اُردو میں نعت گوئی کا تہذیبی مطالعہ ۔ قاسم یعقوب

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Qasim Yaqoob.jpg

مضمون نگار: قاسم یعقوب

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27

اردو میں نعت گوئی کا تہذیبی مطالعہ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ABSTRACT: Genre of Naat has been discussed in cultural perspective in the article presented hereunder. Poetic reality has been emphasized over thought content of Naat. Urdu Naat has been evaluated in the cultural mirror of Sub-Continent and suggestions made, impliedly, to avoid criticism on the Text of Naat.

احمدِ پاک کی خاطر تھی خدا کو منظور

ورنہ قرآن اُترتا بزبانِ دہلی (محسن کاکوروی)


اُردو میں نعت گوئی پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس اہم نکتے کا خیال رکھنا چاہیے کہ اُردو زبان ہندوستان کے مشترکہ تہذیبی ورثے کی زبان ہے۔ یہ تہذیبی ورثہ کسی ایک قوم یا کسی ایک علاقے کی ثقافت اور رسم ورواج پر مشتمل نہ تھا بلکہ اس میں کئی نسلوں، قوموں اور خطوں کے افراد نے شمولیت اختیار کی۔ یہ مشترکہ سرمایہ صدیوں کی ریاضت کے بعد سامنے آیا۔اس میں حکمران اور عوام بیک وقت شامل تھے۔ اُردو زبان اس خطے کی مشترکہ زبان ہے جو کہیں باہر سے درآمد نہیں کی گئی بلکہ یہیں پر، یہاں کے مقامی افراد کے مشترکہ اعمال کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی جس میں مقامی زبانوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ جب ہم اُردو نعت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس نکتے کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نعت اُردو کلچر کی نمائندہ نعت ہے۔


نعت ذاتِ سرکارؐ کی مدح ہے جو علامتِ محبت ہے، احترامِ آدمیت ہے، وقارِ انسان ہے۔محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی، کوئی رسم نہیں ہوتی، کوئی تہذیب اور پیمانہ نہیں ہوتا۔ جب محبت پیدا ہوتی ہے تو خود ادب واحترام کے پیمانے تراش لیتی ہے۔ جذبے کسی سانچے کے محتاج نہیں ہوتے۔ اُردو زبان میں نعت گوئی لا محالہ اُردو بولنے والوں کی ثقافتی ترجمان ہوگی۔ وہ ثقافت ا و ررسم و رواج جو اس خطے میں عمل پیرا ہے، جو یہاں کے لوگوں کے تہذیبی رویوں کی عکاسی کر تا ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ نعت گوئی میں کس طرح کے موضوعات سموئے جا سکتے ہیں:

٭ نعت گو ،سرکارؐ سے محبت، عقیدت اور لگائوکا اظہار کرے۔

٭ نعت گوسرکار سے گناہوں کی بخشش کا طلب گار ہو۔

٭ نعت گو سرکارِ دو عالم سے مسائل سے نکلنے کے لیے کرم کا طلب گار ہو۔

٭ نعت گو، فلسفۂ رسالت کی تشریح و تعینِ مقام کے لیے کوشش کر رہا ہو۔

٭ نعت گو رسولِ اکرمؐ کو دیگر مقدس ہستیوں کے تقابل میں زماں ومکاں کے تناظرمیں افضلیت دے رہا ہو۔

٭ نعت گو تاریخِ اسلام میں سیرتِ طیبہ بیان کر رہا ہو۔


ان تمام موضوعات میں ہمارے اُردو نعت گو ئوںنے اظہار کیا ہے۔حسن عسکری نے لکھا ہے کہ ’’روحانی حقائق کو مجازی عشق کی اصطلاح میں بیان کیا۔ مذہبی شاعری کی یہ صنف سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔‘‘(۱) ہمارا نعت گو مجازی عشق کو عشقِ حقیقی میں کیوں دیکھتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے پس منظر کا اسیر ہے۔وہ عشق کو مکانی یا احساساتی صورت دینے میں زیادہ سہولت محسوس کرتا ہے۔ برصغیرکی فکر کا پس منظر’ ہندوستانیت‘ سے مبرا نہیں ہو سکتا۔’ ہندوستانیت‘ صرف مسلمانیت‘ تک محدود سماج کا نام نہیں تھا۔ہم نے اُردو نعت کی تشریح و تعبیر میں عربی ثقافت کو مدِ نظر رکھا ہے جس کی وجہ سے ہمیں زبردست غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ کچھ اسی قسم کی حد بندیاں نعت گوئوں کے ہاں بھی در آئیں ۔ انھوں نے بھی نعت پیش کرتے ہوئے عربی ثقافت کے قریب جانے کی کوشش میں نعت کہی۔

صنفِ نعت میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ:

۱۔ نعت گوئی خالصتاً محبت اور عقیدت کا اظہار ہے ۔

۲۔ یہ ایک شعری اظہار ہے جو شعری لوازمات میں اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔


نعت لکھتے ہوئے اور نعت پڑھتے یا سنتے ہوئے ہمیں نعت کی شعری منزلت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اگر نعت کو ایک خالص غیر شعری رویوں میں پیش کرنا مقصود ہے تو پھر نعت کو نثر میں پیش کرنا چاہیے۔جس میں شعری نظام(علم البیان اور تلازماتی نظام) کا عمل دخل لازم نہیں۔ نعت گوئی میں جب شعری جذبے آئیں گے تو اس میں ہرغیر ممکن تصور یا فکر ممکن ہو سکتی ہے۔ دوسرا؛ اگر یہ جذبہ محبت کو پیش کر رہا ہے تو پھر محبت کسی بھی طرح پیش کی جا سکتی ہے اس میں پیش و پس سے کام لینا بذات خود محبت کی توہین ہے۔مبین مرزا نے لکھا ہے:

’’عشقِ رسول ایک مسلمان کی زندگی کا سراسر نجی مگر بے حد اہم معاملہ ہے۔‘‘ (۲)


مگر نعت گوئی نجی معاملہ نہیں رہتا۔ نعت فنِ شعر کی ایک اہم صنف ہے جو سرکارِ رحمتؐ کے ساتھ شعری جذبوں میں بات کرنے کا نام ہے۔


اُردو نعت کو ان غلط فہمیوں کے ساتھ ہی دیکھا ہے۔ کہا گیا کہ نعت میں پیش کی جانے والی ثقافتی عمل کاری عربی تہذیب کے قریب ہو، ہندوستانیت کو نکال باہر کرنے کی کوششیں جاری رہیں اور پھر نعت گوئی میں حد بندیوں نے بہت سے باریک اور ضروری اظہاریے محدود کر دیے، کبھی بدعت کا نام دیا جانے لگا، کبھی رسالت ، رب اور بندے کی حدود متعین کی جانے لگیں۔ مگر یہ نہ دیکھا گیا کہ یہ شعرگوئی ہے جو شعری نظام اپنے ساتھ لاتی ہے جس میں مبالغہ، تقابل، حسنِ اظہار اور استعارے کا عمل موجود ہوتا ہے۔جو شخص جس زبان میں نعت پیش کرتا ہے وہ اپنی ثقافت و تہذیب ساتھ لاتا ہے۔یہ عین فطری بھی ہے اور ضروری بھی۔حفیظ تائب کہتے ہیں:

تخلیق کے چہرے کا ضیا ہے تری ہستی

تہذیب کے ماتھے کا ہے جھومر تری سیرت


کون سی تہذیب؟ ہندو تہذیب؟ مسلم تہذیب؟یا ہندومسلم تہذیب؟ یا عربی تہذیب؟ ماتھے پرجھومر تو ہندوستانی سجاتے ہیں۔ شاید حفیظ ہمیں ہندوستانی تہذیب کے ماتھے کا جھومر دکھا رہے ہیں۔ ذاتِ سرکار کی مدح ہندوستانی تہذیب کے ماتھے کا جھومر بھی ہے اور پوری دنیا کی مختلف تہذیبوں کے ماتھے کا جھومر بھی۔ بیگم صالحہ عابد اپنے ایک مضمون ’’کلامِ انیس میں ہندوستانی تہذیب‘‘میں لکھتی ہیں:


’’حضرتِ مریم، حضرت عیسیٰ ؑ کی تصوریریں دنیا کے ہر ملک، ہر قوم، ہر رنگ اور نسل کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں بنائی ہیں اور ہر جگہ کی مصوری میں مقامی رنگ موجود ہے۔ حبشی نسل کے لوگوں نے ان کا چہرہ اور نقش نگار حبشی دکھائے ہیں۔ یوروپئین مصوروں نے انھیں مغربی حسن کا شاہکار دکھایا ہے۔ ڈی سوزا نے حضرتِ عیسیٰ ؑ کی مشہور تصویر ہندوستانی انداز کی بنائی ہے۔ خود مہاتما بدھ کے بت، ہندوستان، چین، جاپان وغیرہ میں اپنے اپنے مقامی رنگ میں ڈھالے گئے ہیں۔‘‘(۳)


اصل میں حقیقت یہ ہے کہ شاعری اور شاعر دونوں اپنے تناظر کے اسیر ہوتے ہیں۔ شاعرلکھتے ہوئے کبھی بھی اپنے زمان ومکاں سے الگ نہیں رہ سکتا۔ اُسے اپنی تہذیب کا اظہار زبان میں کرنا ہوتا ہے جو بہر حال مکانی و زمانی سٹریکچر سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔شاعر نے زبان کے پہلے سے موجود سٹریکچر میں خود کو اتارنا ہوتا ہے اس لیے وہ زبان اور شعر کے جسمانی اور روحانی دونوں قسموں کی حالتوں سے گزر کے شعری ہیولا تشکیل دیتا ہے لہٰذا مجید امجد کا یہ کہناکہ:


’’جنابِ رسالت مآب کی تعریف میں ذرا سی لغزش، نعت گو کو حدودِ کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے۔ ذرا سا غلو ضلالت کے زُمرے میںآ سکتا۔ ذرا سا عجزِ بیاں اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔ فنِ شعر کے لحاظ سے اس کام کے لیے کمالِ سخن وری اور نفسِ مضمون کے لحاظ سے اس کے لیے کمالِ آگہی درکار ہے۔‘‘(۳)

میرے خیال میں درست نہیں۔


یہ کیسی محبت ہے؟ یہ کیسا اظہاریہ ہے؟ یہ کیسا محب اور محبی ہے کہ جو طے شدہ پیمانوں اور مروجہ خانوں میں اظہارِ محبت کرتا اور اُسے قبول کرتا ہے۔یہ تو عینِ فطرت نہیں۔ جذبے کے خلوصِ بے پناہ کو رائیگانی کے دریا کے سپرد کرنے کا احساس ہی ہو سکتاہے۔یہ کیسی محبت ہے جو محبت ہوتے ہوئے بھی یک دم کفر کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے؟


میرے خیال میں یہ نعت کی شعری محبت کو دنیاوی پیمانوں سے ماپنے کا نتیجہ ہے۔ شاعری بے پایاں اظہارِ محبت ہے۔ شاعری کے اپنے پیمانے اور اصول ہوتے ہیں جو ہر حدود کو اپنے لیے کارآمد بنانا جانتے ہیں۔جنھیں علم ہے کہ کون سا مضمون ، جملہ یا لفظ شعر کی تہذیب میں آ سکتا ہے یا نہیں۔ نعت بھی ایک شعری جذبہ ہے جسے سب سے پہلے شاعری ہونا چاہیے۔ سپاٹ اور غیر رمزی اظہاریہ نعت کے مضمون کو تو بیان کر سکتا ہے مگر سرکارِ رحمت کے حضورشعری نذرانۂ عقیدت پیش کرنے میں پیچھے بھی رہ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے آزاد نظم میںنعت گوئی نے الگ سے شعری امیجری اور تلازماتی کائنات بنائی ہے۔جس میں نعت گوئی محض فنِ اظہار سے آگے نکل کر آرٹ کے درجے پر پہنچ رہی ہے۔ جس میں ہر طرح کے موضوعات نئے نئے اسالیب میں بیان کئے جا رہے ہیں۔

میں تجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں

لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا

حوالہ جات[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

۱۔ حسن عسکری: مضمون ’’محسن کاکوروی‘‘،کلیاتِ حسن عسکری، سنگِ میل پبلشرز لاہور، ۲۰۰۰، ص ۴۰۶

۲۔ مبین مرزا: اُردو نعت کی شعری روایت، مرتب: صبیح رحمانی،اکادمی بازیافت کراچی۲۰۱۶، ص ۴۴۸

۳۔ بیگم صالحہ عابد حسین،ـکلامِ انیس میں ہندوستانیت، مشمولہ ’’اُردو اور ہندوستانی تہذیب‘‘، اُردو اکادمی دہلی،۲۰۱۴، ص ۱۶۶

۴۔ مجید امجد: کلیاتِ نثر مجید امجد، کتاب سرائے لاہور، ۲۰۱۷

٭٭٭