تبادلۂ خیال:اڑیسہ میں نعتیہ شاعری حال و ماضی کے تناظر میں -عبد المتین جامیؔ

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Dabastan e naat.jpg

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

(عبد المتین جامیؔ (کٹک۔اُڑیسہ)

اڑیسہ میں نعتیہ شاعری حال و ماضی کے تناظر میں[ماخذ میں ترمیم کریں]

اڑیسہ میں اردو زبان کی تاریخ گزشتہ تین سو سالوں کو محیط ہے۔ شیخ امین اللہ چرخیؔ(متوفی ۱۸۸۷ء) کو اڑیسہ کا اولین صاحبِ دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔’’دیوانِ چرخی ‘‘ پہلی بار ۱۹۰۷ء میں شایع ہوا تھاجس کا دوسرا ایڈیشن ان کے پرپوتے ابوالکمال ظفراحمد(ایڈوکیٹ) نے۲۰۱۷ء میں شایع کیا ہے۔اس دیوان کی شروعات حمدیہ اور نعتیہ کلام سے ہوتی ہے۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اڑیسہ میں تقدیسی شاعری کا آغاز اٹھارویں صدی سے ہوچکا تھا۔ چرخیؔ کے متبنیٰ فرزند عبد المجید صاحب بھی شاعر تھے۔انہی عبد المجید صاحب کے ایک شعر سے چرخیؔ کے سالِ وفات کا پتہ چلتا ہے۔ وہ غالب کے ہم عصر تھے۔

تاریخ کے اوراق سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ اڑیسہ میں تقدیسی شاعری عموماً حمد ونعت ہی تک محدود ہے۔ زمانۂ قدیم میں تقریباً سبھی شعراء نے حمد و نعت جیسی صنفوں پر طبع آزمائی کی تھی اور یہ سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔اردو زبان کی طرح یہاں کی حمدیہ و نعتیہ شاعری جیسی پاکیزہ صنف ِ سخن کو ارتقائی منزلیں طے کرنے کے لئے کئی صدیاں گزر گئی ہیں۔ڈاکٹر حفیظ اللہ نیولپوری اپنی تحقیقی تصنیف’’ اڑیسہ میں اردو ‘‘میں رقمطراز ہیں۔

’’ عبد المجید بھوئیاں کے دیوان مجید مطبوعہ۱۸۵۷ء منشی نول کشور پریس میں نعتیہ کلام دیکھنے کو ملتا ہے۔انھوں نے خاتم پہراج پوری کے کلام کی تضمین کرتے ہوئے نعتیہ کلام کہا تھا‘‘۔ ان بزرگوں کے علاوہ عبد الرحیم احسن سنگڑوی‘مولوی سلطان راجی‘ظہور الحق ظہوری‘شمس الحق شمس‘معلم سمبلپوری‘محمد محسن محسن ؔ‘عرفان علی فدائی‘سید عبد الستار عبدؔ‘جان محمد حازم‘ سید نور علی انورؔ‘عبد العزیز عاشق‘رفیع الدین خان رفیع ‘مولا بخش شاہ مولا‘رسول بخش کاشف‘ وغیر ہم نے بھی نعتیہ کلام کہا ہے۔ان تمام شعرا ء نے آزادیٔ وطن سے قبل نعتیہ کلام کہا تھا۔ہمارے لئے یہ امر اطمینان بخش ہے کہ مندرجہ بالا شعراء نے جس چراغ کو روشن کیا تھا بعد میں آنے والی نسلوں نے اس سے کافی استفادہ کیا۔بعض شعراء نے فن نعت گوئی میں منفرد مقام بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

گذشتہ ستر سالوں کے درمیان حمد و نعت اور منقبت کے علاوہ دیگر اقسام کی مذہبی شاعری کرنے والے شعراء کی بھی ایک طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔حتیٰ کہ یہ بھی دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ہر شاعر نے اپنے طور پر کم از کم ایک نعت ضرور کہی ہے۔ لیکن بطور خاص نعت گوئی کی جانب پیش قدمی کرنے والے شعراء کی تعداد انگلیوں میں گنی جاسکتی ہے۔آج تک جن حضرات نے خالص نعت گو شاعر کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی ان میں اجمل نقشبندی‘اولاد رسول قدسی‘اثر نظامی‘محبوب محشر‘ سعید رحمانی ‘سید نفیس دسنوی اور اسحاق انور وغیرہ ہم کے نعتوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں سعید اختر‘ راشد شبنم‘ عبد المجید فیضی‘شہید اکرامی‘مولانا سرج الساجدین قاسمی‘ایوب صابر قاسمی‘امجد نجمی‘مبارک حسین سلامت‘حافظ رفیق درد‘خادم رسول عینی‘وغیر ہم نے کثیر تعداد میں نعتیں کہی ہیں۔

آزادی کے بعد نعتوں کے چند مجموعے بھی سامنے آچکے ہیں۔ ان مجموعوں میں صہبائے قدسی‘ انوارِ قدسی‘ کو کافی مقبولیت ملی۔ ان کے علاوہ اولادِ رسول قدسی کی تقدیسی شاعری کا ایک اور مجموعہ’’ رفتہ رفتہ‘‘ بھی مقبو لیت حاصل کر چکا ہے۔ اولادِ رسول قدسی کی نعتوں کے مجموعوںپر کرامت علی کرامت ‘حفیظ اللہ نیولپوری‘یوسف جمال‘سید شاہِ آلِ رسو ل ‘حسین میاں‘مولانا حسین اختر مصباحی صاحبان نے اپنے اپنے تاثرات بڑے ہی پر کشش انداز میں پیش کئے جو موصوف کا ایک اور مجموعۂ کلام’’ گلِ لالہ‘‘ میں شامل ہیں۔اجمل نقش بندی کی نعتوں کے مجموعے لفظ لفظ نور‘صہبائے مدینہ ‘حرف حرف روشنی‘ حضوری کے پہلے اور حضوری کے بعد وغیرہ شائع ہو کر قارئین سے داد وتحسین حاصل کرچکے ہیں۔

ان کتابوں پر کرامت علی کرامت ‘شہپر رسول اور عتیق احمد صدیقی جیسے مقتدر ادباء نے اپنی قیمتی آراء پیش کی ہیں۔جنھیں ان کتابوں میں شامل اشاعت کیا گیا ہے۔اولاد رسول قدسی اور اجمل نقش بندی کے علاوہ سید نفیس دسنوی کی نعتوں کا مجموعہ ’’نورِ حرا‘‘شائع ہو کر کافی دادو تحسین حاصل کر چکا ہے۔کرامت علی کرامت جیسے مقتدر نقاد نے اس کتاب کا پیش لفظ لکھا ہے۔سعید رحمانی کے دو نعتیہ مجموعے’’رحمتوں کا سائباں‘‘ اور’’دربارِ مصطفیٰ میں‘‘ شایع ہوکر خراج حاصل کرچکے ہیں۔ اثر نظامی کی نعتوں کے مجموعہ’’ نور کی لکیر‘‘ بھی کافی مقبول ہوا ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

اڑیسہ میں مذہبی شاعری کے تخلیق کاروںکے اس قافلے میں محبوب محشر کا نام بڑی عزت سے لیا جاتا ہے۔جنھوں نے نہ صرف یہ کہ نعتیہ و حمدیہ شاعری ہی کی بلکہ دیگر موضوعات پر بھی نظمیں لکھیں۔موصوف کی نعتیہ شاعری میں ایک الگ قسم کے اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔ کرامت علی کرامتؔ نے ’’موجِ التہاب ‘‘پر لکھے اپنے پیش لفظ میںعرض کیا ہے کہ’’ گذشتہ چند سالوں کے اندر کئی نعتیہ مجموعے منظر عام پر آئے ہیں۔ان میں نعتوں اور منقبتوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ حمد کی تعداد کم ہے۔ زیادہ تر نعتیں غزل کے فارم میں ہوتی ہیں جب کہ درمیان میں منقبت کے اشعار آجاتے ہیں۔لیکن محشر کے یہاں ایسی بات نہیں ہے۔انھوں نے نعت کے علاوہ قابلِ لحاظ حد تک حمد بھی کہی ہے۔ انھوں نے نعت کے لئے مختلف پیرائے اظہار کو اپنا یا ہے۔مثلاً۔ ؎


دیکھ کر کہتا تھا میں ہر طائرِ پرواز کو

کاش پہنچا تا مدینے تک میری آواز کو

تقدیسی شاعری پر مبنی محبوب محشر کے جو مجموعے اب تک منظرِ عام پر آئے ہیں ان کے نام ہیں: تریاق‘ الشہاب‘دیوانِ محشر اور آخری سوغات۔ان کی شاعری کا خاص موضوع ہے قوم ِمسلم کی اصلاح۔ ان کی نعتیں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔ بہر کیف کرامت علی کرامت کو محبوب محشر کی شاعری میں اقبال کے رنگ و آہنگ نیز اسلوب کا سراغ ملتا ہے۔اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر محفوظ الحق اور عبد المتین جامی نے بھی ان کی شاعری میں پیش کردہ اسلوبیات میں اقبال کے رنگ و آہنگ کی نشاندہی کی ہے۔

اجمل نقش بندی کے فنِ نعت گوئی پر روشنی ڈالتے ہوئے شہپر رسول رقم کرتے ہیں’’وہ جس خلوص سے شعر کہتے ہیں اور بحر جذبات کو کوزے میں بھر دیتے ہیں اس کے مطالعے سے رسول مقبول ﷺ سے ان کی گہری عقیدت اور بے نیاز محبت اور فن نعت گوئی سے ان کی واقفیت کا ثبوت ملتا ہے‘‘۔

سید کفیل احمد قاسمی نے لکھا ہے ’’اجمل کی ذات سے نعت کی دنیا میں ایک نئی دنیا تعمیر ہوئی ہے اور وہ نعتیہ شاعری کے فروغ کے لئے اس دور میں ہمارے لئے عطیۂ ربّانی ہیںجنھوں نے اپنی صلاحیتوں سے اس فن کو نیا رنگ و آہنگ بخشا ہے‘‘۔

راقم الحروف کا جہاں تک علم ہے اجملؔ نے ہائیکوز اور نظموں کے علاوہ مزید کئی پیرائے میں نعت گوئی کی ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ فوری طور پران کے چار مجموعوں میں شامل غزل کی ہیئت میں کہی گئی نعتوں کے علاوہ دیگر ہیئتوں میں ان کی نعتیں دستیاب نہیں ہو سکیں۔نمونہ کے طور پر ان کے دو نعتیہ اشعار پیش کر رہا ہوں۔


مثل پروانہ اس پر فدا ہیں سبھی ،اور شمع محبت مدینے میں ہے

دور طیبہ سے اجملؔ رہا ہندمیں،ایسا جینا بھلا کوئی جینے میں ہے

مندرجہ بالا نعتیہ اشعار میں شاعر نے اپنے محسوسات کو بڑے سلیقے سے سمونے کی کوشش کی ہے۔وہ شاعر ہند ہیں لیکن اپنے مادر ِ وطن سے سے پوری وابستگی کے با وجود اپنے اندر ہر وقت سرزمینِ طیبہ کی جدائی کاکرب محسوس کرتے ہیں۔یہ آواز ایک سچے عاشقِ رسول کی ہی ہو سکتی ہے۔

"نعت کائنات"پر غیر مسلم شعراء کی شاعری کے لیے بھی صفحات تشکیل دیے گئے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : غیر مسلم شعراء کی نعت گوئی

نجم الشعراء حضرت امجد نجمی نے یہاں کے ادبی حلقے میں معتبر ترین کہلانے والے بیشتر شعراء کی ذہنی پرداخت میں نمایاں رول ادا کیا ہے۔ اور اپنی براہ راست تربیت و اصلاحات سے ان شعرا کو رمزِ فن سے آشنا کیا ہے۔ نعتیہ شاعری کے فروغ میں ان کی کاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔’’شرحِ لولاک‘‘ کے عنوان سے ان کی ایک طویل نعتیہ نظم رسولِ اقدس ﷺ کے تئیں عقیدت و محبت کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ ان کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ ؎


کرم کی مجھ پہ نظر یا محمد ﷺ عربی

مرے گناہ وہ ہیں جن کی کوئی حد نہ حساب

ترا غلام ہوں کیا میں کروں ثنا تیری

تو سیل چشمۂ رحمت مرا وجود سراب

امجد نجمی صاحب نے نعتیہ شاعری کے علاوہ منقبت اور مرثیے وغیرہ بھی بڑی تعداد میں کہے ہیں۔

کرامت علی کرامت ؔنے آزاد نظم کے پیرائے میں نعتیہ کلام لکھ کر ایک نئی شروعات کی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے غیر منقوطہ نعت بھی لکھی ہے۔یوں تو نعت گوئی تلوار کی دھار پر چلنے کے مصداق ہے مگر اس کے برعکس غیر منقوطہ الفاظ میں شعر کہہ کر نعتیہ شاعری کو معنویت عطا کر نا مشکل ترین فن ہے۔ کرامت علی کرامت ؔکی غیر منقوطہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ ؎


مسموم گو ہے دہر کے ماحول کی ہوا

ہے مائلِ کرم وہی اللہ کا رسول

اسلام کا ہے مہر وکرم اور عمل اصول

راس آئی ہم کو احمدِ مرسل کے دل کی دھول

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

کرامت علی کرامتؔ کی نظم کا ایک حصہ ’’خدا کا قول ہے یہ‘‘دراصل قرآن کریم کی چند آیات کا ترجمہ ہے جسے موصوف نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ انجام دیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


خدا کا قول ہے یہ

کہ اس کی ذات اقدس نور ہے ایسا

جو چھن چھن کسی قندیل پاکیزہ سے

کرتا ہے احاطہ سارے عالم کا

اس فانوس میں مثلِ کوکب شمع روشن ہے

جو خود بخود جلتا ہی رہتا ہے

موصوف نے اس نظم کی شروعات تو اس طرح کی ہے جیسے حمد کہہ رہے ہوں۔لیکن اس نظم کو اچانک ایسی دعا میں تبدیل کر دیتے ہیں جس میں رسولِ مقبول ﷺ کے تئیں ان کے دل کی تڑپ کی عکاسی بھی ہے اور روضۂ اقدس میں دم توڑنے کی خواہش کا اظہار بھی۔ چنانچہ موصوف کہتے ہیں۔ ؎


مرا جی چاہتا ہے

زندگی کے آخری لمحوں میں اس کی موہنی صورت

تصور میں ابھر آئے

درود حمد پر ہو خاتمہ تارِ نفس

مجھے جب قبر میں وہ لے کر نوری دکھایا جائے

میں پہچان لوں فوراً

میں رب سے اتنا کہہ پاؤں

کہ ہوں اک بندۂ عاصی

میں ادنیٰ اور کم تر ہی سہی لیکن

ترے محبوب کی امت میں ہوں شامل

ترا جی چاہے مجھ کو بخش دے یا سزا دے

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659

سید نفیس دسنوی نے بھی کثرت سے نعتیہ کلام لکھ کر خود کو نعت گو شعرا کے اس عظیم قافلے میں شامل کر لیا ہے۔ان کی نعتوں کا ایک مجموعہ ’’غار ِحرا‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔موصوف کی نعتوں کے اس مجموعہ کا پیش لفظ پروفیسر کرامت علی کرامتؔ نے لکھا ہے۔ رائے دہندگان میں روؤف خیر‘سید شکیل دسنوی‘بابا سائیں شکیل الرحمٰن وغیر ہم کے علاوہ شارق عدیل اور سعید رحمانی صاحبان بھی شامل ہیں۔

سید نفیس دسنوی کی نعتوں سے ایک بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اپنی نعتوں میں وہ خود کو مسلکی تضادات سے بالا رکھتے ہیں۔ اس لئے موصوف کی نعت گوئی خالص عشق رسول کی چھاپ لئے ہوتی ہے۔ مذہب اسلام کے داعی ﷺ کے حکم کے مطابق خود کو فتنے میں نہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سلسلے میں کرامت علی کرامتؔ صاحب رقم کرتے ہیں کہ ’’اردو کے بہت سے نعت گو شعرا کے کلام میں جا بجا ان کے مسلک کی جھلک دکھائی دیتی ہے لیکن نفیس دسنوی کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ان کے نعتیہ کلام کے مطالعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتاہے کہ ان کا تعلق کس مسلک سے ہے۔ ان کا کلام ہر مسلک کے قارئین کو متاثر کرتا ہے ‘‘۔ان کے نعتیہ کلام کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


سنبھل اب اے دلِ مضطر مدینہ آنے والا ہے

جہاں محبوب کا ہے در مدینہ آنے والا ہے

بصیرت کی کرن وہی محور مدینہ آنے والا ہے

اجالوں کا وہی محور مدینہ آنے والاہے

اسی بات کو سعید رحمانی صاحب یوں رقم کرتے ہیں کہ ’’نہ تو کہیں غلو سے کام لیا ہے اور نہ ہی الوہیت و رسالت کی حد پھلانگنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ؎


ہر آن یہ خطرہ ہے راہوں میں پھسلنے کا

چلتا ہوں سنبھل کر میں یہ نعت کا میداں ہے

بقول رؤوف خیرامام الانبیاء کے بعد کوئی امام نہیں ‘اللہ کے کلام کے بعد کوئی کلام نہیں۔نفیس صاحب نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎


نبیوں کا لاکھ ذکر ہے اُم الکتاب میں

ہے آپ کا ہی نام مگر انتساب میں

سعید رحمانی صاحب نے سیکڑو ں نعتیہ اشعار لکھے ہیں۔موصوف نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’روشن عبارت‘‘میں چند نعتوں کو شامل کیا تھا۔ اب حال میں میں خالص نعتوں پر مشتمل ان کانعتیہ مجموعہ’’دربارِ مصطفیٰﷺ میں‘‘ منظرِ عام پر آکر اہلِ ادب سے خراج حاصل کرچکا ہے۔ ان کی نعتوں کے تعلق سے کرشن موہن رقم فرماتے ہیں کہ’’ان کی نعت گوئی کا کمال ان کے جذب عقیدت کا ثمرہ ہے۔ان نعتوں کی لطافت ِ احساس ‘طہارت ِ فکراور ادبی شان‘اکثر اشعار سے مترشح ہے۔

حفیظ اللہ نیولپوری فرماتے ہیں’’ان کے کلام میں عقیدت مندی کا تقدس ‘تصدیع و تعذیب کے تصور میںگھل کر تطہیر کی فضا بندی کرتا ہے‘‘۔ علامہ شارق جمال نے سعید رحمانی کی نعتوں کے تعلق سے جو کچھ عرض کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔’’سعید رحمانی نے نعت کے روایتی اسلوب سے خود کو کافی دور رکھ کر نعتیہ اشعار کی تخلیق کی ہے۔نعت کے مضامین کوئی نئے بھی نہیں پھر بھی اشعار کو تازہ کاری کے ہنر نے آج کا نیا اسلوب دیا ہے جو روح میں براہِ راست اترنے والا ہے۔

مندرجہ بالا اکابرین شعروادب کی آراء کی روشنی میں یقینا سعید رحمانی کا نعتیہ اسلوب انفرادیت کا حامل نظر آتا ہے۔ان کا ایک نعتیہ شعر ملاحظہ فرمایئے۔ ؎


بتا دیتا ہے رازِ دل مرے لفظوں کا آئینہ

مرے اشعار شوق ِدید کی تفسیر رکھتے ہیں

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اسحاق انور عمر رسیدہ مگر تازہ کار شاعر ہیںنعتیہ شاعری ہی ان کی فکر کا محور ہے۔غزل بھی کہتے ہیں مگر نعتیہ شاعری سے ان کی انسیت کا ثبوت یہ ہے کہ اب تک تین نعتیہ مجموعے شایع کرچکے ہیں جن کے نام ہیں:عکسِ روشن‘آفتابِ رسالت اور بابِ رحمت۔آخر الذکر مجموعے کاپیش لفظ راقم الحروف نے لکھا ہے۔ان کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


ادب سے چوم لے تو باوضو ہوکر اسے انورؔ

اگر مل جائے نقش پا تمہارا یا رسول اللہ

دیکھتا ہے وہ جلوہ آ پ کا ہر اک شے میں

بن گیا ہے دل جس کا آئینہ محمد ﷺ کا

نوٹ:- ناچیز نے مندرجۂ بالا سطور میں جن شعراء کے حوالے سے کچھ رقم کرنے کی سعی کی ہے۔ ان تمام شعراء نے مختلف اسلوب ِ شاعری میں بھی شعر کہنے کی کوشش کی ہے۔ نعت گوئی کے لئے غزل کا پیرایہ یقینا بہت ہی دلکش ہوتا ہے لیکن غزل کی ہیئت کے علاوہ رباعی، دوہے‘ ہائکو‘ آزاد نظم وغیرہ کئی ہیئتوں میں نعتیہ شاعری کی گئی ہے۔

اثر نظامی نے بھی اپنی نعتوں کا مجموعہ’’ نور کی لکیر‘‘ شائع کیا ہے۔ ان کے اس کتابچے میں چند حمدیہ اور نعتیہ غزلیں شامل ہیں۔ان کے نعتیہ کلام میںقلبی واردات اور عقیدت مندانہ جذبات کی فراوانی پائی جاتی ہے۔ان کی نعت کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔ ؎


میں ستم زدہ ہوں مرے نبی مرا دل بہت ہی ملول ہے

تری رہبری مجھے چاہئے کہ قدم قدم پہ ببول ہے

کرے رشک جس پہ مری گھٹا وہ نبی کی زلف دراز ہے

جسے چومتے ہیں ملائکہ وہ نبی کے پاؤں کی دھول ہے

ناچیز نے مندرجہ بالا سطور میں جن نعت گو شعرا کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض نے غزل کے پیرائے کے علاوہ شاعری کی دیگر ہیئتوں میں بھی نعت کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔اجمل نقش بندی نے ہا ئکو اور نظموں کے علاوہ کئی دیگر ہیئتوں میں بھی نعت کہی ہے۔اولاد رسول قدسی نے بھی نعتیہ نظموں ‘آزاد نظموں‘ ہائیکو اور اور دوہوں کے پیرائے میں نعتیہ کلام لکھے ہیں۔ عاجز سونگڑوی کی نعتوں میں پیکر تراشی کے علاوہ شاعرانہ حسنِ بیان کا ثبوت ملتا ہے۔ان کے اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ ؎


پھر معطر ہو گئی ہے پھر ہے فصل بہار مدینہ

پھر رواں آہو انِ حرم ہیں سبزہ زار مدینہ

ایک حسرت مچلتی ہے دل میں سامنے جالیوں کے ہوں حاضر

کاش اٹھ جائے پردہ نظر کا جلو ہ گری ہوں نگارِ مدینہ

یوسف جمال نے بھی اپنی نعتوں میں نعت گوئی کے فن کی پاکیزگی کو بر قرار رکھتے ہوئے غزل کی تمام روایات کو بھی بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نعتیہ غزل کا شعر ملاحظہ فرمائیے۔ ؎


تمہارے حسن کی ضوپاشیوں سے ہیں رخشندہ

ستارے ملگجے تھے ان کے رُخ پر روشنی کب تھی

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

یوں تو نعتیہ کلام رسولِ مقبول ﷺ کے تئیں اظہار عقیدت کا بہترین وسیلہ ہے لیکن اس کے اسلوب پر بھی تجربہ ہوتا رہتا ہے۔جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں نمونہ کے طور پر چند ہیئتی تجربوں کا ذکر کیا گیا ہے۔مثلاًنعتیہ گیت‘سانٹ‘رباعی‘ہائیکو‘آزاد نظم ‘غیرمنقوطہ نعت وغیرہ کی ہیئتوں میں اڑیسہ کے شعرا طبع آزمائی کرتے آرہے ہیں۔اس سلسلے میں اولاد رسول قدسی ‘اجمل نقش بندی‘کرامت علی کرامت ؔ کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ مولانا مبارک حسین سلامت ؔنے بھی نعتیہ گیت کہے ہیں اور ان کے بیشتر گیتو ں میں ہندی زبان پائی جاتی ہے۔ اجمل نقش بندی نے نعتیہ سانیٹ بھی کہا ہے جبکہ راقم الحروفؔ نے حمدیہ ترائیلے کے علاوہ کثرت سے نعتیہ رباعیاں بھی کہی ہیں، مثا ل کے طور پر دو نعتیہ رباعیاں پیش ہیں۔ ؎


تعریف محمد ﷺ کے لئے لفظ ہیں کم

بس اتنا ہی ہے وہ ہیں نبیٔ خاتم

اب کوئی نہ آئے گا ہدایت کے لئے

اس کام کو کرتے ہیں چلو ہم پیہم

دنیا میں نہیں ایسا کوئی خوش لقبی

ان کا سا نہیں کوئی بھی اعلیٰ نسبی

اُمّی بھی وہی علم کا مخزن بھی وہی

سب سے ہیں الگ اپنے رسولِ عربی

قدسیؔ اور مولانامبارک حسین سلامتؔ نے اپنی اپنی نعتوں کی ردیف کے انتخاب میں عام روش سے ہٹنے کی کوشش کی ہے۔مثال کے طور پر دونوں کی نعتوں کے دو اشعار پیش خدمت کر رہا ہوں۔ ؎


محمد جانِ عالم روحِ عالم پیکرِ عالم

محمد حسنِ عالم فخرِ عالم سرورِ عالم (سلامتؔ)

ان کی ایمائے اطاعت سے ملی فتح مبیں

کفر کرتا رہا مبہوت سا خنجر کا طواف(قدسیؔ)

خدا کا شکر ہے کہ نعت گوئی کے سلسلے میں اڑیسہ کے شعرا عالمی سطح پر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں ہم دعوے کے ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ فنِّ نعت گوئی میں شعرائے اڑیسہ عالم اسلام کے شعراء سے کسی بھی طرح سے کم نہیں ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ ہمارے یہاں ذرائع ابلاغ کی کمی بھی اس کی راہ پر رُکاوٹ نہیں بن پائی ہے۔

"نعت کائنات " پر اپنے تعارفی صفحے ، شاعری، کتابیں اور رسالے آن لائن کروانے کے لیے رابطہ کریں ۔ سہیل شہزاد : 03327866659
نئے صفحات