الغیاث۔ محبت و عقیدت کی زبان ۔ ڈاکٹر احسان اللہ طاہر

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


تحریر: ڈاکٹر احسان اللہ طاہر

اپنے ادارے کی نعتیہ سرگرمیاں، کتابوں کا تعارف اور دیگر خبریں بھیجنے کے لیے رابطہ کیجئے۔Email.png Phone.pngWhatsapp.jpg Facebook message.png

Youtube channel click.png

اردو نعت آئے دن نت نئے انداز میں سامنے آرہی ہے۔ صنفی و ہیئتی اور اسلوبیاتی تجربات سے ہٹ کر اب اس میں فکری حوالے سے جدت آ رہی ہے۔ ہر نئی تخلیقی نعتیہ کتاب ایسے موضوعات لئے ہوئے ہوتی ہے کہ دل سکون اور راحت پاتا ہے۔ آنکھوں میں چمک آتی ہے کہ ہمارے نعت گو شعراء روایت سے آگے نکل کر ایک نئی روایت کی بنا ڈال رہے ہیں اور وہ روایت غور و فکر اور محبت و عقیدت کو عمل کے معنی دینے کی روایت ہے۔ نعت اب صورت سے بڑھ کر سیرت کی باتیں کرتی ہے اور وہ بھی جدید دور کے تقاضوں کو مدّنظر رکھ کر۔جدید اردو نعت کے روشن امکانات اب جدید اور سلجھے ہوئے وسیع مطالعہ کے مالک عربی و فارسی اور اردو شاعری کی مکمل روایت سے شناسا لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ نعت گو نعت خوانوں نے جو عامیانہ سا ماحول بنا رکھاہے وہ جلد ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔یہ بات میں "الغیاث" کے مطالعے کے بعد بڑے وثوق اوریقین سے لکھ رہا ہوں۔ عروس کی نعت کو پڑھ کر نصیر و رضا کی فکری بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ہم اپنے آپ کو ظفر علی خاں و محسن کاکوروی کی نعتوں کے ماحو ل میں سانس لیتا محسوس کرنے لگتے ہیں۔بلکہ بعض اشعار تو مذکورہ شعراء کی نعتوں کی سلیس نظر آتےہیں مگر اندازِ بیاں کی انفرادیت تخلیق کے حسن کو بھی نمایاں رکھتی ہے۔ اور تخلیق کار کے رنگِ مدحت کو بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ٹھہراتی ہے۔ موصوف کے دو مضامین دیکھیں کہ کیسے عالمانہ انداز ٹھہری ہوئی طبیعت کے ساتھ اور جذبات میں توازن رکھتے ہوئے محبت و عقیدت کو زبان دیتے ہیں۔

فضلِ حق سے نمک حلال ہیں ہم

جن کا کھاتے ہیں ان کا گاتے ہیں

جن کے دل میں نہیں محبتِ دیں

سرورِ دیں کا دل دکھاتے ہیں

نورِ حبِ نبی سےچہروں کے جگمگانے کی باتیں کرنے والا عروس، ساقئ کوثر کی ترکیب سے آگے بڑھ کر شاہِ کوثر کا نام لے کر روح کی تشنگی مٹانے کی باتیں کرتا اپنے نئے پن کے ساتھ اردو نعت میں "الغیاث" کے ساتھ حاضر ہوا ہے۔ مگر اس حاضری سے پہلے اس نے عشقِ رسالت اور حب رسول سےبھری ہر کتاب کواپنی روح میں اتارا ہے کہ اپنے عشق کو تازگی دے کر بات حوالوں سے کر سکے۔ اگر ہم صاحبزادہ نجم الامین عروس فاروقی کی نعت کےمآخذ ومصادر تلاش کرنا چاہیں تو وہ ہمیں قرآن و حدیث سےہی ملیں گے۔ مگر ان کے سرسری مطالعے سے نہیں بلکہ ان کے افکار کی روح میں اتر کر۔ اس کے علاوہ الشمائل النبویہ اور کنز العمال جیسی کتابوں کے حوالوں سے نسبت و محبت کی باتیں بھی ہماری اردو نعت کے اجزائے ترکیبی میں سےہیں۔ مگر عروس فاروقی نے جو بات بھی کرنا چاہی ہےوہ مکمل ہے۔ کوئی بات بھی آیات کے ٹکڑوں کے حوالوں سےفی بطن شاعر نہیں رہتی۔ بلکہ ان کی نعت کو پڑھ کرپھر سے ان آیات کےترجمے کو پڑھنےکیلئے دل مچلتاہے۔ موصوف نے اپنی نعت کو مختلف صنعتوں کے استعمال سے خوبصورت بنایا ہے۔اس نے نعت میں نئےموضوعات پیدا کرنے کیلئے یا نئے انداز کی تخلیق کیلئے جو بن پڑا، کیا۔اور یہی بات خوش آئند ہے کہ ا س کے ہاں اسلو ب و بیاں اور فکر و فن کے وسیع امکانات ہیں۔

عشقِ احمد ملے جو بگڑوں کو

دیکھتے دیکھتے سنورتے ہیں

صاحبزادہ محمد نجم الامین عروس فاروقی نے جو بات بھی کہی ہےپورے ایقان اور مکمل ایمان سے کہی ہے۔یوں لگتا ہے جیسے وہ شاعری نہیں کر رہے بلکہ گواہی دے رہے ہیں۔ سچی گواہی، جسے سن کرہمیں ان کے عقیدے اور مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کی نسبت کا بھی کہ کلامِ عروس اس پر دال ہے۔ موصوف اس نسبت، عشق،سچائی اور نورِ حب نبی کو جو کہ انہیں وراثت میں ملا ہے اپنےبچوں، نسلِ نو اور اپنے قا ری میں بانٹ رہے ہیں۔ اور بڑے وقار سے اس بات کا اظہار بھی کرتےہیں:

ہم سکھاتے ہیں بچوں کو عشق نبی

یہ بزرگوں سےہم کو وراثت ملی

الغیاث کے خالق نےجو کچھ بھی خلق کیاہے وہ مشعلِ الفتِ سرکار کی روشنی میں کیا ہے۔ وہ اسی لَو کو ہر اک دل میں جگانے کیلئے نعت لکھ رہے ہیں۔ان کا یقینِ کامل ہےکہ ان کو بڑی نسبت حاصل ہے تو یقینا وہ کام بھی بڑا ہی کریں گے۔اپنی اس کتاب میں انہوں نےجہاں نعتیں لکھی ہیں وہاں"چارے یار رسول دے چار گوہر"، مناقب بھی لکھے ہیں اور" مدح پیر دی حب دے نال کریے"بزرگوں کی سنت پہ بھی عمل کیا ہے۔ منقبت لکھتے ہوئے تخلیق کار نےخلفائےراشدین کے فرمانِ رسول پر عمل کےنقوش کو یوں ابھارا ہےکہ شعر میں جان پڑ گئی ہے۔

کہا مصطفےٰ نے جو بن پڑے کرو خرچ دین کے واسطے

کہا یارِ غار نے:لیجیے مِرے گھر کا جتنا بھی مال ہے

اسی طرح اپنے پیرو مرشد کی تعریف کرتے ہوئے بھی انہوں نے شمس و قمر کےدو الفاظ سے اپنی عقیدتوں کا اظہار کر دیا ہے۔ سلام لکھتے ہوئے بھی ان کے قلم نے اپنی انفرادیت کو یوں قائم رکھنے کی کوشش کی ہے

فخرِ اسحق و براہیم ،درود

رشک دائود و سلیمان ،سلام

جگر و جان و زر و مالِ عروس

تیرے صدقے ترے قربان، سلام

عروس فاروقی کی نعت پر نور الفاظ سے مزین اور فکر سے بھری پڑی ہے۔ ہو بھی کیوں نہ کہ ان کی پرورش بھی پرنور علمی ماحول، نعتیہ ترانوں، درود و سلام کی صدائوں، صحابہ کرام کے عقیدت بھرے ذکر اور اہلبیت کی محبت کی باتوں کے نور میں ہوئی ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی نعت مستقبل کے نعتیہ دور کاعنوان ہو گی۔

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عروس فاروقی | الغیاث