اقبال حضور رسالت مآب میں ،- ڈاکٹر فتح محمدملک

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


ABSTRACT[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

Professor Fateh Muhammad Malik has hinted towards some intellectual points of Iqbal's poetry to arouse sentiments of freedom of Muslim Ummah from all forces whether they are physical or mental by strengthening faith in only One Power of Almighty Allah as taught by the Holy Prophet Muhammad (S.A.W.). Iqbal had alerted people from bad effects of slavery. The progress whether secular or spiritual, according to Iqbal, is in un-conditional obedience of Holy Prophet (P.B.U.H). The devotional poetry of Iqbal contains treasure of pure love of the Holy Prophet with sympathetic suggestions to strive hard for eliminating evils from the society with the power of such kind of love.

پروفیسر فتح محمد ملک۔آسلام آباد

اقبال ،حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

ہر چند اقبال نے رسمی معنوں میں کبھی نعت نہیں کہی تاہم عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا یہ عالم ہے کہ اُن کا تخیل بار بار انھیں بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم میں لے جاتا ہے، جہاں وہ ملتِ اسلامی کی زبوں حالی پر فریاد کناں نظر آتے ہیں۔ہوتا یوں ہے کہ جب وہ قومی ، ملّی اور انسانی مصائب پر غور و فکر میں منہمک ہوتے ہیں تو اچانک اُنھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات والا صفات تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی محسنِ انسانیت شخصیت کے رُوپ میں اچانک یاد آ جاتے ہیں اور وہ زیرِ نظر موضوع کی مناسبت سے نہایت والہانہ انداز میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے فیضان کا ذکرکرنے لگتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال بالِ جبریل کی وہ غزل ہے جس کے پہلے دو شعر انسانی شخصیت و کردار پر غلامی اور آزادی کے اثرات پرغوروفکر سے عبارت ہیں:

غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حُسنِ زیبائی سے محرومی

جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا

بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر

کہ دُنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

بعد کے اشعار میں برطانوی استعمار سے پنجہ آزمائی میں یدِ بیضا کی اہمیت اُجاگر کرتے وقت اُنہیں اچانک وہ مبارک ہستی یاد آ جاتی ہے جس نے انسان کو ہر نوع کی غلامی سے آزاد کر دیا تھا۔چنانچہ اُن کی زبانِ قلم پر درج ذیل مقبولِ عام نعتیہ اشعار رواں ہو جاتے ہیں:

وہ دانائے سبُل، ختم الرسل، مولائے کُل جس نے

غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر

وہی قُرآں، وہی فرقاں، وہی یسیں، وہی طہ

اِسی طرح جب وہ فلسطین کانفرنس کے دوران دُنیائے اسلام کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں اور نامور دانشوروں سے مل کر اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ: ’قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں‘تو وہ تڑپ اُٹھتے ہیں اور اُن پر درج ذیل نعتیہ اشعار نازل ہونے لگتے ہیں:

لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب

گُنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرہِ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقر جُنید و بایزید تیرا جمالِ بے نقاب

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے

عقل، غیاب و جستجو! عشق، حضور و اضطراب

تیِرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے

طبع زمانہ تازہ کر جلوہِ بے حجاب سے!

ہمار ی دُنیانورِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے محروم ہو کر تِیرہ و تار ہو چکی ہے۔چنانچہ ہمارا جہاں ’ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است‘۔اقبال سراپا نگاری کے سے رسمی موضوعات سے اعتنا نہیں کرتے۔اُن کی توجہ ہمیشہ باطنی اور خارجی زندگی میں اُس انقلاب پر مرکوز رہتی ہے جوآنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکی مبارک زندگی اور تعلیمات سے پھوٹا تھا-درج بالا حوالہ جات میں ع:

ذرہء ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

اور ع:

غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا

کے سے مصرعے اُس انقلاب کے نقیب ہیں جس کے اعجاز سے گری پڑی اور پامال خلقِ خدا میں خدا کا جلوہ دیکھا جانے لگا تھا- حریّت، اخوت اور مساوات کی انسانی اقدار کی بازیافت کی تمنّا اقبال کو بار بار آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی انقلابی تعلیمات کی جانب متوجہ کرتی ہے اور وہ بار بار مگر ہر بار بہ اندازِ دگر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی پیروی کی تلقین کرتے ہیں:

طرحِ عشق انداز، اندر جانِ خویش

تازہ کن بامصطفی پیمانِ خویش

اقبال آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلمکے ظہورکو شبابِ زندگی سے تعبیر کرتے ہیں- ارتقائے حیات کے ساتھ ساتھ ہر خطہء زمین اور ہر عہد کی روحانی ضروریات کے پیشِ نظر وقتا فوقتا انبیائے کرام ظہور کرتے رہے- آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے زندگی کے ارتقاء کی اُس منزل پر ظہور فرمایا جب زندگی شعور کی پختگی کی منزل پر پہنچ چکی تھی:

شعلہ ہائے اُو صد ابراہیم سوخت

تا چراغِ یک محمد بر فروخت

(مثنوی اسرار و رموز)

یہی وجہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ایک ایسا پیغامِ ربانی لے کرتشریف لائے جوآئندہ تمام زمانوں اور دُنیا کی ساری زمینوں کے لیے ابدی پیغامِ ربانی کی حیثیت رکھتا تھا- یہی وجہ ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہیں اور اس انداز سے کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اسلام کے ظہور کوعقل کا ظہور قرار دیتے ہوئے تمام انسانوں کو اسلام کے پیغام کی جانب متوجہ کرتے ہیں-

اپنی شاعری کے دورِ اوّل میں وہ ملتِ اسلامیہ کی انتہائی اندوہناک صورتِ حال کی چارہ گری کی تمنا میں کبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی خدمتِ اقدس میں سراپا فریاد نظر آتے ہیں اور کبھی اللہ میاں کے حضورشکوہ سنج :

حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی

تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی

ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں

وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی

مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں

جو شے ہے اِس میں وہ جنت میں بھی نہیں ملتی

جھلکتی ہے تیری اُمت کی آبرو اِس میں

طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم رسالتِ مآب میں)

اللہ میاں سے اسی نوع کے شکوہ کا جواب فریاد کی بجائے عمل کی تلقین ہے اور عمل بھی وہ جس سے پستی میں ٹھوکریں کھاتی ہوئی مخلوق بلند و بالا مقام پر فائز کی جا سکے :

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے

اور:

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری

مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری

ما سوی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیر ے ہیں

(جوابِ شکوہ)

یہاں سے اقبال کی فکر و نظر کادُوسرا دور شروع ہوتا ہے۔اب اُنہیں شعوری ارتقاء کے اُس مقام پر رسائی حاصل ہو چکی ہے جہاں اُنہیں اِس حقیقت کا عرفان حاصل ہے کہ دُنیائے اسلام کی تمام تر زبوں حالی کاسبب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے بے وفائی ہے اور اس زوال کو عروج میں بدلنے کا واحد ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم سے وفا ہے۔اس وقت مجھے ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ میں شامل وہ نظم یاد آ رہی ہے جس کے آغاز میں اقبال اس بات پر نازاں نظر آتے ہیں کہ اُن کی فکر نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے احسانات کی گود میں پرورش پائی ہے۔ یہاں وہ اپنی زندگی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے فیضان کو یوں پیش کرتے ہیں جیسے فقط اقبال کی ذات ہی نہیں بلکہ پوری کائنات آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے احسانات کی ثناخواں ہے۔ ان سارے احسانات کو اگر ہم ایک فقرے میں بیان کرنا چاہیں تو وہ کچھ یوں ہوگا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم اسلام کا جو انقلابی پیغام لائے ہیں اُس نے دُنیائے انسانیت کو روشن خیالی اور سائنسی شعور کی نعمت سے مالا مال کر دیا ہے، پرانے بُت جلا کر راکھ کر دیئے ہیں اور یوں پرانی کائنات کو فرسودگی کے چُنگل سے رہائی دلا کر اسے تجدید و ارتقاء کے نِت نئے مراحل سے آشنا کر دیا ہے:

سوختی لات و مناتِ کہنہ را

تازہ کر دی کائناتِ کہنہ را

در جہانِ ذکر و فکرِ انس و جاں

تو صلوٰتِ صبح، تو بانگ اذاں

لذتِ سوز و سرور از لا الہ

در شبِ اندیشۂ نور از لا الہ

نے خداہا ساختیم از گاؤخر

نے حضورِ کاہناں افگندہ سر

نے سجودے پیشِ معبودانِ پیر

نے طوافِ کوشکِ سلطان و میر

ایں ہمہ از لطفِ بے پایانِ تست

فکرِ ما پروردہ احسانِ تست

ان اشعار میں اسلام کا تاریخی کردار نمایاں کرتے وقت اقبال نے بطورِ خاص اس حقیقت کو اُجاگر کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذاتِ بابرکات نے اِنسان کو پتھروں اور درختوں کی پوجا سے آزاد کرایا، صرف لات و منات ہی نہیں بلکہ گائے اور گدھے کی عبادت میں مصروف آدمی کو لا الہ کا نعرہ بلند کر کے اِن جھوٹے خُداؤں کے جادوسے رہائی بخشی اور سب سے بڑھ کر بادشاہوں، ملاؤں اور جاگیرداروں کی خُدائی سے انکار کا حوصلہ بخشا۔ گویا اسلام کا ظہور انسانی مساوات اور سلطانی جمہور کے تصورات کا عملی ظہور ہے۔اسلامی فکر کی نئی تشکیل کے موضوع پراپنی کتاب بعنوان: "The Reconstruction of Religious Thought in Islam" میں لکھتے ہیں:

"The Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world. In so far as the source of his revelation is concerned he belongs to the ancient world; in so far as the spirit of his revelation is concerned he belongs to the modern world. In him life discovers other sources of knowledge suitable to its new direction. The birth of Islam is the birth of inductive intellect. In Islam prophecy reaches its perfection in discovering the need of its own abolition. The abolition of priesthood and hereditary kingship in Islam, the constant appeal to reason and experience in the Qur'an, and the emphasis that it lays on Nature and History as sources of human knowledge, are all different aspects of the same idea of finality."(1)

درج بالا پیراگراف میں ختمِ نبوت کے تصور کی تہذیبی اور سائنسی تفسیر کرتے وقت اقبال نے اپنے ایمان پرور اور محکم استدلال کے ساتھ یہ کہا ہے کہ اسلام میں نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی خاندانی بادشاہت اور ملاّئیت کے ادارے بھی ختم ہو کر رہ گئے ہیں- چنانچہ اسلام کا ظہور عقل کے ظہورسے عبارت ہو کر رہ گیا ہے- مثنوی اسرار و رموز میں اس موضوع کو مختلف اور متنوع انداز میں بیان کیا گیا ہے- درج ذیل اشعار میں اسلام کا مقصود انسانی اخوت ، مساوات اور حریّت کی اقدار کا فروغ و استحکام بتایا گیا ہے:

بود انسان در جہان انسان پرست

ناکس و نابود مندو زیردست

سطوت کسری و قیصر رہزنش

بندہا در دست و پا و گردنش

کاہن و پاپا و سلطان و امیر

بہریک نخچیر صد نخچیر گیر

صاحب او رنگ و ہم پیر کنشت

باج برکشت خراب او نوشت

از غلامی فطرت او دون شدہ

نغمہ ہا اندر نئے او خون شدہ

تا امین حق بحقداران سپرد

بندگان را مسندِ خاقان سپرد

(در معنی اینکہ مقصود رسالت محمدیہ تشکیل و تاسیس حریت و مساوات اخوت بنی نوع آدم است)

کلامِ اقبال میں ایک بڑی نادر و نایاب نظم جلوہ گر ہے جس میں ہجو بلکہ واسوخت کے پیرایہء اظہار میں عالمِ انسانیت پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے احسانات گنوائے گئے ہیں-یہ نظم جاوید نامہ میں فلکِ قمر کی وادیء طواسین میں اُس مقام پر دی گئی ہے جہاں مختلف پیغمبروں کا تذکرہ کیا گیا ہے-یہاں طاسینِ محمد اُس انقلاب کے فیوض و برکات کی آئینہ دار ہے جو ظہورِ اسلام کی دین ہیں-یہاں اقبال نے ابوجہل کی رُوح کو حرمِ کعبہ میں نوحہ کناں دکھایا ہے- ابوجہل اسلام کے اعجازسے دورِ جاہلیت کے انسانیت سوز اصول و اقدار کے نیست و نابود ہو جانے پرنالہ زنی میں مصرورف ہے-اس طویل نظم کے فقط چند اشعار درج ذیل ہیں:

سینہِ ما از محمد داغ داغ

از دم او کعبہ را گل شد چراغ

از ہلاک قیصر و کسری سرود

نوجوانان راز دست مار بود

ساحر و اندر کلامش ساحری است

این دو حرف لا الہ خود کافری است

تابساط دین آبا در نورد

با خداوندان ما کرد آنچہ کرد

پاش پاش از ضربتش لات و منات

انتقام از وی بگیر ای کائنات

مذہب او قاطع ملک و نسب

از قریش و منکر از فضل عرب

در نگاہ او یکے بالا و پست

با غلام خویش بر یک خوان نشست

قدر احرار عرب نشناختہ

با کلفتان حبش در ساختہ

احمران با اسودان آمیختند

آبروے دودمانی ریختند

این مساوات این مواخات اعجمی است

خوب میدانم کہ سلمان مزدکی است

دورِ جاہلیت میں رنگ و نسل ، آقا و غلام اور عرب و عجم کے امتیازات انسانی زندگی کو جہنم زار بنائے ہوئے تھے- طلوعِ اسلام نے انسانوں کے درمیان ان طبقاتی ، جغرافیائی اور نسلی امتیازات کو مٹا کرانسانی مساوات ،اخوت اور حریّت کی اقدار کو رائج کیا-اس اسلامی انقلاب نے جہاں خاک نشینوں کو سربلندی اور سرفرازی بخشی وہاں دورِ جاہلیت کی معاشرت اور معیشت کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی- اِس نظم میں ابوجہل کوماضی کے اُس استحصالی اور استبدادی نظام کی موت پر واویلا کرتے ہوئے یوں دکھایا گیا ہے کہ جہاں دورِ جاہلیت کی انسانیت سوز روایات کی موت برحق ثابت ہو گئی ہے وہاں اسلام کی انسانیت پرور نئی روایات کے زندگی بخش اثرات نمایاں تر ہو گئے ہیں- یہ بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی خدمت میں ایک نادر و نایاب نذرانہء عقیدت ہے- ایک ایسا نذرانہء عقیدت جو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کے معاشی ، معاشرتی اور روحانی خدوخال کو روشن کر کے اپنے زمانے اور آنے والے زمانے کو اسلام کی حقیقی انقلابی تعلیمات کی جانب متوجہ کرتا ہے-

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اقبال کی فکر اور اُن کا فن نورِ مصطفی سے مستنیر ہے- نسیمِ حجاز ہی اُن کے افکارکی کھیتی کو پروان چڑھاتی اور سرسبز و شاداب رکھتی چلی آئی ہے-شاید یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے دمِ واپسیں بڑی حسرت کے ساتھ کہا تھا کہ:نسیمے از حجاز آید کہ ناید/ سرودِ رفتہ بازآید کہ ناید/ سرآمد روزگارے ایں فقیرے/ دگر دانائے راز آید کہ ناید- ہرچند ہمارے ہاں ابھی تک اقبال کے بعد کوئی اور دانائے راز نہیں آیا تاہم ہماری دُنیا بھی اُمید پر قائم ہے-


مزید دیکھیے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نعت رنگ | کاروان ِ نعت | فروغ نعت | نعت رنگ ۔ شمارہ نمبر 25