اغثنی کا تعارف ۔ ابو الحسن خاور

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search


از ابوالحسن خاور، لاہور


اے شافع محشر ، شہہ ابرار ، اغثنی

اے واقف ِ احوال ِ دل ِ زار ، اغثنی

سرکار مری لاج بھی رکھ لینا خدا را

محشر میں کہوں جب سر ِ دربار اغثنی

اے سید عالم ہے مرا آپ پہ تکیہ

دن رات وظیفہ مرا ’’سرکار‘‘ آغثنی

لجپال! عدیم آپ کے رحمت کا گدا ہے

ہر وقت زباں پرہے یہ تکرار ، اغثنی


محترمی و مکرمی جناب عباس عدیم قریشی صاحب کے نعتیہ مجموعے ’’ اغثنی ‘‘ کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا ۔ حمد سے شروع ہو کر اپنے پیرو مرشد کی منقبت سے مزین یہ سارا مجموعہ عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضری و فراق کا دیباچہ ہے ۔ تاہم حضوری کی کیفیت غالب ہے

چشمِ گدا میں عشق کی بینائی چاہیئے

ہر وقت ہے حضور کا باب عطا قریب


اور جس حضوری کی بات عدیم صاحب نے کی ہے اس میں ایک تسلسل ہے اور یہ کیفییت تشکرو طلب کے جامے میں بار بار نظر آتی ہے


حضور آپ کی مدحتوں کی تصدق

دہن ہے معطر، مرے لب فروزاں


مصیبتیں ہیں تعاقب میں الامان ، شہا

حضور کہہ دیں ناں! عاصی مری پناہ میں ہے


مری آنکھوں میں حضور آپ کی تصویر رہے

طاق خالی ہوں تو تنویر کدھر ہوتی ہے ۔


میری سیہ شبی کا کوئی اور حل نہیں

اے نور لطف ِ شاہ ذرا ڈال روشنی


اظہاریئے میں غزل کا رنگ ہے اور اشعار مسحور کن تغزل سے لبریز ہیں اس رنگ کے کچھ اشعار دیکھئے


جب دوش ِ صبا پر سبک انداز سے جھونکیں

خوشبو کے چلیں گے تو شہا نعت کہوں گا


یہ روسیاہی ءِ اعمال چھٹتی جاتی ہے

انہیں کو سوچتا جاتا ، نکھرتا جاتا ہوں


اے دل ، مریض ِ عشق چل ، دارلشفا کے سامنے

زخم جگر کریں گے اب ، خیر الوریٰ کے سامنے


مرے چارہ گر سے کہہ دو ، مری لیں خبر خدا را

ذرا آکے مجھ س سن لیں ، میری درد کی کتھا وہ


دل کے نالوں پہ سماعت کا کرم ہو اب تو

ضبط کے سیپ میں سیماب ہوئے جاتے ہیں


اس مجموعہ کلام میں ایسی ردیفیں بھی نظر آتی ہیں جن پر نعیتہ اشعار بلند بالا ریاضت اور عمیق کیفیت کے بغیر نہہیں کہے جا سکتے ۔ عدیم صاحبب نے خوشبو، وصل ، شہا، اغثنی ، صبا، روشنی ، مقبولیت ، دیار گل ، قریب، جیسی ردیفوں میں بھی عمدہ اشعار کہے ہیں ۔ نمونے کے لئے میں صرف خوشبو کے چند اشعار پیش کروں گا۔


شرط ، الفت ہے ، عدیم ! آقا کی پائے خوشبو

ان کا ہو دیکھ ، تری سانس سے آئے خوشبو


سارا ماحول تصور سے مہک جاتا ہے

مجھ کو کافی ہے ترا نام برائے خوشبو


میں چھپاتا ہوں چھلکتی ہے یہ آنسو بن کر

عشق احمد کی کوئی کیسے چھپائے خوشبو


روح ِ گلشن ، مرے آقا کا پسینہ ہے عدیم

بوئے احمد سے بنے عطر ، ’’سرائے خوشبو‘‘


نعت گوئی ایک مشکل کام ہے جس میں لغزش چاہے وہ ضرورت شعری کے تحت ہی ہو روا نہیں رکھی جا سکتی ۔ اس صنف میں لکھنے کے لئے کمال مہارت کی ضرورت ہے ۔ اورعباس عدیم قریشی صاحب کی یہ کاوش قابل ستائش ہے کہ سوائے ایک مقام کے جہاں عدیم صاحب نے ’’مرض ‘‘ کو فاع کے وزن پر باندھا ہے مجھے اس میں کوئی بہت بڑا فنی یا علمی سقم نظر نہیں آیا ۔ جس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہے ۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ