تبادلۂ خیال:قومی ادبی نعت کانفرنس

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

تحسین فراقی (صدرِ مشاعرہ):[ماخذ میں ترمیم کریں]

آنکھ کا روزن بند کریں اور دل کا دریچہ باز کریں

یادِ نبیؐ میں آؤ ہم بھی نعتِ نبیؐ آغاز کریں

پلکوں پر اشکوں کو سجا کر چھیڑیں راگ جدائی کا

دل کی لحظہ لحظہ دھڑکن کو اُن کا ہم راز کریں

سید ریاض حسین زیدی (ادب سرائے ساہیوال):[ماخذ میں ترمیم کریں]

آداب ، حوصلے سبھی جینے کے آگئے

جس کی نظر میں رستے مدینے کے آگئے

دامانِ تار تار سے کیا دل گرفتگی

دل کو ہنر جو چاک کو سینے سے آگئے

وجدان ، دل ، شعور ، مقدر مہک اُٹھا

خوش بو بھرے خیال پسینے میں آگئے __________

رفیع الدین ذکی قریشی (لاہور):[ماخذ میں ترمیم کریں]

آئے حبیبِ ربِ اکبر جاگ اُٹھا دنیا کا مقدر، صلی اللہ علیہ وسلّم

سمٹا سمٹا شب کا اندھیرا پھیلا پھیلا صبح کا منظر ، صلی اللہ علیہ وسلّم


یہ احترام کا دیکھا اثر مدینے میں

جھکی جھکی سی تھی ہر اک نظر مدینے میں

اُدھر اُدھر سے مہک آئی اُن کی زُلفوں کی

جِدھر جِدھر سے کیا تھا سفر مدینے میں

صدف چنگیزی (کوئٹہ):[ماخذ میں ترمیم کریں]

روتے روتے کبھی احوال سنانا دل کا

رُکتے رُکتے کسی قابو میں نہ آنا دل کا

المدد میرے آقاؐ کہ دعا دوں اُن کو

آج پھر زخم اُبھر آیا ہے پرانا دل کا

ہچکیاں لینے سے زرخیز ہوئی دل کی زمیں

اب تو چھلکا ہُوا رہتا ہے خزانہ دل کا

پروفیسر عباس مرزا: =[ماخذ میں ترمیم کریں]

آپؐ کو ہوگا عطا جوں ہی مقامِ محمود

پھر تو آئے گا مزا روزِ جزا دیکھنے کا

__________

میں ہوں پنجابی سو برکت کی خدائی چھوڑ کر

آپ نے سکھلایا تو مجھ میں خدا شامل ہُوا

__________

تبسّم مقصود کاظمی (دبئی):[ماخذ میں ترمیم کریں]

ظُہورِ فخرِ مشیّت حُضور ﷺکے شَفَتَین حسیں کرشمۂ قدرت حُضور ﷺکے شَفَتَین

زبان ذاکرِ حُسنِ تلاوتِ توحید ہیں رحلِ مُصحفِ مدحت حضور ﷺکے شَفَتَین

اگر حضورﷺ کے دندان موتیوں سے حسیں صدف کا حُسنِ رعایت حُضور ﷺکے شَفَتَین

عُمر(رضي ) نے چُوما تھا یہ کہہ کے سنگِ اسود کو بڑھا گئے تری عظمت حُضور ﷺکے شَفَتَین

جمالِ لعلِ بدخشاں میں اپنے رنگ کہاں جہانِ قاسمِ رنگت حُضور ﷺ کے شَفَتَین

نزولِ آیۂ مَا يَنطِقُ ہے شان اِن کی ہیں ترجمانِ حقیقت حُضور ﷺکے شَفَتَین

خدا کو اِس لئے ہم مانتے ہیں دیکھے بغیر سنائیں متنِ ہویّت حُضور ﷺکے شَفَتَین

لبوں سے چھُو کے دُعا مُستجاب ہو جاتی ہیں استعارۂ قدرت حُضور ﷺکے شَفَتَین

حُروف اُنﷺکے لبوں سے دوام پاتے تھے بِنائے معنی و نُدرت حُضور ﷺکے شَفَتَین

حسین ہو گئی یہ نعت اس لئے مقصودؔ

بنے   کلام   کی  زینت حُضور ﷺکے  شَفَتَین

__________

ریاض ندیم نیازی (سبی): =[ماخذ میں ترمیم کریں]

سوجاؤں دعا کر کے پھر خواب میں روضہ ہو ، اے کاش کہ ایسا ہو جاگوں تو حضوری کا پیغام بھی آیا ہو، اے کاش کہ ایسا ہو

جب یومِ حساب آئے وحشت کا ہو اک منظر ، رحمت کا کُھلا ہو در ایسے میں ہمیں حاصل آقاؐ کا سہارا ہو ، اے کاش کہ ایسا ہو

دم میرا نکل جائے لے جائیں اُٹھا کر سب اُتروں میں لحد میں جب پھر آئیں فرشتے اور بس نعتوں کا چرچہ ہو ، اے کاش کہ ایسا ہو

طیبہ کے تصور میں رو رو کر میں سوجاؤں اور خواب سا ہو جاؤں پھر آنکھ کُھلے جب میری سامنے طیبہ ہو ، اے کاش کہ ایسا ہو

اے کاش کہ ایسا ہو سرکارؐ کی جالی ہو حالت بھی نرالی ہو جس سمت بھی دیکھوں پھر طیبہ کا نظارہ ہو ، اے کاش ایسا ہو

سرور حسین نقشبندی (لاہور):[ماخذ میں ترمیم کریں]

کچھ بھی نہ رہا اَوجِ ثریا میرے آگے

ہر آن ہے وہ نقشِ کفِ پا میرے آگے

ہریالی سی رہتی ہے خیالوں میں شب و روز

رہتا ہے جو وہ گنبدِ خضرا میرے آگے

کیا رنگ دکھائے ہیں ترے ذکر نے آقاؐ

بچھتی ہی چلی جاتی ہے دنیا میرے آگے

علی اصغر عباس (اسلام آباد) :[ماخذ میں ترمیم کریں]

خدا نے آپ سے جب رُوبرو کلام کیا درود آپ پہ بھیجا گیا ، سلام کیا

پسند آئی یہ اپنی ادا اسے اتنی زمین و عرش پہ چرچا اسی کا عام کیا

تمام عالم حیرت پہ ان کا سایہ ہے قیاس ، فہم ، ذکاء عقل کو غلام کیا

کوئی بھی قوم نہ محروم التفات رہے تمام انبیاء کا اس لیے امام کیا

نماز عرش سے اُترا عظیم تحفہ ہے برائے حمد و ثناء اس کا اہتمام کیا

جو رہگزار مدینے کی خاک چھانتا ہے اسے بہاروں کی خوشبو نے خوش خرام کیا

ثنائے احمد مرسل نے وہ سُرور دیا پھر اس کے بعد نہ کوئی اور کام کیا

مدینہ دور بھی ہو کر قریب ہے دل کے گماں سرائے میں ہم نے میاں قیام کیا

درود آپؐ پہ پڑھنا تو فرض ہے اصغر وظیفہ عمر بھر یہ ہم نے صبح شام کیا

ابو الحسن خاور(لاہور):[ماخذ میں ترمیم کریں]

صابارش ِ رحمت و انوار یہاں تک نہ رہے

اے خدا، نعت فقط حرف و بیاں تک نہ رہے


روح تک اترے تراوٹ تو کوئی بات بنے

شبنم عشق ِ نبی قلب ِ تپاں تک نہ رہے


اے مرے آتش ِ فارس کے بجھانے والے

اس طرح ہجر بجھا دیں کہ دھواں تک نہ رہے


شہر طبیہ میں ٹھکانہ ہو دل ِ بے دل کا

یوں قرار آئے کہ پھر خواہش ِ جاں تک نہ رہے


صاحب ِ شق ِ قمر جس پہ عنایت کر دیں

وہ اگر آئینہ جوڑے تو نشاں تک نہ رہے


سینہ ءِسنگ میں حشرات بھی پڑھتے ہیں سلام

زمزمے نعت کے پتھر کی زباں تک نہ رہے


ایک شب سیر کو نکلے تھے شہ ِ کون و مکاں

اور پھر کون و مکاں کون و مکاں تک نہ رہے


روز محشر تھا مرا نام ثنا خوانوں میں

یعنی یہ شعر میرے ایک جہاں تک نہ رہے

منظر پھلوری[ماخذ میں ترمیم کریں]

اس والیِ لولاک کے در لگ کے کھڑا ہوں اور مدح سرا ہوں الحمد کہ اولادِمحمد کا گدا ہوں اور مدح سرا ہوں

ہر لمحہ کرم اس کا اسی کی ہی عطا ہے اعلیٰ ہے علا ہے داماں مرا معمور ہےآ سودہ ہوا ہوں اور مدح سرا ہوں

مالک وہی مولا وہی مہدی وہی ہادی اور رحم کے عادی اس واسطے مملوکِ درِ اہلِ کسا ہوں اور مدح سرا ہوں

داٸم کروں سردارِ رسولاں کی گداٸی اعلیٰ ہے کماٸی اک حاملِ اکرام ہوں سرور کا گدا ہوں اور مدح سرا ہوں

وہ حلم ہے وہ سلم ہے وہ مہرو عطا ہے اور ماہِ حرا ہے عالم کے دروں اس کی ولاٶں کی صدا ہوں اور مدح سرا ہوں

وہ سرور و سردار مددگار ہمارا عالم کا سہارا اس واسطے آلام سے صدموں سے رہا ہوں اور مدح سرا ہوں

ہر گام اسی راحم و ارحم کا احساں اور مہر کا اعلاں ساٸل ہوں اسی در کا اسی در کا سدا ہوں اور مدح سرا ہوں

حسین امجد (حسن ابدال): مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

دل ونظر میں بسا لوں , مدینہ شہر کی خاک متاعِ زیست بنا لوں مدینہ شہر کی خاک حضور آپ کے لطف و کرم سے ہںے ممکن میں ایک بار کما لوں , مدینہ شہر کی خاک کبھی تو آنکھ سے چوموں میں حجرِ اسود کو کبھی تو آنکھ میں ڈالوں , مدینہ شہر کی خاک مدینہ شہر میں اے کاش دفن ہوجاوں بدن , کفن پہ سجا لوں , مدینہ شہر کی خاک حضور آپ کا منگتا ہوں میں حسین امجد حضور کیا میں اٹھا لوں , مدینہ شہر کی خاک

نصرت (اسلام آباد):[ماخذ میں ترمیم کریں]

یا نبیؐ بس آپؐ کی ہردم عنایت چاہیے روزِ محشر آپؐ کی مجھ کو شفاعت چاہیے نفسِ امارا میرا بن جائے نفسِ مطمئن بادشاہِ دین و دنیا کی اطاعت چاہیے نقشِ پائے رہبرِ دینِ مبینِ کبریا کام یابی کے لیے بس یہ ضمانت چاہیے حاضری دربارِ اقدس میں اگر درکار ہو عاجزی لہجے میں آنکھوں میں ندامت چاہیے __________

ذوالفقار علی دانش (حسن ابدالی): . مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

لکھی ہے نعت یہ میں نے بصد ہزار ادب کہ اُن کے در پہ کیا جائے گا شمار ادب

خدائے پاک کی حمد اور نعتِ سرورِ دیں یہی تو ہے جسے کہتے ہیں شاہکار ادب

نبی کے عشق کی مے ہے کوئی مذاق نہیں مرا جنوں بھی ادب ہے ، مرا خمار ادب

"ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب " کہاں زبان سے ہو پھر بھی اختیار ادب

اسی سے حُسنِ ادب ہے ، یہی ہے رنگِ سخن کیا ہے صنفِ ثنا نے ہی مشکبار ادب

نبی کے پائے مبارک کو چوم کر جبریل بتا گئے کہ یہ ہوتا ہے بے شمار ادب

ترے ہی نام سے پاتا ہے ہر سخن توقیر ترے ہی ذکر سے بنتا ہے شاندار ادب

کہ ہے یہ حکمِ خدا بھی ، یہی قرینہ بھی نبی کے عشق میں رکھتا ہے اعتبار ادب

ادب کے سارے قرینے ہیں اک طرف ، لیکن دکھا گیا جو فرشتوں کا تاجدار ، ادب !!!

سوال تھا درِ سرکار پر ہے کیا لازم ؟ مرا جواب یہی تھا بہ اختصار ، ادب !!!

نبی کی شان کے شایاں جسے کہیں دانش ! ہوا نہ ہو گا کسی سے بھی اختیار ادب

__________

====نسیمِ سحر (راولپنڈی):====جتنے بھی دکھ ملے ہمیں اغیار کے سبب سب کا ازالہ ہوتا ہے سرکارؐ کے سبب

دنیا میں جس جگہ بھی ، جہاں بھی ہے روشنی لاریب ، ہے وہ آپؐ کے انوار کے سبب!

انگشتری میں جیسے نگینہ جٙڑا ہو ! طیبہ کی شان روضہِ سرکارؐ کے سبب

نوعِ بشر پہ سِرّ جہاں جس قدر کُھلے سرکارؐ ہی کے دیدہِ بیدار کے سبب

طیبہ میں ہے سبیل کرم کی لگی ہوئی! دٙر کے سبب کہیں، کہیں دیوار کے سبب

جو بھی ہیں اُمتِ مسلم کو عظمتیں میرے نبیؐ کی سیرت و کردار کے سبب

انصافِ بے مثال کی قائم ہوئی مثال اِک کُھردری چٹائی پہ دربار کے سبب

ای کاش ناز کر سکوں بینائی پر کبھی روشن ہو آنکھ آپؐ دیدار کے سبب

کوئی عجب نہیں کہ نسیمِ سحر مِری بخشش ہو اپنے نعتیہ اشعار کے سبب

طاہر علی سید (تونسہ شریف): ۔ مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

دم سادھے ، مؤد ب ہوں میں ، کیا نیم شبی ہے مد حت کا نزول ا ور مر ے د ل پہ بنی ہے

اُس د ر کی گد ا ئی سے ملا ہے مجھے ا تنا ا ب د ل میں ا گر ہے تو فقط بے طلبی ہے

یوسفؑ بھی بہ صد رشک پکا ر ا ٹھے ، جو دیکھے کیا خو ش نظری ، خو ش لقبی ، خو ش بد نی ہے

جو ا ن کا بد ن چھو کے گیا ، ہو گا کہیں پر ا س جھو نکے کو ا ب سا نس مری ڈھو نڈ ر ہی ہے

د نیا کو میسر ہو ا جب حسن ِ مجسم !!!!!! تب جا کے کہیں عشق کی بنیا د پڑ ی ہے

میں اُ س د رِ ا قد س پہ کھڑ ا ہو ں بہ عقید ت سا نسو ں کی کثا فت بھی جہا ں بے ا دبی ہے

تا حشر درو د و ں سے تجھے فیض ہے طاہرؔ توُ آ ل ِ شہہِ د یں ہے تر ی خو ش نسبی ہے__________

بشریٰ فرخ:[ماخذ میں ترمیم کریں]

تِترے بغیر تھی جو زندگی کہانی ہوئی جو تیری یاد میں گزری وہ جاودانی ہوئی

میں دل کی آنکھوں سے پہچانتی ہوں یہ رستہ یہی جگہ تھی جہاں زیست پُر معانی ہوئی

کہاں تھی تاب لبِ منتظر کو جنبش کی جو گفتگو ہوئی آنکھوں کی ہی زبانی ہوئی

یہ لمحہ لمحہ جو دل بہہ رہا ہے آنکھوں سے تری نگاہِ کرم کی یہی نشانی ہوئی

میں دل اور آنکھیں مدینے میں چھوڑ آئی ہوں جہاں شروع محبت کی یہ کہانی ہوئی

وہ جانتے ہیں مرا حال، ہے خبر ان کو کہاں میں ٹوٹ کے بکھری کہاں دوانی ہوئی

گزر کے ساری حدود و قیود سے آقاؐ میں عاشقی کی کوئی حدِ لا مکانی ہوئی

عطا کیا جو مجھے آپؐ کی غلامی نے وہ تاج پہن لیا شہرِ دل کی رانی ہوئی

محبتوں میں نیا کام کچھ کرو بشریٰؔ کہ بات جان سے جانے کی اب پرانی ہوئی __________

عارف قادری (واہ کینٹ):[ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ گھر کسی کو اور بسانے نہیں دِیا دِل سے نبی کی یاد کو جانے نہیں دِیا

بخشا ہے اُن کے اسمِ مبارک نے جتنا فیض یُوں فاٸدہ کسی بھی دَوا نے نہیں دِیا

پُوری ہر ایک حسرت و خواہش بھی کر گۓ ہونٹوں پہ اِلتجا کو بھی لانے نہیں دِیا

ہوتی مُجھے بھی صُحبتِ مِیرِ اُمم نصیب ”تُو نے وہ وقت مُجھ کو زمانے! نہیں دِیا“

خُوش ہیں کہ نعتِ سرورِ کونین کے سِوا کُچھ زندگی نے ہم کو کمانے نہیں دِیا

کِس سمت وہ نگاہِ عنایت نہیں اُٹھی کِس کو نبی کے دستِ عطا نے نہیں دِیا

شاید درِ رسول کو آٸی ہے چُوم کر ایسا سرُور پہلے صبا نے نہیں دِیا

کیوں آدمی کے خُون کا پیاسا ہے آدمی یہ درس تو رسولِ خُدا نے نہیں دِیا

عارف مِرے حضور کو میری خبر نہ ہو ایسا خیال ذہن میں آنے نہیں دِیا

(مُحمد عارف قادری، واہ کینٹ) __________

حکیم خان حکیم:[ماخذ میں ترمیم کریں]

بُلا کر عرشِ اعظم پر محبت سے تجھے آقاؐ خدا جب رو بہ رو ہو جائے تیری نعت ہوتی ہے دل کی دھڑکن میں آنکھوں کا اُجالا تم ہو میرے جینے میرے مرنے کا حوالہ تم ہو __________

واجد امیر:[ماخذ میں ترمیم کریں]

شہرِ نبیؐ کو عرش بھی جب ہم نشیں کہے دل ایسے آسمان کو کیوں کر زمیں کہے اُنؐ سے ، سنی سنائی کو منسوب مت کرو وہ لفظ مت کہو جو اُنھوں نے نہیں کہے کہنے کو نعت ہو تو گئی ہے مگر حضورؐ جو شعر کہنا چاہتے تھے وہ نہیں کہے __________

اشفاق احمد غوری: مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

جہاں نوشابہء لطف و کرم رکھا ہوا ہے اسی در پر سرِ تسلیم خم رکھا ہوا ہے

مرا ہر عیب دنیا کی نگاہوں سے چھپا کر شہِ ابرار نے میرا. بھرم رکھا ہوا ہے

مجھے تھکنے نہیں دیتا درِ سرکارِ بطحا اسی در کی کشش نے تازہ دم رکھا ہوا ہے

یقیناً اشک شوئی آپ فرمائیں گے میری اسی امید پر آنکھوں کو نم رکھا ہوا ہے

تصور میں دیارِ نور ہو ہر وقت میرے تعلق اس لئے دنیا سے کم رکھا ہوا ہے

کہاں ممکن ہے ایسا دوسرا آقا، کہ جس نے غلاموں کو بصد ناز و نعم رکھا ہوا ہے

عطا ہوگا کبھی اک نعت کا مقبول مصرع درِ امید پر کاغذ قلم رکھا ہوا ہے

جناں کا بوستاں اللہ نے ہر ایک ماں کے طفیلِ آمنہ زیرِ قدم رکھا ہوا ہے

مرے آنسو معطر کیوں نہ ہوں اشفاق، میں نے حسین ابنِ علی کا دل میں غم رکھا ہوا ہے

سیدہ فرح شاہ: مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

زہے نصیب جو ہوتی رہے حضورؐ کی نعت یہ خاکسار بھی لکھتی ریے حضور کی نعت

اسی لیےُ تو خدا نے پڑھا درودوسلام کہ کایُنات بھی پڑھتی رہے حضورؐ کی نعت

تصورات میں تکتی رہوں کهجور کے پیڑ تخیلات میں چلتی رهے حضور کی نعت

نبیؐ کی نعت سے سینہ مرا منور ہو بہ فیضِ عشق دمکتی رہے حضورؐ کی نعت

بروزِ حشر وسیلہ ہماری بخشش کا نہیں بعید کہ بنتی رہے حضور کی نعت

علاج روح کی پژمردگی کا ہے یہ فرح کہ اہتمام سے سنتی رہے حضور کی نعت ؐ __________

یٰسین قمر:[ماخذ میں ترمیم کریں]

سر بہ سر عجز قبلہ رُو ہوکر یادِ طیبہ سے مُشک بُو ہوکر جانے کب حکمِ نعت ہو جائے لفظ رہتے ہیں باوضو ہوکر __________

شبیر حسن، لاہور ۔ مکمل :[ماخذ میں ترمیم کریں]

جملہ اعداد سے، نے حرف ملانے سے کُھلا حجلہِ علم ترے غار میں آنے سے کھلا

رات کے نصف کو ہم سینہ۶شب جانتے ہیں شب کا سینہ ترے قرآن سنانے سے کھلا

ہم پہ کیا چھاؤں، ترے دھوپ میں چلنے سے کھلی ہم پہ کیا رنگ ترے زخم اٹھانے سے کھلا

یہ زمیں خاک کا ایک ڈھیڑ ہی لگتی تھی ہمیں خاک کا رتبہ ترے پاؤں لگانے سے کھلا

ہم تو گنتی ہی گنے جانے کے دھوکے میں رہے حسنِ ترتیب ترے بعد میں آنے سے کھلا

دھیما دھیما تو ستارے بھی بتاتے تھے مگر سنگ لو دیتا یے یہ تیرے سرہانے سے کھلا __________

حسنین مُحسن: مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

کتنا مشکل ہے فاصلہ رکھنا نعت کو حمد سے جُدا رکھنا

نعت کے شعر کہہ رہا ہُوں میں تم دیے سے دیا جلا رکھنا

مشکلیں مشکلوں میں پڑ جائیں تم فقط زیر _ لب دعا رکھنا

نقش _ پائے رسول (ص) کی دولت دل کے ہر نقش پر سجا رکھنا

دل مدینے کی سمت جائے گا اپنی سوچوں میں کربلا رکھنا ۔

__________

اعجاز حسین گوجرانوالہ: مکمل نعت[ماخذ میں ترمیم کریں]

پیام دیتی ہے بادِ صبا مدینے سے کہ نکہتیں نہیں ہوتیں جدا مدینے سے

میں مر گیا کہ مدینے نہ جا سکا ورنہ

حیات بن کے پلٹتی قضا مدینے سے

سوال چھوٹا کیا تھا مگر جہاں دونوں فقیر کاسے میں لے کر اٹھا مدینے سے

عطا کے ساتھ ملے گی رِضا کی نعمت بھی پکاریے تو خدا کو ذرا مدینے سے

نہ کیسے ہوتا ثمر بار گلشنِ مدحت خیال نو کی ہوئی جب عطا مدینے سے

عبث میں ڈھونڈتا پھرتا تھا اسکو سینے میں کہ جالیوں میں ملا دل مرا مدینے سے

وہ جنتوں میں رہا جو رہا مدینے میں وہ جنتوں سے رہا جو رہا مدینے سے

مہیب شب کی طوالت نے باندھا رخت سفر ظہورِ صبحِ دل آرا ہوا مدینے سے

رہِ حیات پہ عاجزؔ بلا کی گرمی تھی میں مضمحل تھا کہ اٹھی گھٹا مدینے سے

سید اعجاز شاہ عاجزؔ__________

سیّد ثقلین نقوی (مدینہ شریف):[ماخذ میں ترمیم کریں]

اوڑھ کر عجز و عقیدت کی رِدا کہتا ہُوں گُوندھ کر اُن کی وِلا حرفِ ثنا کہتا ہُوں

بے قراری کا جو بڑھتا ہے مِرے دِل پہ فشار بابِ جبریل پہ آقا سے میں جا کہتا ہُوں

اُن کا مولا مِرے اِس کام پہ خُوش ہوتا ہے جب بھی میں صلِ علٰی صلِ علٰی کہتا ہُوں

تُو گُزرتی ہے مدینے کے خیابانوں سے میں مبارک تجھے اے بادِ صبا کہتا ہُوں

شہرِ طیبہ میں بُلا کر وہ نوازیں جائیں اپنے احباب کے حق میں یہ دُعا کہتا ہُوں

اُن کو آقا، کبھی مولا، کبھی سرکار کہوں خُود کو اُس در کا فقیر اور گدا کہتا ہُوں

میں نہیں کہتا کبھی اُن کو خُدا کا ہم سٙر ہاں خُدا سے نہ مگر اُن کو جُدا کہتا ہُوں

مجھ کو دیکھے جو کبھی کرب و بلا کی صُورت "یا حُسین ابنِ علی شیرِ خُدا!" کہتا ہُوں

حشر میں حسنیؔ مدینے سے اُٹھایا جائے صدقہء بنتِ شہِ ہر دو سٙرا کہتا ہُوں

__________

سلمان رسول : مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

ارض و سما کی بزم میں ہو گا مرا بھی نام خاص شاہ ِ امم کا دوستو میں بھی ہوں اک غلام خاص ختم ِ رُسُل بھی ہیں وہی، وہ ہی امامِ انبیا ان کو سبھی رسولوں میں بخشا گیا مقام خاص چشمِ فلک نے دیکھا ہے ایک نظارا ایسا بھی عشقِ نبیؐ نے کر دیا ایک سیاہ فام خاص شہرِ نبی کی ساعتیں لطف میں خلد سے فزوں راتیں بھی اس کی منفرداور ہیں صبح و شام خاص شاہ و گدا کا امتیاز آکے مٹایا آپؐ نے آپؐ کی بارگاہ میں ہو گئے سارے عام ، خاص __________

صغیر احمد صغیرؔ:[ماخذ میں ترمیم کریں]

ہوئی قبول میری ہر دعا مدینے میں میں کیا بتاؤں کہ کیا کیا ملا مدینے میں

میں مانتا ہوں کہ کعبے کی شان ہے اپنی مگر یہ سچ ہے بڑا دل لگا مدینے میں

میں ایک شام مدینے میں دیکھ آیا ہوں بڑے ادب سے ہے چلتی ہوا مدینے میں

سکونِ دائمی پوچھا کہاں سے ملتا ہے تو اک فقیر نے مجھ سے کہا، مدینے میں

وہ عیش و عشرتِ دنیا، تمام لہو و لعب میں چھوڑ چھاڑ کے سب، آ گیا مدینے میں

وہ کاش خواب نہ ہوتا، صغیر سچ ہوتا خوشا وہ خواب کہ میں مر گیا مدینے میں

__________

توقیر احمد:[ماخذ میں ترمیم کریں]

سچ تو یہ ہے کہ بِنا نعت نہیں کھلتا ہے ایک زینہ جو سرِ عرشِ بریں کھلتا ہے ایک رستہ جو مدینے سے شروع ہوتا ہے دوسری سمت پہ جنت کے قریں ہوتا ہے __________

احسان علی حیدر:[ماخذ میں ترمیم کریں]

بول!ممکن تو نہیں،پهر بهی اگر آتا ہے میرے آقا سا کوئی اور نظر آتا ہے ؟

بعد میں آتی ہے نعلین _ محمد ص بہ زمیں اس سے پہلے وہاں جبریل کا پر آتا ہے

شوق دیدار میری آنکھ زرا نم رکهیو خاک نم ہو تبهی ڈالی پہ ثمر آتا ہے

تو ابهی شہر_مودت سے بہت پیچھے ہے تیری باتوں میں اگر اور مگر آتا ہے

جب عقیدت سے مدینے کی طرف دیکهتا ہوں مرکزی باب پہ سلمان نظر آتا ہے

اے خدا آج مجهے تخت سلیمانی دے مجهکو درپیش مدینے کا سفر آتا ہے

اس لئے چومنے جاتا ہوں لحد پرکهوں کی جانتا ہوں کہ مرا مولا ادهر آتا ہے

باب_جنت پہ ملائک نے کہا ملاں سے ٹهہر جا! دشمن_حیدر تو کدھر آتا ہے

دیکھیے گود میں لیلٰی کی بشکل_اکبر ع آج دنیا میں نبی باردگر آتا ہے

میں نے دیکھا ہے ابهی سبز قبا کا لاشہ سبز گنبد بهی مجهے سرخ نظر آتا ہے

نعت کہنے کے لئے خون سے سینچو الفاظ پهر مقدر سے کوئی مصرعہ تر آتا ہے

احسان علی حیدر

__________

ارسلان احمد ارسل:[ماخذ میں ترمیم کریں]

ہم بناوٹ سے نہیں کہتے کہ ہم تیرے ہیں​

ہم ترے در کی اٹھاتے ہیں قسم ، تیرے ہیں​ ​

چوم کر جن کو ملے کیف و سرور و مستی​

کیسے تاثیر رسا نقشِ قدم تیرے ہیں​ ​

غم دنیا کبھی پہلے ، نہ اب ہوگا کبھی​

شکرِ ایزاد! کہ مرے سینے میں غم تیرے ہیں​ ​

ہوں ابوبکر و عمر ، یا کہ ہوں عثمان و علی​

سارے تابندہ یہ اصحابِ حشم تیرے ہیں​ ​

خوف کیا پیاس کی شدت کا بروزِ محشر​

ہم کہ پروردہ و آسودہ ء یم تیرے ہیں​ ​

تو گدایانِ محمد ﷺ کا گدا ہے ارسل​

بس اسی واسطے دنیا میں بھرم تیرے ہیں​

ریاض احمد شیخ:[ماخذ میں ترمیم کریں]

طائرِ روح کا مسکن ہے ریاضِ احمد کیسے اغیار کے اشجار پہ ٹہرے جاکر __________ جو اِک طرف ہے محمدؐ تو اِک طرف احمدؐ ریاض سرورِ کونینؐ کے حصار میں ہے __________ ==== زاہد فخری (لاہور):====دلوں سے غم مٹاتا ہے محمد نام ایسا ہے

نگر اجڑے بساتا ہے محمد نام ایسا ہے


انہی کے نام سے پائی فقیروں نے شہنشاہی

خدا سے بھی ملاتا ہے محمد نام ایسا ہے


انہی کے ذکر سے روشن راتیں پھر لوٹ آتی ہیں

نصیبوں کو جگاتا ہے محمد نام ایسا ہے


درودوں کی مہک سے محفلیں آباد رہتی ہیں

میری نعتیں سجاتا ہے محمد نام ایسا ہے


محبت کے کنول کھلتے ہیں انکو یاد کرنے سے

بڑی خوشبوئیں لاتا ہے محمد نام ایسا ہے


مدد حاصل ہے مجھ کو ہر گھڑی شاہِ مدینہ کی

میری بگڑی بناتا ہے محمد نام ایسا ہے


میں فخری فکر دنیا وآخرت سب بھول جاتا ہوں

مجھے جب یاد آتا ہے محمد نام ایسا ہے __________

علی کسور خلیق (اسلام آباد):[ماخذ میں ترمیم کریں]

سرفرازی ہے دو عالم میں منافع میرا عشقِ سرکارِ دو عالم مِرا سرمایا ہے حُسنِ یوسف کی گواہی ہے زلیخا کی تڑپ پر محمدؐ پہ تو اللہ کا دل آیا ہے __________

فائق ترابی (اٹک):[ماخذ میں ترمیم کریں]

دل میں رہے دروازہِ دربــارِ مدینــہ اے مدح گــرِ سیّــد و ســردارِ مدینــہ!

گــرمی ہے کچھ ایسی کہ زباں ســوکھ رہی ہے اک بُــوند، مــرے اَبــرِ گُہَــر بــارِ مدینــہ!!

آشفتــہ سَــروں کےلیے ســامانِ تســلّی دیــوارِ مدینــہ تو ہے دیــوارِ مدینــہ

اس ارضِ دو عالم کو بہت ناز ہے خود پر ســر پــر جو ســجائی گئی دستارِ مدینــہ

ہــر شہــر سے خط آئے مگر میری تمنّــا! آجــائے کسی روز مجھے تــارِ مدینــہ

میں بختِ سکندر بھی ترے پاؤں میں رکھ دوں اے بندہء خوش بخت، نگوں سارِ مدینہ!

انــوارِ مدینــہ سے تجھے بھیک عــطا ہو اے دل ! اے مــرے کاســہِ انــوارِ مدینــہ

__________

ندیم شیخ (لاہور):[ماخذ میں ترمیم کریں]

لکھوں گا نعتِ رسولِ اکرم تو بات اپنی بناؤں گا میں مجھے یقیں ہے کہ ایسا کرنے سے سیدھا جنت میں جاؤں گا میں __________ بہ فیضِ عجز و عنایت سمجھ میں آیا درُود لہو کو عشق سکھایا ، بدن بنایا درُود عجب نہیں تھا کہ اشکوں میں ڈوب جاتا میں خدا کو یاد کیا تو مدد کو آیا درُود __________

باقر علی زیدی:[ماخذ میں ترمیم کریں]

ثناۓ احمد ِ مرسل ص کی سلسبیل پہ ہوں ابھی تو سلطنت ِ نعت کی فصیل پہ ہوں

اُنہی سے اذن ملے گا تو شاعری ہوگی رکا ہوا میں اسی نقطہء دلیل پہ ہوں

بس اُن ص کو زیب ہے محبوب ِ کبریا ص ہونا تلاش ِ وصف ِ پیمبر ص کے سنگ ِ میل پہ ہوں

جمال ِ شہر ِ نبی ص دیکھتا ہوں چاروں طرف ریاض ِ نور میں ہوں آگہی کے نیل پہ ہوں

نہ مجھ کو موت کا ڈر ہے نہ پل صراط کا خوف میں پے سہارا نہیں آپ ص سے کفیل پہ ہوں

__________

نعیم رضا بھٹی (منڈی بہاؤالدین): ۔ مکمل[ماخذ میں ترمیم کریں]

نظام کن میں ارتقاء ضروری ہے ترا کرم تری رضا ضروری ہے

میں اپنی خاک آنسوؤں گوندھ لوں کہ اک سبیل کیمیا ضروری ہے

فصاحتوں کی حبس میں پڑا ہوں میں مجھے حجاز کی ہوا ضروری ہے

جو بامراد اشک ہیں سمیٹ لوں سفر میں ہوں سو آسرا ضروری ہے

وہ سامنے ہوں اور نظر ہٹے نہیں فقیر کو بس اک دعا ضروری ہے

__________

الیاس بابر اعوان (اسلام آباد):[ماخذ میں ترمیم کریں]

صرف اُس جادہ ء رحمت کے مَیاں دِکھتا ہے ورنہ ہر دیکھنے والے کو کہاں دِکھتا ہے

نعت پڑھتے ہوئے اک حجرے میں آجاتا ہے جس کی کھڑکی سے پسِ کون و مکاں دِکھتا ہے

گنبدِ سبز کو دیکھوں تو نظر آتی ہے لَو مُڑ کے دیکھوں تو مجھے صرف دھواں دِکھتا ہے

بعض نُکتے کسی نسبت سے سمجھ آتے ہیں کچھ چراغوں میں مجھے آبِ رواں دِکھتا ہے

نُدرتِ خانہ ء ہستی ! مجھے ہر رازِ نہاں نسبتِ اسمِ محمد ﷺ سے عیاں دِکھتا ہے __________

شوزیب کاشر (آزاد کشمیر):[ماخذ میں ترمیم کریں]

تجھ کو شایان ہے دارین کی شاہی مرے ماہی میں تری فوج کا اک ادنی سپاہی مرے ماہی


صرف اتنا ہی نہیں فخر کہ مشتاق ہیں فرشی کریں عرشی بھی تری چشم براہی مرے ماہی


تو کہ تہذیب و تمدن کا ہے میعار ابدآثار جان عالم ہے تری ژرف نگاہی مرے ماہی


نہیں انسان کی اوقات کہ رتبہ ترا جانے ذات تیری ہے تو پھر جانے خدا ہی مرے ماہی


تیری خوشبو کے تعاقب میں زمانہ پھرے غلطاں نہیں پہنچا کبھی تجھ تک ترا راہی مرے ماہی


میں کہ اک نقشِ غلط ، کور نگاہے ، پرِ کاہے تو کہ تصویرِ ابد ، ظلِ الہی مرے ماہی


عکسِ آئینہِ کُن ! ایک گزارش ہے مری سُن دور ہو میرے مقّدر کی سیاہی مرے ماہی


جادۂ حق کی طرف راہنمائی کا وسیلہ کج کلاہوں کو تری راست کلاہی مرے ماہی


زندگی در پئے آزار ہے اور تُو ہی مسیحا تجھ کو منظور ہو کیوں میری تباہی مرے ماہی


موج میں تیز بھنور اور شکستہ مری کشتی مجھ کو درکار تری پشت پناہی مرے ماہی

میں کہ اک کشتِ بیاباں سِر صحرا ، تُو ہے دریا ختم تجھ سے مری بے آب و گیاہی مرے ماہی


تیرے ہوتے مرے سرور مجھے کیا ڈر سرِ محشر ہو مرے حق میں اگر تیری گواہی مرے ماہی

میں تو احسان فراموش ہوں پر تیری عنایت مجھ جفا کیش سے بھی تو نے نباہی مرے ماہی

مل گئی مل کے رہی جود و کرم سے ترے در سے تو نے جو چیز جہاں جیسے بھی چاہی مرے ماہی

میرے ساقی تجھے رب نے دیے کوثر کے خزانے مئے انوار سے بھر دل کی صراحی مرے ماہی

رومی و جامی ہوئے وہ کہ جنھیں تو نے سراہا میرا فن بھی ہے تری داد کا خواہی مرے ماہی

تیرے صدقے ترا شاعر ترے واری ترا کاشر میرے مولا مرے آقا مرے ماہی مرے ماہی


شوزیب کاشر__________

سائل نظامی (گجر خان):[ماخذ میں ترمیم کریں]

یک لخت چمک اُٹھیں مِرے سوگ زدہ نین ، اے سیّدِ کونینؐ آنکھوں سے لگا پاؤں اگر آپؐ کے نعلین ، اے سیّدِ کونینؐ اے پیکرِ رحمت مِرے بچوں کو بھی رکھنا منگتوں میں ہمیشہ جیسے درِ رحمت پہ پڑے ہیں مِرے اب غین ، اے سیّدِ کونینؐ __________

شاہد الرحمان:[ماخذ میں ترمیم کریں]

زہے نصیب جو پا لوں حضورؐ کے نعلین تو سر کا تاج بنا لوں حضورؐ کے نعلین

مجھے بھی راہِ مدینہ دکھائی دینے لگے جو چشمِ نم سے لگا لوں حضورؐ کے نعلین

یہ مہر و ماہ زیارت کو میرے گھر آئیں جو اپنے گھر میں سجا لوں حضورؐ کے نعلین

ردائے روح میں رکھوں لپیٹ کر ان کو میں کیوں نہ دل میں چھپا لوں حضورؐ کے نعلین

مشامِ جاں کو معطر کرے مہک ان کی نفس نفس میں بسا لوں حضورؐ کے نعلین

میں اپنی جان سے بڑھ کر رکھوں خیال ان کا تمام عمر سنبھالوں حضورؐ کے نعلین

صلّہ جو مدحتِ سرکارؐ کا ملے شاہدؔ تو صرف ایک عطا لوں ، حضورؐ کے نعلین __________

خالد محبوب (بہاولپور):[ماخذ میں ترمیم کریں]

لفظ خود نعت کے امکان میں آ جاتے ہیں

جب بھی سرکار مرے دھیان میں آ جاتے ہیں


ذکر ان کا ہو تو ہر سانس مہک جاتی ہے

پھول احساس کے گلدان میں آ جاتے ہیں


ہم تعارف کے بھی محتاج نہیں دنیا میں

انکی نسبت ہی سے پہچان میں آ جاتے ہیں


آنکھ جب چومتی ہے لفظ تو میرے آقا

مسکراتے ہوئے قرآن میں آ جاتے ہیں


خواب میں بھی جو مدینے سے پلٹتا ہوں میں

چند آنسو مرے سامان میں آ جاتے ہیں


بات ناموس رسالت کی اگر آ جائے

ہم کفن باندھ کے میدان میں آ جاتے ہیں


آپ کی پیروی کرنے سے کھلا ہے مجھ پر

ضابطے جینے کے انسان میں آ جاتے ہیں


__________

عبدالعزیز دباغ:[ماخذ میں ترمیم کریں]

میری اوقات کیا پوچھتے ہو میں ہوں خاشاکِ دُنیا کا سایا مجھ کو بوسے دِیے قدسیوں نے میں مدینے گیا اور آیا میں نے صلِّ علیٰ کہہ کے جس دم طوفِ کعبہ سے رب کو پکارا میں کھڑا تھا مقامِ دُعا پر اُس نے چہرے سے پردہ ہٹایا اِک تجلّی سے روشن تھا سینہ میں نے کعبے میں دیکھا مدینہ نور کا یہ عجب سلسلہ ہے مجھ کو روضے نے کعبہ دِکھایا ٭٭٭