تجدیدِ آدابِ محافلِ نعت

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


مضمون نگار : سلمی خان

نعت رسول ﷲ کی جناب میں اظہار محبت ہے ﷲ کے شکر کے ساتھ ! یعنی ﷲ تبارک و تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اس دنیا ہی میں نہیں ، ﷲ نے جنت میں پہنچایا تو وہاں بھی۔ دنیا میں رہیں گے تو دنیا کا مرکز ہیں ، جنت میں رہیں گے تو جنت کا مرکز ہیں۔ اور جنت کی کوئی بھی چیز رسول ﷲ کے ہم پلہ نہیں ہے۔ اور الحمد اللہ صد الحمد اللہ کہ ہم اسی نبئ آخرالزماں و رسولِ محتشم ﷺ کی مدح خوانی کے عظیم منصب پر فائز ہیں۔ لیکن ہمارے لیے اس بات کو سمجھنا بھی از حد ضروری ہے کہ اس مسندِ عظیم کی بدولت ہم پر آدابِ ذکرِ رسولﷺ کے حوالے سے کس قدر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ہم ان ذمہ داریوں کو کس حد تک نبھا رہے ہیں اسی تناظر میں آئیے بات کرتے ہیں آدابِ نعت کے حوالے سے ایک اور اہم نقطے پر،

مسئلہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

صراطِ نعت کی جانب سے ہماری مہم تجدیدِ آدابِ محافلِ نعت میں آج ہم جس اہم اور سنجیدہ مسئلے کی جانب تمام وابستگانِ نعت کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں وہ الفاظ و بیان اور انتخابِ کلام سے متعلق ہے۔ گزشتہ موضوع کے دوران میں نے عرض کیا تھا کہ اس کائنات کی تمام تر رعنائیوں پر حمد و ثناء کا اگر کوئی سب سے زیادہ حق دار ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ذات ہے اسی لیے آواز کے تمام نشیب وفراز اور لحن کے زیرو بم کو نعت و قرآت کے تابع ہی رہنا چاہیے ٹھیک اسی طرح نعتِ رسولِ مقبول ﷺ کے لیے کلام کے انتخاب میں بھی سخن شناسی کے تمام تر قوانین کو آقاۓ دو جہاں حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کے مقام و مرتبے کے تابع رکھنا از حد ضروری ہے۔

بقول محترم عبد الکریم ثمر کے،

"نعت نہایت مشکل صنف ِ سخن ہے نعت کی نازک حدود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی آفاقیت قائم رکھنا آسان کام نہیں۔سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں ذرا سی بے احتیاطی اور ادنی سی لغزش خیال و الفاظ اور ایمان و عمل کو غارت کردینے کی وجہ بن سکتی ہے"

اسی موضوع پرڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں:

’’نعت کا موضوع ہماری زندگی کا ایک نہایت عظیم اور وسیع موضوع ہے اس کی عظمت و وسعت ایک طرف عبد سے اور دوسری طرف معبود سے ملتی ہے۔شاعر کے پاۓ فکر میں ذرا سی لغزش ہوئی اور وہ نعت کے بجاے حمد و منقبت کی سرحدوں میں داخل ہوگیا۔ اس لیے اس موضوع کو ہاتھ لگانا اتناآسان نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتاہے۔ حقیقتاً نعت کا راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھا ر سے زیادہ تیز ہے ۔‘‘

جیسا کہاما م احمد رضا بریلوی فرماتے ہیں:

’’حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے،جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں۔ گویا تلوار کی دھار پر چلنا ہے۔ اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتاہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتناچاہے بڑھ سکتا ہے، غرض ایک جانب اصلا حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت پابندی ہے۔‘‘

اس حوالے سے مزید امام احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں،


ہوں اپنے کلام سے نہایت محظوظ

بیجا سے ہے اَلمِنَّۃُ لِلّٰہ محفوظ

قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی

یعنی رہے احکامِ شریعت ملحوظ


"یعنی میں اپنے کلام ( نعت مصطفی ﷺ ) سے بہت لطف اندوز ہوتا ہوں اور لذت حاصل کرتا ہوں کیونکہ میں نے نعت رسول ﷺ لکھنے والی قلم سے کسی اور کی تعریف کبھی لکھی ہی نہیں اور اللہ کا احسان ہے کہ حضور ﷺ کی تعریف بھی وہی لکھی ہے جو آپﷺ کی شایان شان ہے، مبالغہ آرائی اور بے جا تعریف سے مکمل محفوظ رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے قرآن مجید سے نعت کہنا سیکھا ہے یعنی شرعی احکام کا پورا پورا خیال رکھا ہے"

آج سے تقریباً بیس سال پہلے ہی دیکھ لیں تونعت خوانی میں اس قدر بے باکی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا تھا

با خدا دیوانہ باش و با محمدﷺ ہوشیار کے مصداق حمد کے کلام میں اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر چونکہ نعت کا معاملہ انتہائی نازک ہے اس لیے نعت کے کلام کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا جاتا تھا۔فارسی اوراردو کے جیّد نعت گو اساتذہ میں حافظ،جامی،بیدل،غالب،حالی، اقبال،مولانا ظفر علی خان،بابا فرید،خواجہ غلام فرید،میاں محمد بخش،خواجہ مہر علی شاہ،احمد ندیم قاسمی،حفیظ تائب، حافظ مظہرالدین مظہر، مظفر وارثی،محمد علی ظہوری وغیرہ کے نام خاص طور پہ قابلِ ذکر ہیں۔ عوام کا ذوق بھی بلند تھا اور وہ مشکل اشعار کی داد دیتے۔ کئی اشعار پہ پورے مجمعے کے آنسو بہہ نکلنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔

پاکستان کے معتبر نعت خواںسیدمنظور الکونین مرحوم دھن تو ایک طرف، کلام کے انتخاب میں بھی کسی سمجھوتے کے قائل نہیں تھے۔ البتہ وہ اس بات پہ شکوہ کناں ضرور تھے کہ عوام تو عوام، نعت خوانوں کا ادبی ذوق بھی گھٹ گیا ہے۔ وہ نہایت دکھ کے ساتھ کہتے تھے کہ جو کلام ان کے دور میں پڑھا جاتا تھا، آج کے اکثر نعت خواں مطالعے کی کمی کی وجہ سے اس کا ترجمہ و مفہوم بھی نہیں جانتے۔

بہرحال اب آثار بتاتے ہیں کہ نعت خوانی کا سادہ انداز دوبارہ لوٹ رہا ہے۔ پس منظر میں مخصوص انداز کا ذکر بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ نئے نعت خواں سامنے آر ہے ہیں اور عوام بھی اس بات سے متنفر ہوتی جار ہی ہے کہ وہی لوگ جو عام دنوں میں قوالیاں اور فلمی گیت گاتے نظر آتے ہیں، ماہِ رمضان اور ربیع الاول میں نعت خوانی کا فریضہ سنبھال لیتے ہیں۔ امید ہے پاکستان میں جو سفر محمدعلی ظہوری، اعظم چشتی،قاری زبید رسول،خورشید احمد، اور سید منظورالکونین نے شروع کیا تھا وہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہے گا۔ آج کے ہمارے سینئر اہلیانِ نعت جن میں قاری وحید ظفر، فصیح الدین سہروردی، عبدالرؤف روفی، سید صبیح الدین رحمانی،سرور حسین اور دیگر کئی نعت خوانوں کے ہوتے اس امید کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

مسئلے کا حل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

جس ہستی پر خدا خود درود بھیجتا ہے انسان کی کیا مجال کہ اس کی تعریف کا احاطہ کرسکیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود نبی پاکؐ کے ذکر پاک کا بول بالا کیا ہے اس لئے نعت خواں خواتین و حضرات کو ایسے صاحبانِ علم کی لکھی ہوئی نعتوں کو پڑھنا چاہئے کہ جن کے کلام میں ادب و احترام کے تقاضے بھی پورے کئے گئے ہوں اور خدانخواستہ کسی بے ادبی و لغزش کا شائبہ تک نہ ہو۔

نعت گوئی کی روایت اگر اخلاص اور درست محبت کے ساتھ پروان چڑھ جائے ، رواج پکڑ جائے تو رسول ﷲ سے تعلق رکھنے والے احساسات و جذبات کسی بھی تحریر کسی بھی لٹریچر کے مقابلے میں جلدی منتقل ہوجائیں گے۔ نعت گو اور نعت خواں چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین دونوں پر یہ فریضۂ دعوت عاید ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کیساتھ ساتھ اپنے سامعین و مخاطبین میں رسول ﷲ کے ساتھ تعلق کے لیے درکار احساس کو پھیلائیں۔

افراط و تفریط اور فرقہ واریت سے بچیں ۔ ان مضامین سے پرہیز لازم ہے جن سے کسی خاص طبقے کے عقائد کا پرچارہوتا ہو۔ خاص طور پر متصادم خیالات و روایات سے بچنا ضروری ہے۔ صرف وہ مضامین باندھے جائیں جو کتبِ مستند سے ثابت ہیں اوربغیر کسی مخالفت کے قبولیتِ عام کا درجہ رکھتے ہیں اور جن سے رسولِ گرامیﷺ کی محبت و عقیدت دلوں میں بڑھنے کی راہیں کھلتی ہوں نہ کہ کدورتیں پیدا ہوتی ہوں۔

ہماری اس تمام سعی کا مقصد یہی ہے کہ محافلِ نعت پر جدید دور کا اثر ہونے کے باعث جو بد اثرات مرتب ہوۓ ہیں ان سے نئے آنے والے ثناءخوانوں کو بچا لیا جاۓ نیز نعتِ رسولِ مقبولﷺ جو ہم گنہگاروں کے لیے وسیلۂ نجات ہے ، اسے بھی منقسم ہونے سے بچا لیا جاۓ۔

دعا ہے کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ ہمارے گناہ بخشے، ہمیں سچی پکی ہدایت عطاء فرماۓ اور ہمیں رسول اﷲ کی مشفقانہ شفاعت کا مستحق بنائے اور کیا ہی عجب ہے کہ ہمیں رسول اﷲ سے مرافقت کی توفیق بھی جنت میں مل جائے اور یہی صراطِ نعت ہمارے لیے وسیلۂ نجات بن جاۓ۔ آمین