تبادلۂ خیال:سجاد بخاری

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

حمد[ماخذ میں ترمیم کریں]

مرے مولا کہتا رہوں سدا تری شان جل جلالہ مجھے کر عطا یہی سلسلہ تری شان جل جلالہ

کبھی لڑکھڑایا نہیں ہوں میں کبھی بے قرار ہوا نہیں ملا ہر گھڑی ترا آسرا تری شان جل جلالہ

تری قدرتوں کا شمار کیا تری عظمتوں کا حساب کیا تو خدا ہے میرے حبیب کا تری شان جل جلالہ

یہ کرم ہے تیرا مرے خدا ، جو میں کہہ رہا ہوں یہ برملا میں ترا ہوں اور ہے تو مرا ، تری شان جل جلا لہ

مرے سینے میں تیری روشنی مرے چار سو تیرا نور ہے مجھے ظلمتوں سے بچا لیا تری شان جل جلا لہ

مری جستجو کو کمال دے مری آرزو کو نہال کر رہوں بن کے تیرا ہی میں سدا شان جل جلا لہ

تری یاد میں ہی حیات ہو ترے ذکر پر ہی ممات ہو یہ قبول کر میری التجا تری شان جل جلالہ

مرے آنسوؑوں کا صدا ملے مری سسکیوں کا بھرم رہے رہے لب پہ ہر دم تری ثنا تری شان جل جلالہ

تو ہی عرش پر تو ہی فرش پر تو ہی شاہ رگ سے قریب تر ترے جلوے پھیلے ہیں جا بجا تری شان جل جلالہ

مرے کاسے کو لبریز کر میں بھی پیاسا ہوں تری دید کا میں ہوں بندہ تیرا ہی اے خدا تری شان جل جلالہ

مری زندگی کا سرور تو مری بندگی کا ہے نور تو مرے ہر عمل کے اے آشنا تری شان جل جلالہ

پڑی مشکلیں میرے سر پہ جب ، مجھے گھیرا درد و الم نے جب ترے پیار نے دیا حوصلہ تری شان جل جلالہ


مشہور نعتیہ کلام[ماخذ میں ترمیم کریں]

بعد از ثنائے ربّ ِ دوعالم نبی کی نعت �زخمِ جگر پہ رکھتی ہے مرہم نبی کی نعت

��سرکار کے کمال و شرف پر میں کیا کہوں� پڑھتے رہے بہشت میں آدم نبی کی نعت��

عشّاقِ مصطفی ہیں معزّز جہان میں� کرتی ہے نعت خواں کو مکرّم نبی کی نعت

��اُجلا ہوا ہے حلقہء قلب و نظر مرا �لب پر ہے میرے نورِ مجسّم نبی کی نعت��

بڑھتا ہے ذوق وصل کا لیکن اے دوستو �کرتی ہے آگ ہجر کی مدّھم نبی کی نعت

��دنیا میں دوں مثال تو کہنا پڑے گا یوں �ذکرِ خدا ہے پھول تو شبنم نبی کی نعت

��اللہ اپنے فضل و کرم سے نواز دے �شہرِ نبی میں جا کے پڑھیں ہم نبی کی نعت�

========[ماخذ میں ترمیم کریں]

مدینہ پاک میں تم آ کے دیکھتے تو سہی نظارے گنبدِ خضرا کے دیکھتے تو سہی

درِ حضور سے ملتی ہیں نعمتیں ساری تم اپنی جهولیاں پهیلا کے دیکهتے تو سہی

خدا کے فضل سے امیدیں پوری ہو جاتیں ترانے آپ کے تم گا کے دیکھتے تو سہی

ابو لہب سے ہزاروں غلام ہو جاتے مقام ، سیّدِ بطحا کے دیکھتے تو سہی

پکار اٹھتے یہ پھولوں سے لاکھ بہتر ہیں وہ خار آپ کے صحرا کے دیکھتے تو سہی

تم اپنے آپ سے بہتر نہ کہتے تو کہتے سگان ، شہرِ مدینہ کے دیکھتے تو سہی

=[ماخذ میں ترمیم کریں]

اپنے اجداد کی میراث لیے بیٹهے ہیں محفل نعت میں دو زانو ہوئے بیٹهے ہیں

الفت شاہ میں دنیا سے کٹے بیٹهے ہیں جنتی لوگ ہیں جنت سے جڑے بیٹهے ہیں

زمزم و کوثر و تسنیم سے کیا کام انہیں جام جو تیری نگاہوں سے پیے بیٹهے ہیں

خاک طیبہ پہ بهلا کیوں نہ ہو جنت قربان یہ وہ دهرتی ہے جہاں آپ اٹهے بیٹهے ہیں

مدتوں پہلے طلب کی تهی مثال قرآن آج تک اہل شرارت کے گلے بیٹهے ہیں

ویسے تو کوئی نہ صورت تهی نمو پانے کی سایہ ء گنبد خضرا سے ہرے بیٹهے ہیں

==[ماخذ میں ترمیم کریں]

اَج بارہویں کی شب ہے سرکار آ رہے ہیں �لاچاروں بے کسوں کے غمخوار آ رہے ہیں��

بزمِ جہاں کی رونق عرشِ خدا کی زینت� دل کا سکون لے کر دلدار آ رہے ہیں��

قربِ خدا کی خاطر پل پل تڑپنے والو�

دامانِ دل بچھاؤ منٹھار آ رہے ہیں��

روشن ہوئے ستارے جگمگ ہیں کہکشائیں� اہلِ فلک پکارے انوار آ رہے ہیں��

آدم نے انبیا سے اقصٰی میں یوں کہا تھا �سارے صفیں بنا لو سردار آ رہے ہیں��

سرکار کی دعا سے غمخوار کی رضا سے �فضل و کرم کے ہم پر انبار آ رہے ہیں

��سجاؔد پا رہے ہیں تاج ِ سکندرانہ �در پر نبی کے جتنے لاچار آ رہے ہیں�

=[ماخذ میں ترمیم کریں]

درِ رسول سے کوئی مجھے جدا نہ کرے �غمِ حیات مجھے گھیر لے خدا نہ کرے

��قسم خدا کی خدا بھی عطا نہیں کرتا �اگر رسول خدا کا ہی کچھ عطا نہ کرے��

دعا ہے جیتے جی دیکھوں حضور کی بستی� پھر اس کے بعد مری زندگی وفا نہ کرے

��وہ کان کیسے ہیں سنتے نہیں جو ذکرِ نبی� وہ آنکھ کیا ہے جو دیدارِ مصطفٰی نہ کرے��

جسے ہے عشق رسولِ کریم سے سجاد �بھلا وہ کیسے کبھی طاعتِ خدا نہ کرے

====[ماخذ میں ترمیم کریں]

شمس الدحٰی حضور ہیں بدرالدجٰی حضور �دونوں جہاں کا نور ہیں نورِ خدا حضور��

خالق خدا کی ذات ہے مالک خدا کی ذات� رحمت ہیں دو جہان کی خیر الورٰی حضور��

غارِ حرا سے لے کے دخولِ بہشت تک� اُمّت کے پاسبان ، حبیبِ خدا حضور

��وجد آفریں ہے شہر مدینہ کی گفتگو �ذکر آپ کا ہے میرے لیے جاں فِزا حضور

��مکہ میں ہے جلال ، مدینہ میں ہے جمال� چاروں طرف ہیں آپ کے ناز و ادا حضور

��نادار ہوں،غریب ہوں،بے کس ہوں ،بے نوا� پہنچوں میں کیسے آپ کے دربار یا حضور

��سجؔاد کی نہ کوئی دعا ہونی تھی قبول� لطف و کرم نہ ہوتا اگر آپ کا حضور���

=[ماخذ میں ترمیم کریں]

فسردگی کی طرح ہے نہ بے کلی کی طرح حضور ! آپکا غم ہے ہمیں خوشی کی طرح

مرے کریم کا احسان ہے کہ یادِ نبیﷺ فضائے قلب میں رہتی ہے زندگی کی طرح

مدینہ پاک میں آتی ہے صبح کہتے ہوئے شبِ مدینہ ہے دنیا میں روشنی کی طرح

پِیام دیتا ہے عالم کو گنبدِ خضرا فضائے صبحِ مدینہ ہے تازگی کی طرح

نظیر دشتِ عَرَب کی زمین بھر پہ نہیں تو ہو گا شہر کہاں شہرِ آشتی کی طرح

دیارِ شاہِ اُمَم کا یہ وَصف اَنمِٹ ہے کبھی کسی کو نہیں لگتا اجنبی کی طرح

رہِ حضور میں بیٹھا ہوں اس لیے سجّاد بہشت میں بھی ہیں گلیاں اسی گلی کی طرح

=[ماخذ میں ترمیم کریں]

میں تمنائے مدینہ میں جہاں سے جاؤں اہلِ ایقاں سے ملوں وہم و گماں سے جاؤں

آپ کا ذکر مرے درد کی کرتا ہے دوا پر میں چاہوں گا اسی ذکر میں جاں سے جاؤں

درِ سرکار پہ مانگی ہے خدا سے یہ دعا میری تقدیر میں لکھ دے ، نہ یہاں سے جاؤں

ذہن مرکوز رہے ان کی غلامی پہ سدا فکرِ فردا نہ رہے سود و زیاں سے جاؤں

اذن مل جائے درِ شاہ پہ جانے کا اگر رِقَّتِ قلب ملے اشکِ رواں سے جاؤں

مرشدی ! سیِّد و سرکارِ دوعالم کے حضور بے خبر ہوں میں بتا دیجیے کہاں سے جاؤں

مجھ کو منظور نہیں آنکھ جو دیکھے نہ تجھے نعت کہہ پائے نہ جو ایسی زباں سے جاؤں

=[ماخذ میں ترمیم کریں]

زمیں پہ راحت و رحمت مرے رسول سے ہے� خدا کا فضل و عنایت مرے رسول سے ہے

��تمام خلق سے افضل ہے نوعِ انسانی� یہ شان و شوکت و عزت مرے رسول سے ہے

��گواہی آج بھی دیتی ہے مسجدِ اقصٰی �ہر اک نبی کی نبوت مرے رسول سے ہے

��جبیں کو سجدہ ملا اور نگاہ کو کعبہ� دلوں میں رب کی محبت مرے رسول سے ہے��

میں دیکھتا ہوں ، میں سنتا ہوں ، سوچ سکتا ہوں� یہ سمع و بصر و بصیرت مرے رسول سے ہے

��فضائے گلشن و گلزار و رنگ و بوئے گلاب� بہشت کی بھی طراوت مرے رسول سے ہے

��خدا کو یاد کروں اور گناہ بخشا لوں� مجھے دعا کی سہولت مرے رسول سے ہے�

=[ماخذ میں ترمیم کریں]

خدا کے بعد ہراک مدح مصطفی کی ہے جبھی تو ذکرِ محمد پہ انتہا کی ہے

ہر ایک دوست مرا آئے شہرِ آقا میں خدائے گنبدِ خضرا سے یہ دعا کی ہے

=[ماخذ میں ترمیم کریں]