الغیاث۔ محبت اور مناجات کا اظہاریہ : ایک مطالعہ ۔ محمد یونس تحسین

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


تحریر: محمد یونس تحسین

عروس فاروقی صاحب نے اصحاب و اسلاف کی سنت کو اپناتے ہوئے حضورﷺ سے محبت کے اظہار والہانہ انداز میں " الغیاث" کی شکل میں کیا ہے۔ جسے اکادمی فروغِ نعت اٹک پاکستان نے نشر کر کے بہت سے عشاق کے دلوں کی تسلی کا سامان کیا ہے۔

الغیاث ۔۔ کتاب کیا حمد ، ثنا ، محبت ، عقیدت، نسبت ، تیقن اور مناجات کا بھر پور اظہاریہ ہے۔ زبان کے اعتبار سے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا حصہ فارسی اور دوسرا حصہ اردو تخلیقات پر مشتمل ہے۔ اور تخلیقات کے لحاظ سے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، حمد ، نعت اور منقبت ۔ کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری میں استغاثہ کا پہلو زیادہ ہے مگر استغاثہ کے ساتھ ساتھ محبت اور ایقان کی جھلک بہت شاندار ہے۔ اشعار دیکھیں:

غلام از خوف یکسر دور باشد

کہ آقا رحمۃ للعالمیں است

عروسا ! می رسد نعتم بہ طیبہ

یقیں است و یقیں است و یقیں است


میرا ایقان ہے، خیال نہیں

مصطفیٰ کی کوئی مثال نہیں


غم کے طوفاں ہمارا بگاڑیں گے کیا

ناؤ مضبوط ہے ، ناخدا خوب ہے


وہ خدا کے لاڈلے ہیں نبی انہیں اختیار ملےسبھی

وہ حرام کہہ دیں حرام ہے، وہ حلال کہہ دیں حلال ہے

یہ بات تو طے ہے کہ جناب عروس فاروقی صاحب کو عروض اور زبان پر پوری گرفت حاصل ہےاور یہ سب علمی وراثت ، اسلاف سے نسبت اور عمیق مطالعہ کا نتیجہ ہے ۔ ان کے اشعار ہی ان کی اس صفت پر دلالت کرتے ہیں جس کی مثال دینے کی ضرورت بھی نہیں الغیاث اس کا واضح نمونہ ہے ۔ اشعار زیادہ تر چھوٹی بحروں میں ہیں مگر عام رواج سے ہٹ کر ارکان کا استعمال انہیں منفرد کرتا ہے۔ ایک مثال فعلاتن فعلاتن پر ایک پر کیف حمد "والیٰ ربک فارغب" ہے جس نفاست سے انہوں نے اسے نبھایا ہے وہ داد طلب ہے۔ شعر میں جب تک نغمگی نہ ہو شعر بے کیف سا لگتا ہے مگر عروس صاحب نے کہیں بھی نغمگی کو اپنے کلام سے جدا ہونے نہیں دیا ۔ اشعار دیکھیں:

غم زمانے نے بار بار دیا

آپ نے پیار پیار پیار دیا

آپ کے ذکر نے سکوں بخشا

آپ کی یاد نے قرار دیا

آدمی کھو چکا تھا ساکھ اپنی

آپ نے آ کے اعتبار دیا

ایک نعت جس میں ان کا فن ِشاعری پوری آب و تاب سے چمک کر سامنے آتا ہے۔ قافیہ اور الفاظ کی بنت بہت خوبصورت ہے اور تلفظ کو جس خوش اسلوبی سے نبھایا ہے اس پر وہ داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ پھر اس میں ایسے مضامین لائے ہیں جو ان کہ علم اور فہم و فراست کے عکاس ہیں۔ اس نعت کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔

کیوں نہ سارے فصحا و بلغا کی بس ہو

جبکہ امی لقبی شاہ دقیقہ رس ہو

نہ تنافر، نہ غرابت، نہ ہی ضعفِ تالیف

ایسا معجز ہے بیاں ، کس لئے پیش و پس ہو

ان کے فرمان کی تردید کی جرات کس کو

وقت کا بو علی سینا ہو کہ اقلیدس ہو

باغِ ہستی میں بہ ہر سمت ہے جلوہ ان کا

لالہ ہو ، گل ہو کہ چنبیلی ہو یا نرگس ہو

دن نکلتا ہو تو "والصبح "مرے لب پہ رہے

رات ڈھلتی ہو تو " والیل اذا عسعس" ہو

فارسی ہو یا اردو انہوں نے ہر دو زبان میں قرآنی آیات سے اقتباسات کو اس نفاست اور سلیقے سے اپنے اشعار میں پرویا ہے گویا زیور میں موتی جڑے ہیں۔گو یہ سلیقہ ہمارے پرکھوں سے روایت ہے مگر اسے خوش اسلوبھی سے شعر کرنا کوئی کوئی جانتا ہے۔ الغیاث میں جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت اور ان کی یاد کا پہلو نمایاں ہے وہاں ان کے کلام میں مناجات کا پہلو بھی زور و شور سے جلوہ فرما ہے۔ رحمتِ دو جہاں کی یاد اور محبت میں آنسو بہانا امتِ محمدی کا خاصہ ہےآپ کے روضہ پر حاضری اور مدینہ طیبہ کی خاکِ شفا کے لئے کون مسلمان ہے جو دعا گو نہیں ۔ عشاق کی دعا ئیں شروع ہی ان کے روضے کے دیدار سے ہوتی ہیں انہیں دنیا و ما فیہا کے خزانوں سے کیا غرض انہیں تو حضور کی ایک جھلک درکار ہے ۔ اپنی اسی طلب کے پیش نظر عاشق مناجات بجا لاتا ہے:

صیا نے ! یا نبی اللہ ! صیانے!

کہ شیطانِ لعیں اندر کمیں است


وقت رحلت بود نامِ او بر زباں

ایں مناجات صبح و مسا می کنم


قرب اپنا خدا را مجھے بخش دو

دوریوں کو گھٹا دو شہِ دوسرا


یا نبی نور کا بقعہ دیکھوں

ہو اجازت کہ مدینہ دیکھوں

تیرے نعلین کو چوما جس نے

وہ گلی دیکھوں وہ کوچہ دیکھوں

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تو اولین ہے ہی ان کے لئے مگر اصحاب رسول اور اولیاء کرام سے محبت کی سرشاری ان کے کلام میں ایک سرمدی احساس کو اجاگر کرتی ہے اور یہی وہ نسبت ہے جو ان کے لئے وسیلہ سخن بھی ہے اور یقینا وسیلہ بخشش بھی۔

راہِ سعدی و جامی طریقِ من است

روحِ حسان را پیشوا می کنم

حمد اور نعت کے ساتھ منقبتِ اصحاب اکرام اور اولیا عظام سے بھی انہوں نے اپنے دامن کو خوب بھرا ہے اور یہی طریقہ ایک سچے مسلمان کا شیوہ ہے۔ خلفا ءِ راشدین ، شیخ عبدالقادر جیلانی، علم دین فاروقی، امام احمد رضا خان، مولانا حسن رضا خان ، خواجہ فخر الدین سیالوی، پیر سید مراتب علی شاہ ، مولانا الیاس عطار قادری اور اپنے والدِ محترم صاحبزادہ پیر فیض الامین فاروقی صاحب ان کی منقبت کا خاص جزو ہیں ۔"الغیاث " میں کئی ایسے اشعار ہیں جن پر تفصیلی گفتگو کی جا سکتی ہے مگر طوالت بے زاری کو جنم دیتی ہے ۔ میں اسی لئے اوراق کو ان خوبیوں کے بیان سے تشنہ رکھنا چاہتا ہوں تا کہ احباب اس کتاب کو خود پڑھ کر استفادہ کریں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ " الغیاث" نظر انداز ہونے والی کتاب نہیں دعا ہے کہ اللہ کریم ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔ اللھم آمین ۔۔انہیں کا ایک شعر ہے:

در لحد جسمِ من سلامت بود

بہرِ نعتِ نبی فنا نہ شدم

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عروس فاروقی | الغیاث