الغیاث ۔ عروس فاروقی

نعت کائنات سے
(الغیاث سے رجوع مکرر)
Jump to navigationJump to search


Tem alghias.jpg

'الغیاث عروس فاروقی کا پہلا باقاعدہ حمدیہ، نعتیہ اور منقبتیہ مجموعہ ہے جو دسمبر2015 میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ کلام پر گفتگو کرتے ہوئے محمد یونس تحسین لکھتے ہیں ۔

"عروس فاروقی صاحب نے اصحاب و اسلاف کی سنت کو اپناتے ہوئے حضورﷺ سے محبت کے اظہار والہانہ انداز میں " الغیاث" کی شکل میں کیا ہے۔ جسے اکادمی فروغِ نعت اٹک پاکستان نے نشر کر کے بہت سے عشاق کے دلوں کی تسلی کا سامان کیا ہے۔ الغیاث ۔۔ کتاب کیا حمد ، ثنا ، محبت ، عقیدت، نسبت ، تیقن اور مناجات کا بھر پور اظہاریہ ہے۔ زبان کے اعتبار سے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا حصہ فارسی اور دوسرا حصہ اردو تخلیقات پر مشتمل ہے۔ اور تخلیقات کے لحاظ سے اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، حمد ، نعت اور منقبت ۔ کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری میں استغاثہ کا پہلو زیادہ ہے مگر استغاثہ کے ساتھ ساتھ محبت اور ایقان کی جھلک بہت شاندار ہے۔ اشعار دیکھیں:

غلام از خوف یکسر دور باشد

کہ آقا رحمۃ للعالمیں است

عروسا ! می رسد نعتم بہ طیبہ

یقیں است و یقیں است و یقیں است


میرا ایقان ہے، خیال نہیں

مصطفیٰ کی کوئی مثال نہیں "

جملہ حقوق اور اشاعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شاعر : عروس فاروقی

کتاب : الغیاث۔ حمدیہ، نعتیہ اور منقبتیہ مجموعہ

تاریخی نام : ’’گلشنِ منظوم‘‘ 1436ھ

سال اشاعت : دسمبر2015

سرورق : سید شاکر القادری

کمپوزنگ : عروس فاروقی

صفحات کی تعداد : 128

قیمت : 200 روپے

ناشر : اکادمی فروغ ِ نعت ، اٹک

کلاموں کی تفصیل[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

فارسی کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حمد : 1 | نعت : 7 | منقبت: 4 | قطعہ : 2

اردو کلام[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حمد : 5 | نعت : 37 | منقبت: 15


اہداء[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بحضور صاحبزادہ پیر فیض الامین فاروقی چشتی سیالوی

انتساب[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

بنام حضرت پیر سید محمد مراتب علی شاہ چشتی سیالوی رحمۃ اللہ علیہ

قطعہ تاریخِ اشاعت[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مل رہا ہے مِرے سخن کو ظہور

ایک مدّت سے جو کہ تھا مستور


ہاں جبھی تو میں آج ہوں شاداں

ہاں جبھی تو میں آج ہوں مسرور


مہربانی ہے شاہِ بطحا کی

اور فضل و عطائے ربّغفور


ذی مراتب قمرکا فیض ہے سب

ورنہ مجھ میں کہاں یہ عقل و شعور


ٹھہریں صفحات دیدہ زیب اِس کے

جانفزا اِس کے ہوں حروف و سطور


کاش حاصل ہو اِس سے کیف وسکوں

کاش اِس سے ملے نشاط و سرور


حُبِّ احمد سے جگمگائیں دل

بغض و نفرت کی ظلمتیں ہوں دور


سوچتا کیا ہے اِس کا سالِ ظہور

کہہ عروس ؔ ’’۱لغیاث ہے پُر نور‘‘

2015

بقلم صاحب کتاب

پیش لفظ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عروس فاروقی عرض گذار ہیں کہ

الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الامین

ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب

یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے

قارئین کرام!السلام علیکم !یہ کتاب ’’الغیاث‘‘ میرا نعتیہ مجموعہ ہے۔ اگر آپ اِس میں کوئی ایسی بات دیکھیں جوآپ کے خیال میں بارگاہِ رسالت کے لائق نہیں تو برائے مہربانی مجھے آگاہ فرمائیں۔ نوازش ہوگی !

یہ بات اس لئے عرض کررہا ہوں کہ مجھ سا کم علم اور بے بس آدمی بارگاہِ رسالت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا،یقیناً کئی مقامات پر خامیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ جب الطاف حسین حالی کا مذکورہ شعر یاد آتا ہے تویقین جانیں ہمت ہی نہیں پڑتی کہ اُس بارگاہ میں کچھ عرض کروںجو عرش سے نازک تر ہے اور جہاں حضرت  جنید بغدادی اور حضرت بایزیدبسطامی جیسی ہستیاں بھی دم سادھ کر حاضر ہوتی ہیں۔

میں نے ممدوحِ یزداں صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عقیدت کے نذرانےاگر پیش کرنے کی کوشش کی ہے تو علامہ عارف جاوید نقشبندی اوردیگردوستوں کی ہمت افزائی کی وجہ سے۔ ورنہ نعت کہنا صاحبِ حال لوگوں کا کام ہے۔ مجھ سے بے عمل انسان کا کام نہیں جو صاحبِ قال بھی نہیں۔

نعت گو شعراء کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزِ قیامت اُس صف میں کھڑے ہوں جس میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود ہوںگے ۔ لیکن مجھے تو اس بات کی خواہش کرتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوتا ہے کہ ایسی خواہش کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ حضرت شیخ سعدی ، حضرت امام بوصیری اور مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہم جیسے بزرگوں کے ساتھ کھڑے ہونا کیا کوئی چھوٹی بات ہے؟؟؟

ہاں ! مجھے اگر قیامت کے دن امامِ نعت گویاں الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے قدموں میں جگہ مل جائے تو اپنے لئے بہت بڑی سعادت گردانوں گا۔ اگر قارئین سمجھیں کہ یہ کتاب، مستطاب اور لائق تحسین ہے تو یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا کرم ہے۔ میرا کوئی کمال نہیں۔"

تقاریظ[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

تقاریظ میں مکمل تقریظ کے بجائے صرف ایک ایک اقتباس ہی دیا جا رہا ہے ۔

نجمِ چرخِ ثنا  : عباس عدیم قریشی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عروسؔ فاروقی کی زیرِ نظر تصنیف ’’الغیاث‘‘ در اصل حمد و نعت اور مناقب اولیاء پر مشتمل مجموعۂ کلام ہے جو نہ صرف انکی ادبی ثقاہت، قادر الکلامی، خوش گوئی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انکے فکری زاویوں اور جہتوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ ’’الغیاث‘‘ کی ابتداء میں انھوں نے اپنا فارسی کلام شامل کیا ہے اور اس کے بعد اردو کلام۔ ہر دوزبانوں میں ان کی صلاحیتیں قابلِ رشک بھی ہیں اور قابلِ تحسین بھی کہ جہاں اردو زبان پر ان کی گرفت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں فارسی زبان میں ان کا بے ساختہ کلام اور انتہائی رواں ، سادہ سلیس طرزِ نگارش تحسین طلب ہے۔ عباس عدیم قریشی

پروفیسرفیض رسول فیضان[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

عقیدہ و عقیدت کا خوش گوار امتزاج اور فکر وفن کا حیرت انگیز انطباق، حضرتِ عروسؔ کے تابناک مستقبل کی گواہی دے رہا ہے، بندش کی چستی اور عروضی مہارت سونے پر سہاگے کے مترادف ہے۔ روایت کی زمین میں جدت کے گلکاریاں بھی فرحت افزا ہیں۔ مزید برآں شاعر کی فارسی قادر الکلامی خانقاہی نظام کے ساتھ اُن کے رچے ہوئے ربط و رسوخ کا پتہ دے رہی ہے اور بعض فارسی اشعار تو بلا مبالغہ ایسے کیف آور اور روح پرور ہیں کہ سعدی و حافظ اور رومی و جامی جیسے اساتذہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

سید شاکر القادری چشتی نظامی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

زیر نظر مجموعہ ان کا اولین اظہاریہ ہے جو ان کے اندرایک مدت سے مستور اور منتظر ظہور تھا۔ انہیں اپنےفن شعر گوئی کےاس ظہورِ اول کا شدت سے احساس ہے اور وہ اس کواللہ رب العزت کا کرم خاص مانتے اور سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ورافت کا عکس جانتے ہیں اپنے فن شعر کے اس اولین اظہاریہ سے ان کا مقصد نمود و نمائش نہیں ،مطمح نظر داد خواہی نہیں اور نہ ہی وہ کسی دنیاوی واہ واہ اورستائش و آفرین کے رسیاہیںبلکہ ان کا مقصدتو اطمینان قلبی کی دولت فراواں کا حصول ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اظہار فن کے ذریعے دل جگمگا اٹھیں اور بغض و نفرت کی ظلمتیں دور ہوجائیں۔ ایسی ہی تمناؤں کو دل میں سموئے ہوئےوہ مکینِ گنبد خضرا کے حضور دامن التجا پھیلائے ”الغیاث“ ”الغیاث“ کی دردمندانہ صدا بلند کر رہے ہیں۔


بیک ٹائیٹل پیج[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

سید شاکر القادری چشتی نظامیکا ایک جملہ

ان کی نعت کے موضوعات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ، حسن صورت و حسن سیرت کا بیان، طیبہ مقدسہ کا تذکرہ ، مدینے حاضری کی شدید تمنا، اسلام کے غلبے کی خواہش، امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تذکرہ اور استغاثہ اور نعت سرمایۂ زندگی جیسے عنوانات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

کتاب کے بارے دیگر آراء اور مضامین[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

چراغ ۔ شاکر القادری | لاشریک ۔ مظفر وارثی | باریاب ۔ انور مسعود | نسبتیں ۔ خورشید رضوی

بیرونی روابط[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

حلقہ ارباب ذوق گجرات کے تحت "الغیاث کی تقریب رونمائی