اے خنک شہرے کہ آں جا دلبرست ۔ معین الدین عقیل

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

اے خنک شہرے ،کہ آں جا دلبرست[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

معین الدین عقیل

علمی و تحقیقی دنیا میں ، خصوصا ً ہماری اپنی دنیا میں اورحالیہ عرصے میں ،عمدہ تحقیقی مطالعات کے ساتھ ساتھ ،عصری تقاضوں کے تحت، یہ خوش آئیندصورت ِحال بھی عام ہورہی ہے کہ مطالعات و تحقیقات کو معیاری اور مستند بنانے کے لیے بنیادی و ثانوی ہر طرح کے مآخذ و مصادر کے تعین اور ان سے رجوع کرنے کا شعور بھی عام ہورہاہے اور ان سے کماحقہ‘ استفادے کا رجحان بھی بڑھ رہاہے۔شخصی موضوعات پر مطالعے کے لیے، جو اس وقت ہمارا موضوع ہے، جہاں عصری و علاقائی تاریخیں،معاصرین کے سوانحی و شخصی کوائف، ذاتی اسنادو مکاتیب،متعلقہ شخصی موضوعات ِ دل چسپی پر مشتمل فہارس ِ مطبوعات اورکتابیات اورساتھ ہی عصری صحافتی وسائل------ جیسے مآخذ و مصادر اب زیادہ ناگزیر سمجھے جارہے ہیں اور ان سے مناسب استفادہ کرتے ہوئے جو مطالعات و تحقیقات منظر ِ عام پر آرہی ہیں، اپنے معیار و استناد کے لحاظ سے انھیںبجاطور پر ایک ستائش اوراعتبار حاصل ہورہاہے۔ یہ عمل بے حد خوش کن اورقابل ِ اطمینان ہے۔ایسے ہی مآخذ و مصادر یا معاون وسائل میں ، جو اگر چہ ثانوی حیثیت کے حامل بھی ہوتے ہیں،ان میں' وفیات' نے بھی اپنی ایک ناگزیر جگہ بنالی ہے ۔جب کہ 'وفیات' سے استفادے کی روایت بھی کچھ کم نہیں ، عالمی تناظر سے قطع نظر، مشرق اور بالخصوص مسلم معاشرے میں یہ ہزار سال سے بھی زائدپر محیط ہے۔ہمارے اپنے ماحول یا جنوبی ایشیا اور اردو میں ہونے والی تحقیقات کے زمرے میں بھی،ہم نے اس ماخذ سے استفادے کی روایت کو قائم کیے ہوئے سو سوا سو سال سے زیادہ کی مدت گزاردی ہے اور بے حد وقیع اور مفید و ناگزیر مثالیں اس مد میں پیش کی ہیں۔اس ضمن میں عہد ِ سید احمد خاں سے شبلی تک، اور ان کے مکتب ِ علم و دانش سے وابستہ علما: سید سلیمان ندوی اور عبدالماجد دریابادی اور ان سے قطع نظر ماضی ِ قریب میںمالک رام نے اس روایت کوایسا استحکام اور فروغ دیا کہ' وفیات' نے بطور ثانوی ماخذ، اپنی اپنی ضرورتوں کے تحت،مصنفین ا ور محققین کی ایک مستقل توجہ حاصل کرلی۔ان سب پر مستزاد، پاکستان میں اس روایت کوجو ایک مثالی اہمیت و توجہ اورفروغ قدرے ڈاکٹر محمد اسلم اور ان سے بڑھ کر ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے بخشاہے، وہ کم از کم پاکستان میں ایک مثال ہے اور معاصر علمی دنیاکے لیے بھی ایک نظیر سے کم نہیں۔ اپنے اس کام کو سلیچ صاحب نے پاکستان کی حد تک مخصوص کررکھا ہے اور ان کی یہ تخصیص ہر اعتبار سے جائز اوردرست بھی ہے۔اپنے اطراف کی قریبی دنیا یا اپنی مخصوص دنیا ہی اگر اپنی دسترس اوراپنے دائرہ عمل میں آجائے اور اس کا حق ادا ہوجائے تو بھی کچھ کم مستحسن نہیں اور یہی سلیچ صاحب نے کیاہے اور کررہے ہیں۔جو آغاز انھوں نے اپنی اولین کاوش"خفتگان ِخاک ِ گجرات"(۱۹۹۶ء)سے کیا تھا،اس سے بڑھ کر"وفیات ِ ناموران ِ پاکستان" (۲۰۰۶ء)،"وفیات اہل ِ قلم پاکستان" (۲۰۰۸ء)اور" تنہائیاں بولتی ہیں "(۲۰۱۲ء)اس نوعیت کی ان کی کاوشوںکے ایسے اگلے مراحل یا ضخیم مجموعے ہیں جنھوں نے سلیچ صاحب کو 'وفیات' سے اور 'وفیات' کو سلیچ صاحب سے اس طرح لازم و ملزوم کردیاہے کہ اب ایسا کوئی اور نام نہیں جو بطور مثال سلیچ صاحب کی ہمسری کرسکے۔ یہ ان کی ایسی مستقل کاوشیں ہیں جو اب مزید ذیلی مجموعوں کی صورت میں بھی ڈھل رہی ہیں، جیسے:" وفیات ِنعت گویان ِ پاکستان" یا" وفیات ِنعت گویان ِکراچی"۔یہ سب ایسے ناگزیر مآخذ ہیں جو اپنے مندرجات کے لحاظ سے اپنی مشمولہ شخصیات پر بنیادی اور ضروری معلومات بہ یک نظرپیش کردیتی ہیں کہ جن سے استفادہ کیے بغیر کسی شخصیت کا نہ بنیادی تعارف اخذ ہوسکتاہے نہ مطلوبہ اولین معلومات میسرآسکتی ہیں۔اب اپنی مذکورہ بنیادی کاوشوں سے ایک اورماحصل سلیچ صاحب نے اخذ کیاہے اور یہ "وفیات ِ مشاہیرِ کراچی" کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کراچی محض ایک شہر ہی نہیں ،اپنی ہر حیثیت میںایک تاریخ اورایک تہذیب بھی ہے۔اگرچہ اپنے ماضی میںبظاہر یہ ایک عام سا ساحلی شہر تھا لیکن قیام ِ پاکستان کے بعد نئے حالات کے تناظر میںاولا ً یہ تجارتی و صنعتی شہر بنا، جس کا ایک اولین سبب بھارت سے ایک بڑے پیمانے پر ہجرت کرکے آنے والوں کا اسے اپنے لیے ایک آماج گاہ ا ور ایک مستقر بناناتھا،پھراپنی اس مثالی نئی حیثیت کی وجہ سے یہ شہررفتہ رفتہ اطراف ِملک اور دور و نزدیک کے کثیر باشندوں کو بھی تلاش ِ روزگار میں یہاں کھینچ لایا۔اس ایک وسیع تر نقل ِ مکانی نے اسے اس کی ان سابقہ ساری حیثیتوں سے بڑھ کر ایک تہذیبی مرکزبھی بنادیا۔ایک ایسا مرکز جس نے کچھ ہی عرصے میں اپنی ایک شناخت قائم کرلی اور جوایک نوتہذیبی مرقع کی صورت میں تبدیل ہوگئی۔اس ملک کا ایک ایک گوشہ اگرچہ ایک اپنی شناخت رکھتاہے اور اپنے ایک تہذیبی وصف کا حامل بھی ہے لیکن جو امتیازکراچی نے اپنے تہذیبی تنوع کے سبب حاصل کیاہے وہ اس نوعیت سے یہاں کے کسی اور خطے اور کسی اور شہرمیں نظر نہیں آتا۔اس کا یہ وصف اپنے مقامی و علاقائی امتیازات کے ساتھ ساتھ، ان تہذیبوں کے سبب بھی ہے جن کے نمائندے جنوبی ایشیا کے دوردراز علاقوں اور خطوں سے یہاں پہنچے اور آباد ہوئے تھے ۔وہ اپنے ساتھ اپنے تہذیبی عناصر ، اپنی تہذیبی روایات اوراپنے علمی و ثقافتی ورثے بھی یہاں لیتے آئے تھے جو ان کے بزرگوں نے کہیں گنگا جمنی تہذیب میں ڈھالا تھا یا دہلی و لکھنو میں پروان چڑھایا تھا۔ ان ہی میں کہیںبنگال و بہار کی بوباس بھی تھی اور کہیںجنوبی ہند اور گجرات و راجستھان کی ثقافتی نیرنگی و دل کشی بھی جھلک رہی تھی۔ ان نمائندوں نے اس شہر میں اس طرح اپنی اپنی مخصوص روایات کے حامل اپنے چھوٹے چھوٹے شہر بھی آباد کررکھے تھے جن میںان سب کے ساتھ ان کااپنا ایک ماضی بھی یہاں درآیا تھا، لہٰذااس ماضی کی تہذیبی صفات اور خصوصیات بھی یہاںان کے ساتھ رہیں۔چناں چہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں، جو چاہے انتظامیہ کا شعبہ ہو یا تعمیرات کا، فوج کا ہو یا تعلیمات کا،صحت کا ہو یا زراعت کا، ماہرین و افاضل کی فوج ِظفر موج نے اپنے اپنے تجربے اور اپنی اپنی لیاقت و ہنرمندی سے اس شہر ہی نہیں اس ملک کی تعمیر و توسیع کی شان دار مثالیں پیش کی ہیں۔علمی اور تعلیمی ترقی میں تو اس شہر نے ہجرت کرکے یہاں آباد ہونے والوں کے ان کے اپنے ماضی کی روایات کی پوری پوری ہمسری کی کوشش کی اور ہر ہر گلی کوچے میں عمدہ درس گاہوں، علمی و تعلیمی اداروں اور ادبی و ثقافتی مراکزاور کتب خانوںکے تازہ ترقیام نے اس شہر کو وہ رونق و امتیاز بخشا کہ تہذیبی ورثے کی شان و شوکت اور اس کی آراستگی اور علم و ادب اور تصنیف و تالیف کی سرگرمیوں میں اس سارے خطے میں، جس میں لاہور اپنی ایسی دیرینہ روایات ا وراپنی قدیم تاریخ کے باعث ایک قدرے استثنیٰ ضرور تھا، لیکن وہ بھی ایک عرصے بعد تک اس کا ثانی نہ رہا۔ اس شہر کا یہ سارا امتیاز و وصف ان اکابر کا مرہون منت تھا جو اپنی عمدہ اور بے نظیر لیاقتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ اس شہر میں وارد ہوئے تھے ۔ انھوں نے اپنے اس تجربے اور مہارت کو، جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے ،اس ملک اور اس شہر کی تعمیر و ترقی میں صرف کردیا ۔ان کی اس کوشش کے باوصف جو امتیازات اس شہر کو حاصل ہوئے ان میں شاید شائستگی اور تہذیب و مروت اور علم دوستی سب سے نمایاں رہے۔پھرکونسا ایسا شعبۂ علم و فضل ہوگا جس میں نو وارد ممتاز اور فقید المثال اکابر شخصیات نے اس شہر میں فیض رسانی نہ کی ہو۔ ہر ہر علم اورہر ہر فن میں یہاںاکابر شخصیات نے اپنے اپنے امتیازات سے اس شہر کی تعمیر و ترقی اور علم وادب کے فروغ میں نہ صرف اپنا کردار ادا کیا بل کہ ان سب کی ایک نظیر اور مثال بھی پیش کی کہ جس کے فیض سے ملک کے دوسرے شہر اور خطے بھی مستفیض ہوئے۔ لیکن یہ سب باتیںماضی کی ہیں۔حال نے اس شہر سے وہ سب کچھ چھین لیا جو اس کا افتخار و امتیاز تھے۔وہ نسل جو اپنی علمی و فنی لیاقتوں اور فضیلتوں کے ساتھ یہاں آکر آباد ہوئی تھی رفتہ رفتہ داعی اجل کو لبیک کہتی اور منظر سے ہٹتی رہی۔پھراب اس نسل کی باقیات بھی ایسی ہیں کہ جوآج یا کل رخصت ہونے کو ہیں۔اس کے باوجود کہ کچھ باقیات بچی کچی رہ گئی ہیں ،جو اگرچہ مغتنمات کہی جاسکتی ہیں، لیکن ان کے باوجود اب یہ شہر قحط الرجال کا منظر پیش کررہاہے! گزشتہ دو تین دہائیوں کے سیاسی حالات نے بھی اس شہر کومزید ویران کرنے میںحصہ لیاہے ،بل کہ سیاست ہی ہے جس نے اس شہر کو ہر طرح سے نقصان پہنچایاہے اور اس سے اس کے امتیازات چھین لیے ہیں۔عرف ِعام میں یہ شہر جوکبھی ملک کی 'شہ رگ 'تھا،'پاکستان کا دل' بھی کہلاتاتھا اور' تجارتی محور 'یا مرکزبھی قرار دیا جاتا تھا،ملک دشمنوں کی خیال میں چوں کہ ملک کو معاشی کفالت ہی نہیں، علمی و فکری غذا بھی یہیں سے پہنچتی ہے، اس لیے اسے مجروح یا مفلوک و محتاج کردیا جائے تو پاکستان ان سارے مدات میں مفلوج بھی ہوسکتاہے اورکمزور و ناتواں بھی۔چناں چہ ان ملک دشمنوں اور ان کے پیرو کاروںنے، جو قیام پاکستان ہی سے خوش نہ تھے اور اسے ختم یا مفلوج کرنے کے ہمیشہ درپے رہے، بڑی چالاکی اور مہارت سے اس شہر کو اور اس کے امتیازات و صفات کو ختم کرنے کی بڑی ماہرانہ منصوبہ بندی کی اور اس شہر میں بھی ایسی ہم خیال قوتیں پیدا اور داخل کردیں جنھوں نے ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ، کہیں دانستہ اور کہیں نادانستہ ،خود کو وقف کردیا۔ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس شہر سے پہلے امن و امان رخصت ہوا اور پھرتعلیمی ترقی رک گئی بلکہ زوال آمادہ ہوئی۔تعلیم میں پیچھے رہ جانے سے اس کے رہے سہے وہ سارے امتیازات بھی یکے بعد دیگرے اس سے رخصت ہونے لگے جو اس شہرکے باشندوں کا طرہ ٔ امتیاز ہواکرتے تھے۔چناں چہ علم اور علم پروری، بے نفسی اور فرض شناسی جیسے اوصاف اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ تعلیم سے اس شہر کی دوری نے اسے تہذیب و شائستگی سے بھی دور اور شعور و بصیرت سے بھی بیگانہ کردیا۔اس لیے اب اس شہر میں ماضی کی طرح کے بڑے لوگ اب نظر نہیں آتے تو پیدا کیا ہوسکیں گے۔ اس سطح پر یہ ایک ایسا المیہ ہے جو تاریخی لحاظ سے نہ سہی، تہذیبی لحاظ سے بغداد و دہلی کے المیوں سے شاید کچھ ہی کم ہو۔اس شہر کو تہذیب و تمدن اور علم و علما کی علمی و فکری سرگرمیوں کے لحاظ سے اتنی مہلت نہ ملی جو بغداد اوردہلی و لکھنؤ کو میسر آئی تھی ،یا جو معاصر تاریخ میں یا نوآبادیاتی دور کے آخری مرحلے یا خاتمے کے بعد ،لاہور کے نصیب میں آئی ہے۔اب واقعتا ً لاہور علمی و تہذیبی سطح پر سابقہ مراکز ِ تہذیب کا بساط بھرکفارہ ادا کررہاہے لیکن ایسا ہی کچھ کردارکبھی کراچی بھی ادا کرنے کے قابل ہورہاتھا کہ اسے دشمنوں کی نظر لگ گئی ، چناں چہ اس حوالے سے اب یہ ایک قصہ ٔ پارینہ بننے کی جانب گامزن ہے۔کیسے کیسے نابغہ ٔ روزگار یہاں آباد ہوئے اور اپنے ذہن و فکر اور اپنی دانش مندی و بصیرت کے گل کھلاکر رخصت ہوئے، بل کہ تاریخ بناکر تاریخ کی نذر ہوئے۔وہ کون کون تھے اور انھوں نے کیا کچھ کیا، کیا خدمات انجام دیں اور اس شہر کو کیادیا یا ان کی وجہ سے اس شہر نے کیا صورت و امتیاز حاصل کیے اور ان کی صلاحیتوں اور کاوشوں سے ملک اور قوم نے کیاکچھ پایا،-------جب ان حوالوں سے کہیں کوئی تاریخ لکھی جائے گی یا ان اکابر کے حالات اور آثارجائزے و مطالعے کا موضوع بنیں گے، توپھر سب ہی کو ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی یاد آئے گی اور اس خاص ضرورت کے تحت ،جو کراچی کی علمی اور تہذیبی زندگی کے مطالعے سے جُڑی ہوگی ،ان کی یہ کاوش "وفیات ِمشاہیر ِکراچی" سب کا سہارا بنے گی۔ یہ کس قدر حیران کن اور قابل ِ رشک ہے کہ سلیچ صاحب روزگار کے طور پر تو پیشہ ٔ طب سے منسلک ہیں، جس سے وابستگی ان کے روز و شب کا بیشتر وقت خود وصول کر لیتی ہے۔باقی جو وقت روز و شب کا بچتاہے لازما ً خاندان کی نذر ہوتا ہوگا اور ہونابھی چاہیے، لیکن ان کی شخصیت کی براندازی جو ساری علمی دنیا تک عام ہے، اس کے پس ِ پشت تو و ہ ایک کثیر التصانیف مصنف نظر آتے ہیں،اور جو ان کے شہر کے باہر ان کا اصل تعارف بھی ہے، ان سب علمی سرگرمیوں کے لیے وہ وقت کہاں سے نکال لیتے ہیں، جس کے لیے وقت بھی دیناہوتاہے اور تلاش و جستجو کوایک کار ِ مسلسل کی طر ح زندگی کا اوڑھنا بچھونابھی بناناپڑتا ہے!لگتا ہے کہ سلیچ صاحب خواب میں بھی تلاش ِگمشدگان میں مصروف رہتے ہوں گے۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ ہر اہم علمی و ادبی شخص کے انتقال کی خبر، جو ملک کے کسی بھی گوشے میں ہواہو، انھیں ہوجاتی ہے ، جو عام افراد کو نہیں ہوتی ۔ پھر اس کے احوال و کوائف اور اس کی قلمی کاوشوں کی تفصیلات کا حصول ان کی زندگی کا مقصد بن جاتے ہیں۔اس مقصد کی تکمیل میں ان کے بے پناہ ذوق و شوق اور مستقل لگن و جستجو کے سبب انھیں ہمیشہ کامیابیاں میسر آتی ہیں جو حد درجہ قابل رشک ہیں۔قابل رشک یوں کہ جن افراد کے بارے میں عام طور پر کہیں کچھ معلومات نہیں ملتیں، انھیں سلیچ صاحب فراہم کردیتے ہیں۔بعض اوقات تو مجھے کبھی یوں بھی گمان گزرتاہے کہ کسی کم معروف شخص کے بارے میں شاید سلیچ صاحب کے مرتبہ مجموعے میں مطلوبہ معلومات نہ ملیں، لیکن مل جاتی ہیں!اس وقت حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی اور خوشی کے ساتھ ایک احسان بھی سلیچ صاحب کا محسوس ہوتاہے کہ کس طرح وہ ضرورت مندوں کی حاجت روائی کردیتے ہیں کہ بیک نظر اور بہ سہولت مطلوبہ معلومات تک رسائی دے دیتے ہیں!واقعتا 'وفیات 'کی جمع آوری اور ترتیب ان کا علم و ادب پرسلیچ صاحب کا کس قدر بڑا احسان ہے کہ یہ ہر ایک مصنف و محقق اور ضرورت مندکو مرحوم شخصیات کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کردیتے ہیںاور اگر ان کی فراہم کردہ معلومات ایک ماخذ بنتی ہیں تویہ علم اور ادب کی کس قدر بڑی خدمت ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔سلیچ صاحب کی اس خدمت کا ، ان کے ان احسانات کا مجھے آئے دن تجربہ رہتاہے اور میں ان کا ممنون رہتاہوں۔اب دیکھیے کہ اس 'وفیات ِ مشاہیر کراچی ' سے سب ہی مصنفین و محققین اور ضرورت مند جو کراچی میں آباد مشاہیر کے بارے میں کسی نوعیت کی بنیادی معلومات کی تلاش میں ہوں، اور انھیں سلیچ صاحب کی اس کاوش کے وسیلے سے مطلوبہ معلومات مل جائیں،یا ان مرحومین کی روحیں جن پر کوئی قلم اٹھارہاہو ، یہ سب کس قدر شکرگزار اور ممنون نہ ہوں گے۔تسلسل کے لحاظ سے یہ زیر ِ نظر' وفیات' کراچی کے مشاہیر سے مخصوص ہے۔ اس کاوش کی نظیر کو سامنے رکھ کر، ملک کے دیگر شہروں کوبھی ،اس بنیاد پر کہ ' چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر ِ ِیکتا تہ ِ خاک' اس نوع کے زمرے میں شامل کیاجاسکتاہے، جو ضرورت مندوں کو مزید سہولتیں فراہم کرسکتاہے۔

	میں مطالعے و تحقیق کے ضمن میں ہمیشہ اس خیال کا حامی رہاہوں کہ یہ دونوں اس مقصد کے تابع ہوں کہ ان دونوں کی حیثیت و معیار، بل کہ ان میں موضوعات کو بھی شامل سمجھنا چاہیے، ابدی ہوں یا ابدی بن سکیں۔یہ ہر وقت اور ہر دور کے لیے ہوں، ہر دور میں ناگزیر سمجھے جائیں اور ہر عہد میں اپنے موضوع کی مناسبت سے ایک ماخذ اور رہنمائی کا کام بھی دیں۔اگرچہ عمدہ مطالعات و تحقیقات بھی ایسی افادیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن دراصل کتب ِ حوالہ یا مآخذ ومصادر ایسے ہی عین مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔شخصی موضوعات ِ مطالعہ و تحقیق کے ذیل میں'وفیات'جیسی کاوشیں اپنی حد تک اس مقصد کی پوری طرح تکمیل کررہی ہیں۔چناں چہ، اپنی مناسبت سے،  'وفیات مشاہیر ِکراچی' کراچی کی تاریخ و تہذیب کے مطالعے میں، کہ جو یہاں کی نمائندہ شخصیات کی علمی وتصنیفی اور تہذیبی و ثقافتی خدمات اور سرگرمیوں سے عبارت ہے، ایک بنیادی اور ناگزیر ماخذ کا کام دے گی۔اس اعتبار سے اس کے فاضل مرتب ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی یہ کاوش، جو ان کے منفرد اور مثالی ذوق و شوق کے ساتھ، ان کی شبانہ روز محنت و لگن اور دل چسپی و توجہ کا ایک ثمر ہے، شخصی حوالوں سے کراچی کی تاریخ و تہذیب اور اس کی علمی و ادبی زندگی کے ہر طرح کے مطالعے کے ایک لازمی اور بنیادی ماخذ کی حیثیت میں ہمیشہ معاون اور سہارا ثابت ہوگی، بل کہ اس سے رجوع کیے بغیر کراچی کی علمی اور تہذیبی زندگی کا ہر معیاری اور جامع مطالعہ بھی نامکمل اور تشنہ رہے گا۔