انٹرویو : سحر انصاری ۔ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

22552547 1414849971926102 6847160094441319601 n.jpg

میزبان: عنبرین حسیب عنبر

مطبوعہ : نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 27


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Dr. Umbreen Haseeb interviewed a renowned poet and critic, Professor Sahar Ansari. She had put some questions focusing promotional activities towards genre of Naat. The answers provided by Professor Sahar Ansari are reflective of approach of a seasoned critic on the issues like creativity, research and criticism, pertaining to Naatia Poetry, in perspective of historical back ground of Urdu literature. The out come of interview is depicted hereunder.

انٹرویو : پروفیسر سحرانصاری[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عنبر:گفتگو کاآغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ عالمی مذہبی ادبیات کے تناظر میں حمد ونعت نگاری اورسیرت نگاری (نثر)کوآپ کہاں دیکھتے ہیں؟

سحر انصاری:تمام مذاہب میں جو بھی ان مذاہب کے داعیان رہے ہیں،ان کے پیغمبر رہے وہ ہمیشہ ان ادیان کے لیے،ان مذاہب کے لیے محترم رہے ہیں۔سب اپنے اپنے رسولوں،پیغمبروں اورپیشواؤں کی مدح کرتے ہیں۔ان کی بڑائی،خوبی کوبیان کرتے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں بھی اپنے نبی کریم کی مدحت اوران کی ثناء کوایک عبادت کے طورپر اختیار کیاجاتاہے۔اب یہ بات ہے کہ بہت سے مذاہب میں چند معجزات،چند کرامات اورچند واقعات کوبنیاد بنایاجاتاہے جیسے حضرت عیسیٰ ؑ کی جو سب سے بڑی صفت یا کرامت تھی وہ یہ تھی کہ مردوں کوزندہ کردیتے تھے۔مریضوں کوشفادیاکرتے تھے۔اسی طرح حضرت موسٰی ؑ کاہے کہ انھوں نے فرعون کو شکست دی اوراس کے لشکر کوغرق کردیا۔اسی طرح اوربھی جیسے حضرت یوسف ؑ کاحسُن تھااور جس طرح لوگ کہتے ہیں کہ سری کرشن اور مہاتما بدھ بھی پیغمبر تھے توان کے لیے یہ ہے کہ سری کرشن نے جنگ کے لیے انسان کوروکا محبت کی تعلیم دی،گوتم کے لیے یہ ہے کہ وہ حقیقت کی تلاش میں تخت وتاج کوچھوڑ کرچلے گئے تویہ چند چیزیں ہیں لیکن جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:

حسُنِ یوسف ، دمِ عیسیٰ ، یدِبیضا داری

آن چہ خوباں ہمہ دارند ، تُو تنہا داری

توجتنے پیغمبروں میں آپ کو صفات الگ الگ ملتی ہیں وہ سب مجتمع ہوگئیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس میں۔لہٰذا ان کے لیے جب ہم سیرت کاتذکرہ کرتے ہیں یامدح کرتے ہیں توبہت کچھ کہنے کے باوجود بہت سی چیزیں رہ جاتی ہیں تواتنی وسعت اوراتنی ہمہ گیریت کسی میں نہیں پائی جاتی۔پھراس کے علاوہ ایک بات جوبہت اہم ہے وہ یہ کہ عام آدمی بھی گفتگو کرتے ہوئے کہتاہے کہ یہ بات آف دی ریکارڈ ہے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فرمایاکہ تم نے مجھے خلوت وجلوت میں جس طرح سے دیکھاہے اُسی طرح بے کم وکاست بیان کرو۔تویہ کردار کی اتنی بڑی خوبی ہے کہ کوئی چیز مخفی نہیں ہے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کوپرائیویٹ یاSecretکہاجائے،یہ مجھے ایسی بڑی خوبی لگتی ہے جواور جگہوں پرنظر نہیں آتی ہے۔یہ ایک رُخ ہے میرے دیکھنے کا۔

عنبر:مذہبی ادبیات کی تاریخ میں نعت نگاری(قصیدہ،نعتیہ غزل،نعتیہ نظم) کی کیا اہمیت ہے؟

سحر انصاری:ہرزبان کاجوپہلے مجموعی ادب ہوتاہے اس سے زبان کے استعارے تشبہیات اوردوسری خوبیاں بنتی ہیں۔تشبہیات کوزیادہ ماورائی بنا کرپھر مذہبی حمدیہ،قصیدے اورشاعری کی جاتی ہے اس سے زبان کے امکانات اوراپنے محسوسات کی وسعت کا اندازہ ہوتاہے۔یہ اس کی بڑی اہمیت ہے۔

عنبر:مذہبی شاعری کرنے والے شعراکوہم ایک الگ خانے میں رکھتے ہیں جس طرح مزاح میں اچھا لکھنے والوں کوبھی ہم سنجیدہ لگنے والوں کے ساتھ صف اوّل میں نہیں رکھتے اسی طرح مذہبی شاعری میں بھی ہے کہ ہم جب اردو شاعری کے بڑے شاعر کا ذکر کرتے ہیں توانیسؔ یامحسن کاکوروی کانام نہیں لیتے۔انیسؔ کانام توپھر بھی کہیں آجاتاہے مگر محسن کانہیں۔تویہ بتائیے کہ اس صورت حال میں کیااردو شاعری کی دیگر اصناف کے درمیان نعت یاحمد اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوچکی ہیں؟

سحرانصاری:جی ہاں!اس لحاظ سے کامیاب ہوچکی ہے کہ ایک کمیّت اورکیفیت دونوں میں اضافہ ہواہے اورلوگ اپنی عام گفتگومیں بھی اب نعتیہ اورحمدیہ اشعار اسی طرح پڑھتے ہیں جیسے غزل یا قصیدہ یامثنوی کے اشعار پڑھتے ہیں۔اس لحاظ سے یہ کوشش کامیاب توہوئی ہے۔ایک زمانے میں ایسا نہیں تھا چند اشعار ہی لوگوں کے ذہنوں میں ہوتے تھے لیکن اب اس میں وسعت پیداہورہی ہے۔

عنبر:یہ توہم نے عام لوگوں کی بات کی،کیا ادب کانقاد بھی اب نعت کوادب میں ایک صنف کے طورپر قبول کررہاہے؟

سحر انصاری:ہاں نقاد بھی قبول کررہے ہیں۔لوگ لکھ رہے ہیں اب آپ دیکھیے ناکہ اگر رثائی ادب کوہی لیں تواحتشام حسین،مسعود حسن رضوی،شارب ردولوی جیسے لوگوں نے لکھاہے۔پھر اسی طرح حمد ونعت کے لیے ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق،ابوالخیرکشفی،فرمان فتح پوری اوردیگر نقادوں نے لکھاہے پھر نئے نقادوں میں یعنی ان کے جونقاد آئے ہیں ان میں ڈاکٹر یحییٰ نشیط ہیں۔ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی صاحب ہیں۔عارف عبدالمتین ،جمال پانی پتی،عزیز احسن،کاشف عرفان اوربھی لوگ ہیں جو لکھ رہے ہیں پھر یہ ہے کہ جتنے زیادہ پی۔ایچ ڈی اورایم۔فل کے مقالات لکھے گئے ہیں اتنے توکبھی نہیں لکھے گئے تھے تو اس سے بھی سنجیدہ روی کاپتاچلتا ہے۔

عنبر:اچھا یہ جو ابھی آپ نے بات کی ہے کہ اس طرف رحجان زیادہ نظرآرہاہے تخلیق میں بھی،تحقیق میں بھی اور تنقید میں بھی تو یہ کوئی داخلی تحریک ہے ہماری معاشرتی اورعالمی صورت حال کاکوئی ردعمل ہے یاجیسے کہ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ ماضی میں مرثیے کی طرح اس وقت نعت کو بھی حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے فروغ ملا توکیا اس قسم کاکوئی خارجی عمل بھی شامل ہے یا یہ خالصتاً داخلی تحریک ہے؟

سحرانصاری:نہیں۔ایسی حکومتی سرپرستی توکوئی خاص ہوئی نہیں۔کبھی کبھی سنتے ہیں کہ صاحب سیرت ایوارڈ مل رہاہے تووہ کتنوں کوملتا ہوگابھلا۔اصل چیز یہ ہے کہ ۹؍۱۱کے بعد خاص طورپر جومسلمانوں کودہشت گرد اورتخریب کاروغیرہ کے خانوں میں رکھ کران کے ساتھ زیادتیاں کی جارہی ہیں تواس سے ایک ردعمل پیداہورہاہے اوریہ اندرونی جذبہ ہے جولکھنے والوں کواس طرف مائل کررہاہے۔ عنبر:بہت خوب!عام طورپر کہاجاتاہے کہ نعت ذاتی مسئلہ ہے یاایک مذہبی عقیدت کااظہار ہے تونعت میں تجربے کی کیااہمیت ہے؟

سحرانصاری:تجربے کی توبہت اہمیت ہے۔اس لیے کہ آپ دیکھیے کہ پہلے توغزل،مثنوی یامسدس کاقصیدے کی شکل میں نعت کہی جاتی تھی لیکن بعد میں اوراصناف میں بھی جن میں سانیٹ یاہائیکویاماہیا،آزاد نظم،نثری نظم سب میں نعتیں کہی جارہی ہیں۔

عنبر:لیکن ایسا محسوس نہیں ہوتاکہ بے شک فنّی سطح پر نئی زمین یا نئی نعتیہ ردیفوں یانئی اصناف میں نعت کہنے سے ایک نوع کی تازگی اوروسعت کااحساس توپیداہوتاہے لیکن اس مشق سے انفرادی تخلیقی عمل غیر محسوس طریقے سے آمد سے زیادہ آورد میں تبدیل ہوجاتا ہے؟ سحرانصاری:یہ تو ہرصنف کے ساتھ ہے۔غزل میں بھی یہ بات ہوسکتی ہے لیکن جہاں واقعی جذبہ کام کررہاہے وہاں یہ بات نہیں ہے وہاں بے ساختگی ہے،والہانہ پن ہے جوشاعری کے لیے ضروری ہے۔

عنبر:ٹھیک ہے اردوشاعری کے جدید اسالیبی منظر نامے میں نعت کاکیامقام آپ دیکھ رہے ہیں؟

سحرانصاری:ادب ظاہر ہے کہ اپنی اہمیت رکھتاہے۔اس میں برابر اضافہ ہورہا ہے نئے نئے تجربے ہورہے ہیں۔پہلے ہمارے ہاں ناول کے لیے کہا جاتا تھا کہ اچھے ناولوں کے نام بس انگلیوں پہ گن لیجیے لیکن اب تعداد بڑھ رہی ہے لوگ نئے تجربے کررہے ہیں۔انسان کے علوم میں جیسے جیسے اضافہ ہورہاہے ادب کے موضوعات میں بھی وسعت پیداہورہی ہے اس کااطلاق نعت گوئی پربھی ہوتا ہے۔روایتی انداز سے ہٹ کر مختلف ہئیتوں میں بھی نعت گوئی کی جارہی ہے اوراچھے نمونے پیش کیے گئے ہیں۔اسی طرح موضوعات کوبھی نئی زندگی اورنئے ماحول کے مطابق نعت کاحصّہ بنایا گیا ہے۔

عنبر:اچھا کہتے ہیں کہ اردو میں مذہبی شاعری میں رثائی ادب کو چھوڑ کرحالی اوراقبال جیسے بلند قامت فکری شاعر سامنے نہیں آئے۔ہرچند کے کچھ اساتذہ کے نام نعت نگاری کے حوالے سے ضرور متعارف ہوئے لیکن یہ سب اتنے بلند قامت نہیں ہیں جتنے حالی اوراقبال۔آپ اس بارے میں کیاکہیں گے؟

سحرانصاری:یہ توشاعر کی اپنی عظمت اوراس کی بڑائی کی دلیل ہے کہ وہ ہر صنف میں بڑے تھے۔اب جب اتنی بڑائی دوسروں کے حصّے میں نہیں آئی تومذہبی شاعری میں بھی نہیں آئی۔

عنبر:لیکن پھر بھی ہم اقبال کے بعد فیض کانام لے سکتے ہیں یاجوش کانام شاعری میں لے سکتے ہیں لیکن نعت میں توحالی اوراقبال کے بعد کوئی نام ملتاہے؟

سحرانصاری:ایسانہیں ہے کہ بالکل ہی کوئی نام نہ ہو۔بہت اچھے بھی کہنے والے ہوئے ہیں مگرتوجہ ذراکم ہے۔مثلاً عبدالعزیز خالد کی دوبڑی طویل نظمیں ہیں۔’’فارقلیط‘‘اور’’منحمنا‘‘۔یہ پوری پوری نعت کی کتابیں ہیں۔اسی طرح سے حفیظ تائب ہیں،حنیف اسعدی،نعیم صدیقی،احمد ندیم قاسمی،سرشارصدیقی،سلیم کوثر،افتخار عارف،انورمسعود،اقبال عظیم،راغب مرادآبادی،تابش دہلوی،محشر بدیوانی،منوربدایونی،امجد اسلام امجد،ریاض حسینچودھری ،اعجازرحمانی،رحمان کیانی، صبااکبرآبادی، شاعر لکھنوی وغیرہ نے پورے پورے مجموعے نعت کے پیش کیے ہیں اور بھی کچھ نام ہیں۔پھر نوجوانوں میں صبیح رحمانی کی نعتیں بہت معروف ہوئی ہیں۔توایسا نہیں ہے کہ کوئی ایسا آیا ہی نہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ اُس رتبے کے نہیں ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ایسے ہوں کہ بالکل نظرانداز کردئیے جائیں۔ عنبر:بہت عمدہ۔اردوشاعری کے لسانیاتی تناظرات(لسانیات،ساختیات،پس ساختیات) کے دائرہ کار کی اب نعت کی صنف تک بڑھنے کی امید کی جاسکتی ہے؟

سحرانصاری :بات یہ ہے کہ یہ توکچھ فیشن ایبل ٹرینڈز تھے۔ابھی پچھلے دنوں Jerry Eaglton کی ایک کتاب چھپی ہے After Theoryاُس میں وہ بتا چکے ہیں کہ یہ سارے فیشن اب رخصت ہوچکے ہیں۔اب نہ توکوئی دریداکا نام لے رہاہے، نہ کوئی لاکاں کانام لے رہا ہے، نہ کوئی مثل فوکوکا،نہ کسی اور کا۔تویہ بات ہے کہ یہ ایک فیشن ہوتاہے وقتی طورپر لیکن اُس کاکوئی گہرا اثر نہیں ہے۔اصل چیز یہی ہے کہ انسان کے جذبوں کواُس سچائی کے ساتھ پیش کرنے کاہنر کس کو آتاہے وہ چیز باقی رہ جاتی ہے باقی کوئی لیبل لگانے سے اُس کی کوئی اتنی اہمیت گھٹتی یابڑھتی نہیں ہے۔

عنبر:کیا حمد ونعت کاتیزی سے تبدیل ہوتامنظر نامہ ادب کے کسی نئے فکری منطقے کی دریافت کاپیش خیمہ بن سکتا ہے؟

سحرانصاری:ہاں بن سکتاہے۔اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی بڑی نظم ایسی جیسی دانتے Devine Comedyلکھی تھی اس طرح کا کوئی لکھنے والاہوتو ہوسکتا ہے۔

عنبر:خوب۔اچھا برصغیر میں غزل کی ہئیت میں کہی گئی نعت کونعتیہ نظموں، نعتیہ مثنوی اورنعتیہ قصائد سے زیادہ مقبولیت حاصل رہی ہے اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں؟

سحرانصاری:ظاہر ہے کہ اصناف سخن ہرایک کی پسندیدگی پرمنحصر ہوتی ہیں۔اُس کاکوئی بندھا ٹکا اصول نہیں ہے تو اس لحاظ سے ساری اصناف ہی مقبول ہوتی ہیں۔اب جیسے’’شاہ نامہ اسلام‘‘ہے وہ مثنوی میں لکھاہے پھر اعجاز رحمانی نے جونعت پراورصحابہ کرامؓ پرلکھا ہے وہ مسدس کی شکل میں لکھا ہے تویہ سب مقبول ہیں۔

عنبر:اچھا اردو شاعری اور نثر کے بڑے نقاد ادب کے نعت کی جانب منعقد ہونے اور شعرائے کرام کے جدید علوم ادبیات کے مطالعے کے بعد کیا ہم نعت کے شعراء سے بڑے کائناتی اورآفاقی موضوعات پرقلم اُٹھانے کی اُمید کرسکتے ہیں؟

سحرانصاری:ہاں کیوں نہیں کرسکتے؟اس لیے کہ نعت خود ایک آفاقی موضوع ہے اس کو شخصی یا ذاتی آپ کیوں سمجھتے ہیں؟یہ ایک آفاقی موضوع ہے اوراس میں بڑے امکانات ہیں۔جیسے فارسی میں آپ دیکھیے کہ مرزاغالب نے جو’’ابرِگوہر بار‘‘جیسی مثنوی لکھی ہے یا بیدل کی مثنوی ہے تواس طرح سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں ابھی وہ بات پید انہیں ہوئی ہے لیکن ہوسکتی ہے۔

عنبر: بالکل درست۔عام طورپرہمارے ہاں جو نعت کہی جاتی ہے بلکہ عام نظم کے لیے بھی یہی کہاجاتاہے کہ وہ غزل کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی ہے توکیانعت اب غزل کے اثرسے باہرنکل رہی ہے؟

سحرانصاری:ہاں،ہاں،ابھی میں نے عرض کیا ناں کہ جیسے مثنوی میں کہا گیا ہے اورمسدس میں کہاگیا ہے بلکہ اعجاز رحمانی نے توچارجلدوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اورصحابہ کرامؓ کے لیے لکھی ہے تواُس فارم اوراُس ہیئت سے آگے نکل چکی ہے نعت۔ عنبر:کیا نعت بحیثیت صنف ادب اپنے اندر اتنی وسعت اورقوت رکھتی ہے کہ بڑے کائناتی سوالات اس میں سماسکیں؟

سحرانصاری:یقیناًسماسکتے ہیں اگرلوگ ان کوسوچیں۔اس لیے کہ جو معراج کاواقعہ ہے اوراب جوکائنات کی وسعتوں میں انسان جارہا ہے نئی دینائیں تلاش کررہاہے توجوحنیف اسعدی صاحب نے کہا کہ:

آپ ان کے لیے بھی رحمت ہیں

جو زمانے ابھی نہیں آئے

توابھی تو آپ چاند پرجارہے ہیں،مریخ پرجارہے ہیں،زہرہ پرجارہے ہیں وہاں جاکے آپ اس دین کوکس طرح پھیلائیں گے اورکیا ہوگا اس کے امکانات توہم ابھی سوچ بھی نہیں سکتے۔

عنبر:کیانکتہ بیان کیا ہے واہ۔اچھا!جب ہم غزل کہہ رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تخلیقی عمل ایک بڑاپیچیدہ عمل ہے جسے بیان کرنا یا اُس کی وضاحت ممکن نہیں لیکن وہ ایک عجیب کیفیت ہے ایک تخلیقی وفور ہے لیکن جب ہم نعت کہہ رہے ہوتے ہیں تواُسی وقت بہت محتاط روی کی ضرورت ہے کہ غلونہ ہو،مقام رسالت سے تجاوز نہ ہوجائے،اُس مقام کادرست ادراک ہوناچاہیے پھر لفظیات ایسی ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شایانِ شان ہوں تو یہ جواتنی احتیاطیں ہیں کیا یہ احتیاط پسندی غزل کے روایتی کلاسیکی شاعر کونعت کہتے ہوئے کسی طرح کے فکری یافنی جمود کاشکار تونہیں کردیتی؟

سحرانصاری:نہیں ایسا نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل میں بھی آپ اس بات کاخیال رکھتے ہیں کہ اتبذال نہ ہو،عیب تنافر نہ ہو،معنوی یالفظی لحاظ سے تعقید نہ ہو۔یہ چیزیں توغزل کہتے وقت بھی آپ پیشِ نظررکھتے ہیں کہ کوئی چیز متبذل نہ ہو،کوئی بات اخلاقیات یاہمارے عام معاشرے کے معیارات کے خلاف نہ ہو توان ساری باتوں کاخیال توہم غزل میں بھی رکھتے ہیں۔تواب اگر نعت میں بعض باتوں کاخیال رکھتے ہیں تواس سے تخلیقی قوت پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔صرف بنیادی بات یہ ہے کہ لکھنے والے کی قوت تخلیق کیاہے۔

عنبر:یہ بہت اہم بات کہی آپ نے،اکثر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ غزل کہتے ہوئے توپوری آزادی ہوتی ہے اورنعت کہنا بڑامشکل ہے کیوں کہ بے حد پابندیاں ہیں۔

سحرانصاری:نہیں نہیں بالکل غلط ہے غزل کہنے میں بھی بہت سی پابندیاں اوراحتیاطیں پیشِ نظر رہتی ہیں۔

عنبر:کیا نعت کے روایتی نقاد کی جانب سے خاص قسم کی روایتی تنقید نعت کی موضوعاتی وسعت میں رکاوٹ پیداکررہی ہے؟

سحرانصاری:روایتی تنقید کاکوئی ایسا خاص اثرنہیں ہے۔لوگوں نے توآپ دیکھیے کہ چاہے وہ فیشن کے طورپرہی تھا لیکن جونئے خیالات آئے ساختیات پس ساختیات یامابعد جدیدیت کوبھی لوگوں نے اپنایا ہے اوراُن کے اصولوں کے تحت نعت گوئی کوزیر بحث لائے ہیں تویہ لکھنے والے پرمنحصر ہے ورنہ کوئی رکاوٹ نہیں بنتی نئی تحریکیں یانئے خیالات یامضامین کوادا کرنے میں یاان کا تنقیدی جائزہ لینے میں۔

عنبر:اچھا،ہم ساختیات پس ساختیات اورجدیدیت وغیرہ پربات کر رہے ہیں توہم کچھ ترقی پسندی پربھی بات کرلیتے ہیں۔

سحرانصاری:جی ضرور کیجیے کس نے منع کیا ہے۔

عنبر:جب ہم ترقی پسند نقاد کی بات کرتے ہیں تواُن کے لیے ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ مذہب سے دورہوتے ہیں خصوصاً خداکے وجود کے بارے میں ان کے ہاں ایک تشکیک پائی جاتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے معاملے میں ان کارویہ کیاہے؟

سحرانصاری:دیکھیے جوکہاگیاہے ناں کہ باخدا دیوانہ باش وبامحمد ہوشیار۔

تویہ تومسلک ہے کہ خدا کے بارے میں توسوالات اٹھ سکتے ہیں کیوں کہ روزمرہ کی زندگی میں انسان کبھی بہت زیادہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو نعمتوں سے نوازا جارہاہے کبھی وہ سمجھتا ہے کہ اُس کے ساتھ کوئی حق تلفی ہورہی ہے، وہ توDay to Day یاروزمرہ کامعاملہ ہے اللہ تعالیٰ سے ۔اس سے شکایت بھی ہوتی ہے اس کاشکر بھی ہوتاہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی جوذات ہے اس میں اس طرح کی کوئی گنجائش یااس طرح کاکوئی پہلو نہیں ہے تواس لحاظ سے جب بھی کوئی ذکر کر ے گا تو ظاہرہے ان کے شمائل،فضائل ان کی زندگی کاجوحاصل رہاہے جوکارنامے انھوں نے سرانجام دیئے ہیں چوں کہ اُن میں کہیں کوئی ایسی کوتاہی نظرنہیں آتی کہ کوئی کہے کیوں کہ آخر میں جب کہا گیا کہ اب تمہارے دین کومکمل کردیاگیاہے۔ ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط‘‘توانھوں نے اپنی ذمہ داری جس طرح پوری کی اس کے بعد کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی کسی طرح کی بھی لہٰذا سوائے عقیدت اورمحبت کے اورکوئی اورجذبہ تو پیدا ہوتا ہی نہیں ہے۔

عنبر:اچھا!کیا نعت پرسائنس اورمنطق کے اثرات کے بعد معنوی سطح پراسے کائناتی تفہیم کے لیے استعمال کیاجاسکتاہے؟

سحرانصاری:جی ہاں کیاجاسکتاہے جیسے اقبال نے بھی کیا کہ:

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

یااسی طرح[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید

کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں

توظاہرہے کہ یہ کنُ فیکوں کاپیغام بھی توحضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی لائے تھے ناں،تویہ بھی انسان سمجھتا ہے کہ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے ابھی بڑے امکانات ہیں اس میں۔

عنبر:کیاموجودہ عہد کی نعت انسان دوستی کے عظیم نظریے کوحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت کے تناظر میں پیش کررہی ہے؟

سحرانصاری:بالکل کررہی ہے۔انسان دوستی کے نظریے کوبرابر پیش کررہی ہے۔اسی کانتیجہ ہے کہ جوغیرمسلم ہیں انھوں نے بھی نعتیں کہی ہیں بڑی تعداد میں کہی ہیں توانسان دوستی کارخ تواس میں ہے۔

عنبر:اچھا،نعت ظاہرہے کہ جذبے اورعقیدت کے باہم ملاپ سے کہی جاتی ہے ایسے میں غیرمسلم شعراکی نعت کی کیااہمیت ہے جس میں عقیدت توہے مگر عقیدہ نہیں ہے؟

سحرانصاری:ظاہرہے کہ انسان کسی چیز کوجب پڑھتاہے تواس کی تھیم،اس کے موضوع سے متاثر ہوتاہے پھریہ کہ کوئی چیز آپ پڑھتے ہیں جیسے غیرملکی ناول یاڈراما بھی پڑھتے ہیں مثلاً ’’ہیملٹ‘‘پڑھتے ہیں توہیملٹ کے کردار میں جوکچھ بھی ہے تواس کااثر آپ پربھی ہوتاہے آپ محسوس کرتے ہیں کہ ہاں انسانی شخصیت اس طرح ہوسکتی ہے تواس طرح سے ایک اکیڈمک یاعلمی انداز سے تعلق یامتاثر ہوناہوتاہے۔وہ اسے اس حد تک قبول نہیں کرتے کہ اپنے مسلک یااپنے دین کو تبدیل کریں۔

عنبر:ٹھیک ہے۔اچھا جدید نعتیہ شاعری کی کون کون سی خوبیاں ایسی ہیں جوآپ کولگتا ہے کہ بڑی متاثرکن ہیں اور ان مقامات پرمزید توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟

سحرانصاری:نعت گوشعرانے جونئے نئے موضوعات تلاش کیے ہیں ان میں پہلے تو صرف اس طرح باتیں تھیں جویقیناًبہت اہم ہیں کہ زلفوں کی تعریف ہے،قدوقامت کی تعریف ہے،آنکھوں کی تعریف ہے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے اسوۂ حسنہ کی تعریف ہے لیکن اب لوگ ان سے ذرا سااورآگے بڑھ کرزیادہ ترآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی انسانی صفات کو بیا ن کررہے جن میں بشریت کاعنصر زیادہ ہے تاکہ لوگ ان کی پیروی کرنے میں یہ محسوس نہ کریں کہ ارے ہم یہ کیسے کرسکتے ہیں ہم تو انسان ہیں لیکن دراصل توایسانہیں ہے وہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انسانوں کے لیے ایک نظامِ زیست لائے تھے تواسی کواپنانے میں انسان کی فلاح ہے۔ان موضوعات پراب زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔

عنبر:جب ہم کسی شاعر سے جو غزل یانظم کہہ رہاہو کچھ مطالبات کرتے ہیں کہ اس کا مطالعہ ہوناچاہیے اس نے کلاسیکل ادب کو پڑھا ہوا ہواردو ادب کے علاوہ دیگر زبانوں کاادب بھی پڑھ سکے توپڑھے تاکہ اوروسعت پیداہو۔نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟

اورکیاعصرِحاضر کے نعت گوشعراان تقاضوں کوپورا کرتے نظر آتے ہیں؟

سحرانصاری:(سوچتے ہوئے)کم کم۔یعنی جن کا شاعری میں بھی مطالعہ ہے اور جومقام رکھتے ہیں انھی کی نعتوں میںآپ گہرائی بھی نظرآئے گی ورنہ وہی جو چلتے ہوئے مضامین ہیں انھی کو زیادہ تر نظم کیاجارہاہے لیکن اس کے لیے اگر آپ نے’’سیرت ابن ہشام‘‘پڑھی ہو،آپ نے’’سیرت النبی‘‘مولانا شبلی کی پڑھی ہے یا اورکتابیں پڑھی ہیں یاقرآن کریم کامطالعہ کیاہے تو اس طرح کی تمام چیزوں کے مطالعے کے بعد جو کہی جاتی ہے اس کامعیار،اس کامرتبہ کچھ زیادہ بلند ہوتاہے تواس کی طرف کاوش یہی کرنی چاہیے کہ سامنے کے مضامین کوہی ادانہ کریں بلکہ اس میں جوفکر کے پہلو ہیں جوایسی نمایاں چیزیں ہیں کہ جن میں علم الکلام بھی آجاتاہے جس میں حضوراکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ تعلیمات آجاتی ہیں کہ جن سے انسان کی فلاح وبہبود کے لیے اور تسخیر کائنات کے لیے راستے کھلتے ہیں ان سب کی طرف ذراتوجہ زیادہ دینی چاہیے۔

عنبر:ابھی جیسے کہ آپ نے کہا کہ چلتے ہوئے مضامین لوگ زیادہ لکھتے ہیں تو کیااس کاایک سبب یہ نہیں کہ چاہے وہ مرثیہ ہو یانعت ہووہ سمعی سرگرمی ہے اوروہی مرثیہ یانعت پسند کی جاتی ہے جوعوام میں مقبولیت حاصل کرلے۔اچھا مرثیے میں توہمارے سامنے مثال موجود ہے کہ دبیرؔ کی شاعری، کتاب کی شاعری ہے تواُس شاعری کی مقبولیت نہ حاصل ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عمدہ کاوش کے باوجود اس کی سطح اس کی مقبولیت میں رکاوٹ ہے توکیانعت میں بھی ایساہورہاہے کہ چوں کہ یہ ایک مجلسی عمل ہے تواس کے لیے لوگ فکری مسائل یا بڑی شاعری اوربڑے موضوعات کی طرف جانے سے کتراتے ہیں اورایسے چلتے ہوئے مضامین ہی لکھتے ہیں کہ عوام میں پذیرائی اورمقبولیت حاصل ہوجائے۔

سحرانصاری:نہیں اس میں ایسا نہیں ہے بات یہ ہے کہ سامعین کی اپنی حیثیت سے اس کاتعین ہوتاہے۔جوسامع ادبی لحاظ سے یاعلمی لحاظ سے اس معیار کے نہیں ہیں تووہ فلمی گانوں پربنائی گئی نعتوں پربھی جھومنے لگتے ہیں اورجوپاکیزہ ذہن رکھتے ہیں وہ اس سے کراہیت محسوس کرتے ہیں کہ بھئی یہ نعت میں فلمی دُھن کہاں سے آگئی ہے۔تویہ فرق ہے معیارِ سماعت کا۔

عنبر:یہ بالکل درست بات ہے۔اچھا،نعت کی روایت بڑی قدیم ہے خودقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مدحت سرا ہے پھر حضرت حسان بن ثابتؓ،جامی اور پھرفارسی روایت کے بعد برصغیر پاک وہند میں بھی نعت کی روایت بڑی بھرپور رہی ہے نعت نگاری کی ایک نئی روایت جوقیام پاکستان اورخصوصاً ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہمارے ہاں پروان چڑھی اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

سحرانصاری:اس سے موضوعات کووسعت ملی ہے پھربیان کے اندر زیادہ سماعت اورروانی ہے، زیادہ کشش پیداہوئی ہے جوپرانی نعتوں میں ذراکم ہی نظرآتی ہے اورنئے لہجے کی طرف توجہ ہوئی ہے۔

عنبر:اچھاعصرِحاضر میں نعت گوئی کے جواسالیب اورمضامین ہیں ان کی روشنی میں مستقبل کی نعت نگاری کے کیاخط وحال بنتے نظرآرہے ہیں؟

سحرانصاری:بہت بہتر خط وخال بنتے نظر آتے ہیں اس لیے کہ ظاہر ہے جب ایک سفر پرلوگ روانہ ہوئے ہیں تویہ راستہ زیادہ سے زیادہ کشادہ اور ہموار ہوتاچلا جائے گا۔اورپھر بہتر سے بہتر کہنے کے امکانات ہیں۔

عنبر:ٹھیک ہے مگرایک وقت تھا جب ہم اگرصرف کراچی میں ہی دیکھیں توتابش دہلوی،بہزاد لکھنوی،محشربدایونی،حنیف اسعدی،سرشار صدیقی خودآپ اوربہت سے سینئر ایسے لکھنے والے تھے جوعمدہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے اورنعت کی طرف توجہ کررہے تھے۔اب نئے لکھنے والوں کی صورت حال کیاہے؟

سحرانصاری:نئے لکھنے والے کم توجہ دے رہے ہیں اس طرف۔اندازہ یہی ہو رہاہے کیوں کہ جب میں دیکھتاہوں تولوگ غزل اورنثری نظم میں توبڑے تجربوں کی طر ف مائل ہیں لیکن نعت گوئی کی طرف ان کا رحجان اتنا نہیں ہے۔صرف وہ شعرا جن کو جیسے ہمارے قمروارثی ہیں یا اورلوگ ہیں جو نعتیہ محافل یامشاعرے کرتے ہیں تووہ کوئی موضوع دے کر یامصرع طرح دے کر یاکوئی ردیف قافیہ دے کر نعت کہلواتے ہیں تویقیناًوہاں توتازہ نعتیں سُننے میں آتی ہیں لیکن اپنے شوق سے کہنے کا رحجان اتنا نہیں ہے جتنا کہ دوسری اصناف میں پایاجارہاہے آج کل۔

عنبر:اس کی وجہ کیاسمجھتے ہیں آپ؟کیا اس کی وجہ یہ تونہیں کہ جس طرح ہمارے ہاں مدارس میں پڑھنے والوں کواسکول میں پڑھنے والوں سے بہرحال کم ترسمجھا جاتاہے یہ ایک حقیقت ہے،تو کیا نعت کہنے والوں کایانعت پرریسرچ کرنے والے یا نعت پرتنقید کرنے والوں کو بھی توادب میں کوئی کم تردرجہ نہیں دیاجاتا؟

سحر انصاری:کم تردرجہ تونہیں ہے لیکن ظاہر ہے نعت خوانی کوبھی ایک پروفیشن بنالیاگیا ہے تواس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح اصناف میں ہے کہ جیسے مرثیہ گوآتے ہیں یامنبر پرلوگ آکرتقریر کرتے ہیں تواپنا معاوضہ لے کرچلے جاتے ہیں اسی طرح نعت پڑھ کر اورمیلادپڑھ کر چلے جاتے ہیں تووہ گویا عقیدے اورثواب کمانے کا ایک رخ بن گیا ہے اُ س میں زندگی کا وہ تجربہ شامل نہیں ہورہاہے جوکہ ہوناچاہیے یاابھی جن لوگوں کے نام آپ نے گنائے ہیں ان کی زندگی کے تجربے میں یہ چیز شامل تھی جواب کم کم نظرآرہی ہے۔ عنبر:ٹھیک ہے۔محسوس یہ ہوتاہے کہ شعرا تنقید سے بچنے کے لیے خود کوEasy Zone میں رکھناچاہتے ہیں کیوں کہ پہلے تو نعت پرتنقید کوحرام ہی سمجھا جاتا تھا جودل چاہے آپ کہتے رہیے تواب جب سے نعت میں بھی تنقید رواج پاگئی ہے یوں لگتاہے جیسے شعرا نے چند موضوعات اورچند مضامین تک خود کومحدود کرلیاہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس اورفضائل ورحمتوں کی تونہایت ہی نہیں ہے توآپ کے خیال میں ایسے کون سے نئے مضامین ہیں جونعت نگاری میں شامل ہونے چاہیے ہیں۔

سحرانصاری:نئے مضامین میں ایک توحضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی انسان دوستی اُن کے ہاں جورواداری ہے مسلک کی ایک بہت وسیع میدان ہے زندگی کا آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی زندگی کو بھی انھوں نے اہمیت دی ہے جوحقوق العباد پرسب سے زیادہ توجہ دی ہے ان موضوعات کولوگ زیادہ نہیں لاتے یہ زیادہ ضروری ہیں۔

عنبر: ابھی آپ نے کہا اور بحیثیت مسلمان ہم سب جانتے ہیں کہ حضوراکرمصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کامسلک بہت وسیع ہے لیکن ہمارے ہاں جومسلک اورنظریات بڑھتے چلے جارہے ہیں اوراس میں ایک شدت پسندی محسوس ہونے لگتی ہے۔وہ شدت پسندی اب نعت گو شعرا میں بھی محسوس ہوتی ہے بلکہ ان کے اشعار بھی ایک دوسرے پریوں کہیے کہ فتوی لگانے والی صورت حال میںآرہے ہیں۔یہ رویہ نعت نگاری کاکیا نقصان پہنچا سکتاہے؟

سحرانصاری: اس سے نقصان تونہیں ، فائدہ ہی پہنچ سکتاہے میرے خیال میں اس لیے کہ دوسرے سے بہتر کہنے کی کوشش کریں گے اورجن موضوعات کوانھوں نے چھیڑ دیا ہے ان کواوربہتر طریقے سے پیش کرنے کی طرف بھی متوجہ ہوسکتے ہیں تویہ کوئی غلط رویہ نہیں ہے اچھا ہے۔

عنبر:اچھا،معاشرے میں ہمارے ایک شدت پسندی آرہی ہے اورمحسوس یہ ہوتاہے کہ یہ شدت پسندی لفظیات سے آغاز ہوئی جہاں یہ کہہ دیا گیا تھاکہ صرف اللہ کالفظ استعمال ہوخدا کالفظ استعمال نہ کیاجائے یامسجد کوانگریزی میںMousque نہیں Masjidلکھا جائے تویہ جومذہبی شدت پسندی ہے اورہرمذہب کے لوگ اس شدت پسندی کا شکار ہورہے ہیں تواس کا نعتیہ ادب پرکیااثر پڑے گا؟

سحرانصاری: اس کا اثرنعتیہ ادب پرضرور پڑ ے گا اس لیے کہ جولوگ ان تفریقات کوروارکھتے ہیں وہ اپنے لحاظ سے نعت لکھیں گے تواثر پڑے گااورمیرے خیال سے یہ اثراچھا نہیں ہوگا اس لیے کہ اب آپ یہی دیکھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار ایک نام ہیں مختلف زبانوں میں تواگر گاڈ کہہ دیا جائے یاخدا کہہ دیاجائے تواس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کے تصور سے ہٹ رہے ہیں ورنہ ویسے دیکھیں تواللہ بھی عبرانی لفظ ہے جوایلہ سے آیاہے ایلا،اللہ تویہ کہ اس کے توبہت سےEtymology یعنی لفظوں کی تاریخ اوراُن کی انشقاق وغیرہ کی بحث چلے گی جولسانیات کاایک بہت بڑاشعبہ ہے تواس طرح آسانی سے یہ طے نہیں کیاجاسکتا۔یہاں توصورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ لوگ حلیم کو بھی کہتے ہیں کہ دلیم کہاجائے۔اب اُن کو یہ نہیں معلوم کہ بھائی حلیم توایک عام لفظ ہے اگر آپ الحلیم کہیں گے تواس کے ساتھ’’ ال‘‘ لگائیں گے تووہ Define Article ہے وہ خداتعالیٰ کی صفت کی طرف اشارہ کرسکتاہے توالحلیم توکوئی نہیں کہتاہے تویہ سب ایسی باتیں جن کو کہاگیاہے کہ یہ اُمت خرافات میں کھوگئی ہے توحقیقت یہ ہے کہ منزل وہ آگئی ہے اُ س وقت توشاید اتنی نہ کھوئی ہولیکن اب ضرورکھوگئی ہے خرافات میں۔

عنبر: اچھا اسی طرح ایک مضحکہ خیز صورت حال وہاں نظرآتی ہے جب شعرائے کرام مدینے کوجنت پرفوقیت دیتے نظرآتے ہیں توایک تواللہ تعالیٰ خودفرمارہاہے کہ:’’ اے ایمان والو!جنت کی طلب کیاکرو۔‘‘اور یہ بھی سوچیے کہ جس نبی سے محبت کے دعوے دار ہیں وہ تو جنت میں ہوں گے اورآپ اُن کے قرب سے محروم مدینے میں رہیں گے کیا؟

سحرا نصاری:غلط ہے یہ۔ا س میں یہ مبالغے کی حدتک ہے کہ کسی چیز کو اتنی زیادہ اہمیت دے دی جائے کہ پھراہم اور اصل چیز کو کم کردیا جائے بس یہ مبالغہ ہے۔

عنبر:یہ بتائیے کہ نعت کہنے والا جب مدحتِ رسول میں شریک ہوتا ہے تو اپنے زمانے میں اپنے عہد سے بھی نعت کا ایک فکری رشتہ استوار کرتاہے۔عصرحاضر میں شعرا اس کاکتنا التزام کرتے محسوس ہوتے ہیں؟

سحر انصاری:ظاہر ہے کہ کچھ شعراتوالتزام کرتے ہیں مگرزیادہ ترتوہمارے شعرا کا عموماًمطالعہ ہی بہت محدود ہے چاہے نعت ہو یا غزل ہویانظم ہو۔کوئی بہت بڑا تجربہ،کوئی بہت بڑی فکر اس لیے نہیں آتی مطالعہ ہی نہیں ہوتاہے۔آپ اگر ذکرکرتے ہیں اقبال یا حالی کاتو ان لوگوں کامطالعہ توبھئی بہت وسیع تھااب یہاں تو اس کی طرف لوگ توجہ ہی نہیں کرتے اورجب سے یہ آپ کاانٹرنیٹ اوریہ موبائل وغیر ہ آیاہے تواب تواتنے خودکفیل ہوگئے ہیں کہ کتاب کوسنبھالنا بھی ان کے لیے اب دشوار ہوگیاہے تواس لیے آپ جتنا دور ہوتے جائیں گے مطالعے سے علوم دنیاوی سے اورعلوم دینوی سے اتنا ہی آپ کے ہاں اظہار میں کم تری پیداہوتی جارہی ہے تووہ نظرآرہاہے اس وقت۔زیادہ ترلوگوں کویہ ہے ہم نے ابھی کاتاہے ابھی لے دوڑیں،ابھی دوشعر کہے ابھی اُسے فیس بک پرلگادیا تواس کی داد مل گئی بس ختم ہوگیا قصّہ۔توجہاں یہ حال ہو وہاں آپ کسی Permanentیاکسی بڑے پائیدار قسم کے اقدار کی بات کررہے ہیں تواس وقت تواقدار بالکل مشروم اقدار ہیں جن کی جڑیں بہت ہی ڈھل مل سی جڑیں ہیں ابھی گہری جڑیں ہوئی نہیں ہیں ان چیزوں کی۔یہ ہے ایک سبب اس کا۔

عنبر:مشروم توبارش میں کئی نکل آتے ہیں۔

سحرانصاری:ہاں یہی توہے بس۔

عنبر:آنے والے دورمیں نعت نگاری کاانداز کیاہوگا؟کیاموجودہ دورکسی ایسی پائیدار روایت کی ابتدا کرچکاہے جوآنے والے دور کے لیے واقعی مشعل راہ ہویا اب تک ایسا نہیں ہوسکاہے؟

سحرانصاری:نہیں میرا خیال ہے کہ ایسا ہواہے کیوں کہ جب بڑی اچھی تنقیدیں لکھی گئی ہیں اورکچھ نئے انداز کی کتابیں بھی آئی ہیں۔سیرت نگاری کے بھی نئے اصول سامنے آئے ہیں توایک فضا توبنی ہے ایک خاصا بڑاادب اپنی کمیّت میں پیداہواہے اورجب لوگ اسے پیشِ نظر رکھیں گے تواس سے استفادہ کی صورت نکلے گی۔

عنبر:کیاجدید تنقید نعت کی پرکھ کے حوالے سے زیادہ سودمند ثابت ہوسکتی ہے؟

سحرانصاری:ہوسکتی ہے مگر فیشن ایبل طریقے سے نہیں ہوسکتی۔اس کے معیارات تووہی ہونے چاہیے جوکلاسیکی معیارات ہیں۔ عنبر:ٹھیک،ایک دور میں نعت کے حوالے سے بڑی تحریک چلی کہ حنیف اسعدی صاحب،آپ اوردیگر لوگوں کاکہنا یہ تھا کہ نعت میں صرف’’آپ‘‘کالفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے لیے استعمال کیاجائے تم اورتُو کالفظ رسول اللہ کے لیے استعمال نہ ہو جب کہ ابوالخیر کشفی صاحب اوردیگر حضرات کے اپنے دلائل تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ نہیں تم اور تُو بھی استعمال ہوسکتا ہے اوراُس استعمال میں خدانخواستہ کہیں توہین کاکوئی شائبہ ذہن میں نہیں ہوتاہے توایک تویہ بتائیے کہ یہ تحریک کیاتھی اوراس کے پیچھے کیانظریہ تھا کہ کیوں ’’آپ‘‘ہوناچاہیے؟

سحرانصاری:دیکھیے!ایک تویہ ہے چوں کہ فارسی میں’’تو‘‘ کالفظ استعمال ہوتاتھا تواردو میں بھی’’تو‘‘کالفظ استعمال ہونے لگا اورپھر یہ کہ اُس زمانے میں چوں کہ فارسی میں بادشاہ کوبھی تُواورتیرا کے القاب سے یاد کیاجاتاہے توخداکوبھی اوررسول کوبھی۔لہٰذا اردو والوں نے بھی اس کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی لیکن آگے چل کرجب آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں پراللہ میاں آپ فرمائیے اوراس طرح سے ہمارے مذہبی لوگ اللہ تعالیٰ کواس طرح یادکرتے ہیں جیسے بزرگوں کویادکرناچاہیے احترام کے ساتھ تو اس کااثر یہ ہواکہ نعت کے لیے بھی یہ بات ذہن میں آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کریں یازیادہ سے زیادہ ’’تم‘‘کالفظ استعمال کرلیں لیکن’’تُو‘‘لفظ جوہے وہ ان کے شان کے خلاف لگتاہے۔تویہ اپنے اپنے مسلک پرہے یہ کوئیHard and Fast Rule نہیں ہے کہ صاحب ’’تُو‘‘نہ لکھاجائے لکھیے جس کاجی چاہتاہے لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ آپ کے علاوہ بھی کوئی اورصیغہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے لیے استعمال ہوناچاہیے۔اب جونہیں سمجھتے یہ اُن کی صوابدید پرہے وہ لکھیں۔

عنبر:بہت خوب!آپ کے جواب نے وہ سنجیدہ معاشرہ یاد دلایادیاجس میں ایسے ادبی مباحث ہوتے تھے جوعام شاعری اورمذہبی شاعری کے حوالے سے بھی ہوتے تھے۔اب یہ سنجیدگی مجموعی طورپر ادب اور معاشرے میں نظر نہیں آتی اس کی بنیادی وجہ کیاہے؟

سحرانصاری:اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں قوتِ برداشت اورتحمل کی کمی ہوگئی ہے اوریہ صرف ادب کے معاملے میں نہیں بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں عدمِ تحمل اورقوتِ برداشت کی کمی کے مظاہرے عام ہوتے رہتے ہیں۔پھریہ ہے کہ اُس زمانے میں شعراکو خودپراعتماد بھی بہت تھا اوروہ سمجھتے تھے کہ تنقید کرنے سے یا کسی چیز میں منفی رائے دینے سے اصلاحِ احوال پیداہوتی ہے۔یہاں تک کہ لوگ برسرِمشاعرہ ٹوک دیتے تھے یااس انداز سے مصرعہ دہراتے تھے کہ شاعر کوخود اپنی کوتاہی کااحساس ہوجاتاتھا۔مثلاًآتش نے ایک مشاعرے میں مصرعہ پڑھا:

ع نیل کا گنڈا پنھایا نرگسِ بیمار کو

ناسخ نے دہرایا’’نیل کاگنڈا‘‘کیاکہنے۔پھرپڑھیے۔آتش نے فوراً مصرعہ بدل کریوں پڑھا:

ع نیل گوں گنڈا پنھایا نرگسِ بیمار کو

آج کل کے شعرا سمجھتے ہیں کہ اگرکسی غلطی کی طرف اشارہ کیاگیا تو یہ اُن کی شان میں گستاخی کے مترادف ہے۔

عنبر:یقیناًیہی صورت حال ہے۔اچھا آخری سوال۔نعتیہ ادب میں آپ کس شاعر کوسب سے بڑا شاعر مانیں گے اورکن بنیادوں پر؟

سحرانصاری:محسن کاکوروی کومیرے خیال میں نعت کاسب سے بڑاشاعر کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اُنھوں نے اس میں تجربے بھی بہت کیے ہیں اوراُنھیں مقبولیت بھی بہت حاصل ہے۔اُس کے بعدمقبولیت کے لحاظ سے امام احمد رضاکانام لے سکتے ہیں اُن کا نعتیہ کلام اپنی کمیّت میں بھی زیادہ ہے۔پھر امیرمینائی ہیں۔ تویہ نعت کے بڑے نام ہیں۔