریخ اور تہذیب و ادب کے اوراق روشن ہوتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خاںؒ بھی اپنی مجموعی صفات کے تناظر میں ایک ایسی ہی بڑی شخصیت ہیں جنھوں نے علمی، فکری، نظریاتی اور فقہی موضوعات پر وہ قابل قدر قلمی اثاثہ چھوڑا ہے جس سے آنے والا زمانہ تادیر روشنی حاصل کرتا رہے گا۔


مولانا کو شعر و ادب سے بھی خصوصی لگائو تھا۔ بے شمار علمی مشاغل کے باوجود ان کی شاعرانہ تخلیقات میں زبان و بیاں کی قوت،تخیل کی بلند پروازی، جذبات و واقعات نگاری اور وارداتِ قلبی کی پیکر تراشی جیسے فکری اور فنی محاسن دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ مولانا نے کل وقتی شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی اُردو زبان و ادب اور نعت گوئی کے فن کو کتنا پُر ثروت کیا ہے۔ ۱۴۴۰ ہجری میں مولانا کو دنیا سے رُخصت ہوئے ۱۰۰ سال ہو جائیں گے، مگر مولانا کے عشقِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرارت اور ان کے افکار، نظریات اور تعلیمات و کلام کی روشنی ہر ا ٓنے والے لمحے میں اپنا دائرہ وسیع کررہی ہے۔ ہر گزرتا دور ’’حدائقِ بخشش‘‘ کی تخلیقی عظمت ، ادبی سرفرازی، شعری بلندی اور عشق و عقیدت کے نو بہ نو پہلو سامنے لارہا ہے۔ مولانا نے اپنی نعت گوئی کے توسّط سے بحیثیت عالمِ دین احترامِ بارگاہِ رسالت مآب اور آدابِ نعت گوئی کے جن زاویوں اور پہلوئوں کو متعارف کروایا اور انھیں اپنے افکار و خیالات کے شعری سانچے میں جس طرح ڈھال کر دکھایا، اس کی کوئی دوسری مثال اُردو نعت کی شعری روایت میں باید و شاید نظر آئے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نعتیہ ادب پر اب تک تنقید و تحقیق کے جتنے بھی اظہاری زاویے سامنے آرہے ہیں، ان میں کہیں نہ کہیں مولانا کے اسلوب و آہنگ کو چراغِ راہ بنا کر چلنے کا رویہ نمایاں نظر آتا ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن اس امر کی نفی نہیں کی جاسکتی کہ اب تک [[ مولانا کو بحیثیت شاعر اُردو زبان و ادب کی تاریخ میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں اور یقینا ہیں، اس حوالے سے ۲۰۰۵ء میں ’’نعت رنگ‘‘ کا مولانا احمد رضا خاں نمبر مرتب کرتے ہوئے، میں نے جن چند معروضات کا اظہار کیا تھا وہ آج بھی سوالیہ نشان کی صورت ہمارے سامنے ہیں۔ میں پوری ذمے داری کے ساتھ اس احساس کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا کی تمام تر مقبولیت کے باوجود تاریخِ ادب کا اُن کی طرف عدم التفات اور کلامِ رضا کے اہم فکری، فنی اور لسانی حوالوں کا عصری ادبی مباحث اور تجزیاتی مطالعات میں نظرانداز کیا جانا ہماری تنقید کے آگے ایک بڑا سوالیہ نشان اور ہماری ادبی روایت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

’نعت رنگ‘‘ کے مذکورہ خصوصی شمارے کی ترتیب و تہذیب کے دوران مجھے کلامِ رضا کی تفہیم و تشریح پر مبنی ایسے بیشتر لوازمے کو توجہ سے دیکھنے کا موقع ملا جواس وقت تک شائع ہو چکا تھا اور اس کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مولانا کی نعتیہ شاعری پر اب تک اُردو کے بہت سے نعت گو شعرا کے مقابلے میں دیکھا جائے تو کہیں زیادہ لکھا گیا ہے، مگر اس کا بیشتر حصہ تحسینی ہے اور جذباتی عقیدت پر مشتمل ہے جب کہ ادب میں صرف عقیدت کے اظہار سے کام نہیں چلتا، یہاں تو تحلیل، تبصرہ، تجزیہ کرتے ہوئے نتائجِ فکر پیش کرنے کا تقاضا ہوتا ہے، جس کی کمی اس باب میں صاف صاف محسوس ہوتی ہے ۔ نقد و نظر کا ماحول ایک کھلی فضا کا تقاضا کرتا ہے، جب کہ ہم نے مولانا کے گرد ایک ایسا تقدیسی ہالا قائم کر رکھا ہے جو شعری تخلیقات کو معروضی انداز اور ادبی معیارات کی روشنی میںپرکھنے والے سنجیدہ اہلِ قلم کو اس طرف آنے سے روکنے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ طبقہ اگر کہیں اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتا دکھائی بھی دیتا ہے تو سرسری انداز اور محتاط رویوں سے اس بات کی نشاندہی فوری طور پر ہو جاتی ہے کہ وہ صرف رسمی توصیف اور عمومی دلجوئی سے کام لے رہا ہے۔ اس مجموعی فضا کے حوالے سے میں نے اپنے احساسات ’’نعت رنگ‘‘ کے مولانا احمد رضا خاں نمبر کے ادارتی نوٹ میں کچھ اس طرح پیش کیے تھے:

’’حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں اُردو کے وہ خوش نصیب اور مقبولِ خاص و عام نعت گو ہیں جن پر بہت لکھا گیا ہے۔ اُردو کے کسی اور نعت گو پر اتنا نہیں لکھا گیا جتنا مطبوعہ مواد مولانا پر موجود ہے، لیکن مقالات و مضامین کی یہ کثرت ہمارے لیے خوشی کا باعث تو ہو سکتی ہے، اطمینان کا نہیں۔ خوشی اس بات کی کہ کسی نہ کسی بہانے ایک عظیم نعت گو کی یاد اور اس کے کام کی خوش بو پھیل رہی ہے اور عدم اطمینان اس بات پر کہ اس مطبوعہ سرمائے کی ایک بڑی تعداد سنجیدہ قارئین کو متأثر کرنے کے بجائے یکسانیت اور اُکتاہٹ کا احساس پیدا کر رہی ہے۔

ایسا صرف اس لیے ہے کہ یہ ساری تحریریں ایک دوسرے کی تفصیل و تلخیص معلوم ہوتی ہیں۔ اس ایوان میں فکرِ تازہ کے دریچے کم ہی کھلے ہیں۔ وہی چند موضوعات اور وہی چند حوالے جن کی بنیاد پر لاتعداد مضامین کا ایک ڈھیر لگا دیا گیا ہے۔ پھر ان مضامین کے لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد مولانا احمد رضا خاںؒ کے ایسے حلقۂ ارادت منداں سے تعلق رکھتی ہے جو مولانا کی نعت گوئی پر صرف اور صرف مولانا سے عقیدت اور محبت کے اظہار کی خاطر کچھ لکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ادب اور زبان سے جڑے مسائل ان کا مسئلہ اور موضوع نہیں۔


نتیجتاً ایسی تحریروں کی تعداد زیادہ ہے جو اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری کی تحسین کے نام پر جمع کردی گئی ہیں۔ اس انبار میں مولانا کی نعتیہ شاعری پر لکھے گئے ایسے سنجیدہ، علمی اور تنقیدی مقالے بھی ہیں جو عصری ادبی میلانات کی روشنی میں لکھے گئے تھے اور جنھیں نمایاں کرنا ضروری تھا، مگر وہ کہیں دب کر رہ گئے۔ ان کی وہ توقیر نہیں ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔


یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہم نے [[ مولانا کی نعتیہ شاعری کو ادبی نقطۂ نظر سے سمجھنے اور بحیثیت شاعر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پرکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ خود کی، نہ دوسروں کو اس کی اجازت دی۔ مولانا کی نعتیہ شاعری اور ان کا شعری عمل خالص ادبی نقطۂ نظر سے ہونے والی گفتگو کا وسیع، خیال افزا اور خیال افروز ماحول چاہتے ہیں۔ مگر ہم مولانا کی نعتیہ شاعری کو ان کے دیگر اہم اور وقیع کاموں کے ساتھ ملا کر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بحیثیت شاعر محدود تر حوالے سے موضوعِ گفتگو بنتے ہیں اور ایک معروف عالمِ دین اور مذہبی و مسلکی رہنما کی حیثیت سے زیادہ توجہ حاصل کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ادب کے نقاد اور قاری دونوں ہی ان کے کلام پر آزادانہ اور ناقدانہ رائے دینے میں محتاط رویوں کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔


[[ | مولانا پر لکھے گئے بیش تر اہلِ علم کے مضامین پر ایک نظر ڈالیے، آپ کو مولانا کی مذہبی خدمات، علمی حیثیت اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے تو خوب ملیں گے مگر شعری محاسن پر چند جملوں اور چند سطروں سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ ایسا صرف اور صرف اس لیے ہے کہ ہم اب تک مولانا کو خود بحیثیت شاعر موضوعِ گفتگو نہیں بننے دے رہے کہ کوئی لسانی یا ادبی اختلاف سامنے نہ آجائے اور اگر کہیں ایسا ہوا بھی ہے تو ہم نے اسے مولانا کی شخصیت یا علمی مرتبے پرحملہ تصور کرتے ہوئے اپنی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ہمارایہی رویہ مولانا کی شعری عظمت کے وسیع تر اعتراف میں حائل رہا ہے، مولانا کی زندگی میں بھی اور آج بھی۔ ردِعمل کے اس رویے کا نقصان یہ ہوا کہ ایک عظیم نعت گو شاعرہماری سنجیدہ اور مرکزی ادبی تاریخ کا حصہ نہ بن سکا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ان کا یوں تذکرہ ہی نہیں چاہتے؟ اس طرح تو ہم خود اُردو کے نعتیہ اور اسلامی ادب میں مولانا کے مقام اور کام کا شمار نہ ہونے کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔ کیا سعدیؒ ، رومیؒ اور جامیؒ کی منظومات پر کسی ادبی و لسانی تنقید نے ان کی شخصی عظمت اور علمی مرتبت کی ضیا کم کی ہے؟ ہمیں اپنے رویے پر نظرِثانی کرنی ہوگی، اس فضا کو بدلنا ہوگا۔ ہماری یہ جذباتیت کلامِ رضا کی تفہیم کے راستے بند کر رہی ہے۔ عربی ، فارسی اور اُردو کے حوالے سے تمام بڑے اور محترم نام جو علم و فضل میں درجۂ استناد رکھتے ہیں اور شاعر بھی ہوئے، ان پر ہونے والے کاموں پر ایک نظر ڈالیے، کیا ان پر لکھنے والوں کو اظہارِ رائے کی آزادی نہیں دی گئی اور کیا اس کے نتیجے میں ان پر ہونے والے کاموں کی رفتار اور اس کی قبولیت و پذیرائی کے آثار نمایاں نہیں ہیں۔


اگر ہم اپنی سوچ کو کشادہ کرکے اس فضا کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور ہم نے اہلِ علم کو سنجیدگی سے کلامِ رضا پر لکھنے کا موقع فراہم کیا تو مجھے یقین ہے کہ کلامِ رضا کی تابندگی اور اس کی عظمت سے نہ صرف ہماری ادبی تاریخ منور ہوگی، بلکہ ہمارا وہ قاری جو اس موضوع پر موجود مواد کی یکسانیت کی وجہ سے اُکتاہٹ کا اظہار کررہا ہے، وہ بھی پوری دلچسپی سے اس طرف متوجہ ہوگا۔ ان شاء اللہ‘‘(نعت رنگ،شمارہ:۱۸،۲۰۰۵ء)


اس ساری تفصیل کو ایک بار پھر آپ کے سامنے پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمیں اب مولانا کے کلام پر ازسرِنو ادبی زاویوں سے گفتگو کا ماحول سازگار بنانا چاہیے اور اس سلسلے میں ادب کےمعتبر اور ثقہ نقادوں، ادیبوں اور شاعروں کوآمادہ کرنا چاہیے کہ وہ مولانا کی شعری تخلیقات پر نقدونظر کے دَر وا کریں۔ اس کتاب میں شامل مضامین کو اسی خیال سے یک جا پیش کیا جارہا ہے کہ اس کام کی راہ کو ہموار کیا جائے اوراس رویے کوفروغ دیا جائے۔


ادب کے کسی بھی سنجیدہ قاری کے لیے عام ادبی ذوق اور پسندیدگی کے بدلتے ہوئے معیار اور ایک شاعر کی قدر و قیمت میں عہد بہ عہد اُتار چڑھائو کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا۔ ان تبدیلیوں کی اہمیت کو سمجھنے اور ایک ادبی شاہکار کو مختلف زمانوں کے زاویہ ہاے نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرنا نہ صرف ادبی ذوق کی تربیت کرنے اور ادبی روایت کا شعور حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے، بلکہ یہ اپنے عصر کے لیے ایک صحت مند اور پہلودار روایتی پس منظر کی تعمیر اور ہم عصر لکھنے والوں کی تخلیقات کے لیے متوازن فکرونظر کا معیار قائم کرنے کے سلسلے میں بھی ایک اہم اورسنجیدہ کوشش کادرجہ رکھتاہے۔


ادب و فن کے اصولوں کے تحت دیکھا جائے تو کسی بھی شاعر کا فنی مطالعہ کرنے کے دو خاص زاویے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ شاعر کو اُس کے عہد کے تقاضوں، ماحول اور تناظر میں رکھ کر اس کے کلام کو ان اقدار کی روشنی میں پرکھا جائے جو اس عہد میں رواج پاچکی تھیں اور پسندیدہ سمجھی جاتی تھیں۔ دوسرا زاویہ یہ ہو سکتا ہے کہ دورِ حاضر کے ادبی ذوق و معیار کو بنیاد بنا کر شاعر کو جدید آگہی کے مطابق ازسرنو دریافت کیا جائے۔ میرے خیال میں کلامِ رضا پر اوّل الذکر زاویے سے برابر اور بہت کچھ لکھا گیا ہے اور حالیہ دور تک لکھا جارہا ہے۔ تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید عصری ادبی تناظر میں کلامِ رضا کے مطالعے کا رُجحان پیدا کیا جائے۔اسی صورت میں یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کلام کے وہ کون سے فکری اور ادبی میلانات ہے جو اس عہد کے شعری اسالیب اور تخلیقی معیارات کے حامل ہیں اور مولانا احمد رضا خاں کے اس دور کے شعری تناظر میں زندہ رہنے اور پڑھے جانے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔


ہر کلام کو عہد بہ عہد قرأت کی تبدیلیوں کے ساتھ معانی کے آفاق کے پھیلتے ہوئے منظر نامے میں پڑھنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں بعض اساتذہ کے کلام کی نئی نئی شرحیں سامنے آتی رہی ہیں۔ اس ضمن میں غالب اور اقبال مثال کے درجے میں آتے ہیں۔ ان کی شرح و تعبیر کا جو کام ہوا، وہ نہ صرف دوسروں سے بہت زیادہ ہے، بلکہ اس حوالے سے بھی غور طلب ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف نظریات اور ذہن کے حامل لوگوں نے الگ الگ نظریاتی اور فکری اندازِ نظر سے یہ کام کیا ہے۔ اس نوع کے کام کی اصل اہمیت بھی یہی ہے کہ ہر نئے عہد کے لوگ ایک نئی نگاہ اور ایک نئے زاویے سے اسے سرانجام دیں۔ غالب اور اقبال کے سلسلے میں تو تشریح و تعبیر کا یہ کام اپنا ایک جواز عام قاری کے لیے رکھتا ہی ہے، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ میر تقی میر جو اپنے لہجے کے دھیمے پن اور زبان کی سادگی کے باعث ایک آسان شاعر سمجھا گیا تھا، اس کی شرح بھی جدید منظر نامے میں کی گئی تو ’’شعرِ شور انگیز‘‘ جیسا معرکہ آرا کام سامنے آیا جس میں تنقید کے پانچ پہلوؤں یعنی تشریح، تقابل، تجزیہ، تعیینِ قدر اور امتیاز کا خاص خیال رکھتے ہوئے میر کے کلام کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی شاعر کے جہانِ معنی کی تفہیم کا جواز محض اس کی زبان یا اس کے لسانی پیکروں کی عقدہ کشائی سے موسوم نہیں، بلکہ اس کے ادبی، جمالیاتی، تلازماتی، حسیاتی اور فکری پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے عہد سے اسے ہم آہنگ کرنا بھی اس کی تشریح و تعبیر کا ایک رخ سامنے لاتا ہے۔ دراصل اسی رُخ کی بنیاد پر کسی بھی شاعر کی نئے زمانے سے ہم آہنگی کے پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہی پہلو اُسے نئے زمانے میں قابلِ فہم بناتے اور زندہ رکھتے ہیں۔


میرے نزدیک نعتیہ ادب میں مولانا احمد رضا خاںؒ کی شاعری کا وہ مقام و مرتبہ ہے کہ ان کے کلام کا بھی ایسے ہی زاویوں سے مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ اسی خواہش کے تحت میں نے اس کتاب میں جو مضامین جمع کیے ہیں، ان میں سے چند ایک جدید ادب کے تناظر میں بھی لکھے گئے ہیں۔ اس کتاب کی تدوین میں، جیسا کہ عرض کیا، یہ حقیقت ایک ادبی ضرورت اور فکری تقاضے کے طور پر مسلسل میرے پیشِ نظر رہی ہے کہ مولانا کی ادبی حیثیت کا تعین پوری معروضیت کے ساتھ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اُن کے تخلیقی اور شعری اظہار کو ان کی مذہبی حیثیت سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاتا۔ ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ان کے ادبی کام کا جائزہ ادب کے اپنے معیارات کے تحت نہیں لیا جاتا۔ صنائع بدائع، محاکات، مدرکات، لسانیات اور جمالیات ایسے مستند مشرقی پیمانوں کے ساتھ ساتھ اب اُن کے کام کو جدید تاریخی، فکری، لسانی اور نظریاتی اصولوں کے تحت بھی دیکھا اور پرکھا جانا چاہیے تاکہ ان کی حقیقی ادبی عظمت نعتیہ ادب میں بالخصوص اور ادبی تناظر میں بالعموم متعین اور محکم ہوسکے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک وسیع اور وقیع نوعیت کا کام ہے، اس کے لیے مسلسل مساعی کی ضرورت ہے اور اس کی تکمیل میں وقت بھی صرف ہوگا۔


مولانا کی شاعری کے بارے میں ادب کے ایک ادنیٰ طالبِ علم اور نعت کے مستقل قاری کی حیثیت سے، میں جب بھی غور کرتا ہوں تو دو باتیں بالخصوص غور طلب محسوس ہوتی ہیں۔ پہلی جذبے کا وفور اور دوسری اظہار کا قرینہ۔ اپنے اوّلین تجزیے میں شاعری سب سے پہلے جذبے کے ابلاغ کی سطح پر ہی پرکھی جاتی ہے۔ شاعر کی کامیابی کے باقی سارے معیارات اس کے بعد ہی غور طلب ٹھہرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مولانا کی شاعری میں جذبے کی فراوانی اور گہرائی ہر دو صورتوں میں مولانا کا کلام توجہ طلب نظر آتا ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کو مولانا نے شعر و سخن ہی میں بیان نہیں کیا ہے، بلکہ شرفِ انسانیت کے معیارات کا تعین آپ کی ذاتِ گرامی کے شخصی اور انفرادی اوصاف کو اس انداز سے نمایاں کیا ہے کہ اس سے ہر زمانے اور ہر تہذیب کے لیے اخذ و استفادہ کی صورت واضح ہوگئی ہے۔ یوں یہ اظہار مولانا کے ذاتی عقیدے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ موجود و آئندہ زمانوں کے تہذیبی و ادبی اظہار کا جاوداں حوالہ بن جاتا ہے۔


اب جہاں تک معاملہ ہے اظہار کے قرینے کا تو مولانا کی نعت میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شخصیت بہ یک وقت محبوب اور ہادیِ برحق کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔ چناںچہ اس نعت کی تفہیم و تعبیر کے ضمن میں عوام و خواص دونوں کو اپنی اپنی ذہنی و فکری سطح کے مطابق تسکین کا سامان میسر آتا ہے۔ عامۃ الناس کے لیے محبوب کی جہت اور اہلِ فکر و دانش کے لیے رُشد و ہدایت کی جہت ہے۔ اس کے ساتھ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا کے ہاں سخن کا لطف اور شعر کا حسن ایسا ہے کہ اس رُخ پر دل فدا ہوتا ہے تو اُس رُخ پر جاں نذر ہوتی ہے۔ کلام کی تاثیر ایسی کہ روح کیف و سرور سے ہی نہیں عقل و شعور سے بھی ہم کنار ہو۔ مولانا کے کلام کی صرف یہ دو جہتیں ہی معاصر ادبی و تنقیدی ذہن کے لیے مطالعے کا تقاضا نہیں رکھتیں، بلکہ ایسے ہی کئی اور بھی لطیف نکات ہیں جو پڑھنے اور سوچنے والے ذہنوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں.

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مضامین میں تازہ اضافہ

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png
"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات