استغاثے ۔ عزیز احسن

نعت کائنات سے
Jump to navigationJump to search

Naat kainaat aziz ahsan 10.jpg

شاعر : عزیز احسن

استغاثے بحضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خوار ہے امت، پریشاں حال ہے ہر امتی[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

خوار ہے اُمت، پریشاں حال ہے ہر اُمتی

آدمی کے خون کا پیاسا ہوا ہے آدمی

اہلِ دیں کی زندگی دشوار ہو کر رہ گئی

چاہیے آقاا! عنایت کی نظر بس آپ کی

اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو

…………

آپ کی اُمت میں جذبہ اب وہ پہلا سا نہیں

آہِ مظلوماں سے بھی ذوقِ عمل جاگا نہیں

اہلِ دل کڑھتے ہیں لیکن بس کوئی چلتا نہیں

آپ کے در کے علاوہ کوئی در بھی وا نہیں

اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو


کفر کی یلغار کی حد ہو گئی شاہِ اُمم

ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تیرگی شاہِ اُمم

مٹ رہی ہے آج حق کی روشنی شاہِ اُمم

اب ضرورت ہے دعائے خاص کی شاہُِؐاُمم

اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو


آپ پر روشن ہے حالِ زار اُمت کا حضورا!

روح زخمی تھی، بدن بھی ہو گیا زخموں سے چور

ہو گئی ہر اک سعادت آج اِس اُمَّت سے دور

کاش پھر مل جائے اس اُمَّت کو پہلا سا شعور

اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو


یا شفیعِ روزِ محشر رحمۃً للعالمیں !

چارہ ساز اس قوم کا جُز آپ کے کوئی نہیں

آنکھ ہر اِک نم ہے اس حالت پہ ہر دل ہے حزیں

مٹ رہا ہے خود مسلمانوں کے ہاتھوں اِن کا دیں

اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو


میں سراپا معصیت ہوں، میں مجسم ہوں اثیم

سیرت و کردار کی حاصل نہیں مجھ کو شمیم

آپؐ ہی ہوں گے شفیعِ عاصیاں یومِ عظیم

اُس گھڑی مجھ پر کرم فرمایئے میرے کریم ا!

اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو

……………………………………………………………………………

۹ ذیقعدہ ۱۴۱۵ھ بمطابق ۹ اپریل ۱۹۹۵ء۔ بعد نمازِ ظہر۔ مسجد نبوی میں لکھ کر بحضور سرورِ کونینﷺ پیش کی گئی… عزیزؔ احسن


نکل رہی ہے آہ پھر یہ قلب ِ بے قرار سے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

نکل رہی ہے آہ پھریہ قلبِ بے قرار سے

ملال ہے کہ دور ہوں حضور ا کے دیار سے


حضور ا کے دیار سے میں دور ہوں توکیا ہوا

کہ دل کا سلسلہ تو جڑ چکا ہے اک بہار سے


بہار جس کی رونقیں مدینۃ النبی ا میں ہیں

ہوائیں اس کی آرہی ہیں ساگروں کے پار سے


ملامتوں کے درمیاں ہے دل بھی اس خیال پر

کہ اب تلک نہ کھِل سکا یہ پھول اُس بہار سے


بہارِ جاوداں مرے نبی ا کی خاکِ پا میں ہے

حصولِ خاکِ پا کی آرزو ہے، انکسار سے


نصیحتیں یہ کر رہا ہوں روز اپنے آپ کو

کہ پاک رکھ خیال کو بھی شرک کے غبار سے


یہاں بھی ان کا قرب ایک روز مل ہی جائے گا

اگر بچا رہا گناہِ جہل کے شرار سے


یقیں کا بیج ہو تو زندگی ملے شجر کو بھی

وگرنہ پھل کی آس ہی عبث ہے شاخسار سے


دعا کرو کہ ہوش مند قلب بھی نصیب ہو

چمک اُٹھے ہر ایک حرف جذبِ نعت کار سے


میں نعت کار ہوں مجھے مسرتیں نصیب ہیں

کہ دیکھتا ہوں خلدِ قلب دور کے دیار سے


دلوں کا چین صرف پیرویٔ شاہِ دیں ا میں ہے

عمل کو دو جِلا اسی حسین اعتبار سے



خیال کی طہارتیں ہیں روح کے لیے غذا

کہ زندگی ہے روح و دل کی فکر کے نکھار سے


مدینۃ النبی ا پہنچ کے شاد ہو سکے گا دل

ابھی ملول ہے کہ اَٹ رہا ہے ہر غبار سے


خیال و فکر و فن کا بھی عمل ہی پر مدار ہے

تو رخشِ فن کی دوڑ ہو عمل کے راہوار سے


علامتِ قبولیت ہر ایک لفظ بن سکے

نہائے حرف حرف رحمتوں کے آبشار سے


نبی ا ہیں غایت عَوَالِم اور وجہِ زندگی!

نہیں وہ جس کو تم شریک کر رہے ہوپیار سے


یہاں تک آ کے پھر خیال اور سمت پھر گیا

کہ میں زوال میں پھنسا ہوں اپنے ہی شِعار سے


بُھلا کے اُسوۂ نبی ا میں پستیوں میں گر گیا

میں پستیوں میں گر گیا ہوں منصبِ سُدھار سے


یہ حکم تھا کہ ’’لا تخف‘‘، مگر رہی ڈری ڈری

یہ قوم جس کو پیار تھا کبھی صلیب و دار سے


اثر ہوا نہ قوم پر تموُّجاتِ عصر کا

حصول عبرتوں کا بھی ہوا نہ روزگار سے

امیں بنا کے جس کو رب نے، اقتدار بھی دیا


بُھلا کے دیں، چمٹ گیا وہ صرف اقتدار سے

یہ جستجو کسی طرح عوام ہوں غریب تر


ہوں اہلِ زر تو شاد، ہوں غریب سوگوار سے

زمیں کے غاصبوں سے دوستی ہے شہر یار کی


مگر عجیب بیر ہے غریب کاشتکار سے

جو عدل حکمراں پہ فرضِ عین تھا وہ مٹ گیا


بڑھا ہوا ہے ہر طریق ظلم کا، شمار سے

یہ نعت ’’استغاثہ‘‘ بن گئی تو میں دعا کروں


زوالِ بد نہاد حکمراں کی، کردگار سے

زوال ’’اِس کا‘‘ دیکھنا نصیب ہو ہر ایک کو


نجات مل سکے عوام کو ستم شعار سے


الٰہی اب تو ظالموں کو روزِ بدنصیب ہو

ملیں یہ قصرِ سلطنت سے چل کے صرف دار سے


اگر نصیب میں ہے ان کے خیر رب العالمیں

تو دے ہدایت ان کو جلد روزِ خوش گوار سے


وگرنہ نیک حکمراں سے ان کو جلد ہی بدل

اُتار کر انہیں یہاں کے تختِ اقتدار سے


اگرچہ بے جہت رہا شروع سے خیالِ فن

دعا ہے پائے فکر وفن مرا جِلا بہار سے


یہ عرض ہے حضورا! آپ بھی دعا یہ کیجیے!

کہ ہم نکل سکیں زوالِ دیں کے اِس حصار سے


نشاۃ ثانیہ کا اب طلوع آفتاب ہو!

نکل سکے یہ قوم اس طویل انتظار سے


سیاستِ مدینۃ النبی ا کا عکس دیکھ لیں

یہ اُمتی بھی تنگ ہیں جو اپنے شہریار سے


محبتیں لٹائیں خیرخواہِ قوم پر سدا

جو ہوں دلوں میں نفرتیں تو ہوں سیاہ کار سے


عزیزؔ اتباعِ شاہِ بحر و بر ا کا دھیان رکھ

شباہتِ عمل رہے حبیبِ ا کردگار سے


پیر: ۲۲؍ذیقعد ۱۴۳۶ھ… مطابق: ۷؍ستمبر۲۰۱۵ء



شہرِ طیبہ کا ہے دیوانہ نہ جانے کب سے[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

شہرِ طیبہ کا ہے دیوانہ نہ جانے کب سے

دل کہ ڈھونڈے، وہیں جانے کے بہانے کب سے


اب تو سرکارا! مسلمان پہ ہو چشمِ کرم

میٹ دینے کو ہی درپے ہیں زمانے کب سے


کوئی دیدار کی صورت نکل آئے آقاا!

موت بھی تاک میں بیٹھی ہے سرہانے کب سے


اپنے اعمال کی پاداش میں رسوا ہیں سبھی

گا رہے تھے یہ شفاعت کے ترانے کب سے


وہ جو بھولے تھے ترا نقشِ کفِ پا آقاا!

ہو چکے نقش بہ دیوار نہ جانے کب سے

یاسیت ہی کی رِدا سر پہ مسلمان کے ہے

عزم کے دیپ بجھا ڈالے ہوا نے کب سے


ہم نے دیکھا ہی نہیں عہدِ درخشاں آقاا!

ہم تو اِدبار کے سنتے ہیں فسانے کب سے


ہے نحوست ہی مکافاتِ عمل کی ہر سو

آس کی شمع، لگے آپ بجھانے کب سے


دل تو کڑھتا ہے مگر راہ نہیں ملتی ہے

آ سکا کوئی نہ، گرتوں کو اُٹھانے کب سے

استغاثہ یہ مری سمت سے اس قوم کا ہے

جس کی مظلومی پہ روتے ہیں زمانے کب سے


یانبی ا! اب تو ہو تقدیر بدلنے کی دعا

غیر محفوظ ہیں اُمت کے ٹھکانے کب سے


بت پرستوں کی صفوں میں بھی ہے مسلم شامل

مار ڈالا اسے کافر کی ادا نے کب سے


اب عزیزؔ احسنِ مضطر کا مُداوا کچھ ہو

غل مچا رکھا ہے اس نوحہ سرا نے کب سے


ہفتہ: ۱۱؍صفر۱۴۳۸ھ… مطابق: ۱۲؍نومبر۲۰۱۶ء

کائنات ِ نعت، محدودات میں آتی نہیں[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

کائناتِ نعت ،محدودات میں آتی نہیں

کم نظر کی، اس حقیقت پر نظر جاتی نہیں


مدح دیتی ہے حیاتِ جاوداں افکار کو

کونسی خوبی ہے جو وجدان میں لاتی نہیں ؟


مدحِ آقاﷺ میں جو لکھے جائیں الفاظ و حروف

اُن کی خوشبو دائمی ہوتی ہے لمحاتی نہیں


بھول کر درسِ خودی ، امت رسول اللہ (ﷺ)کی

کونسا در ہے جہاں دامن کو پھیلاتی نہیں؟


سیرتِ سرکارِ دو عالمﷺرہے پیشِ نظر

پیروی اُنﷺ کی کبھی دنیا میں الجھاتی نہیں


روزوشب ہو اُسوۂ خیرالبشر ﷺجب سامنے

لمحہ بھر بھی زندگی پر تیرگی چھاتی نہیں


خوش نصیبی ہے عزیزؔاحسن کہ شعرو شاعری

اب سوائے حمد و نعت و منقبت بھاتی نہیں


بدھ: ۲۵؍صفر۱۴۳۹ھ؁ مطابق:۱۵؍نومبر۲۰۱۷ء


مشہور ہے جہاں میں حضور! آپ کی عطا[ترمیم | ماخذ میں ترمیم کریں]

مشہور ہے جہاں میں حضور! آپ کی عطا

سب ڈھونڈتے ہیں آپ کا شاہا! یدِسخا


کشتی شکستہ، بحر میں طوفاں، اندھیری شب

ایسے میں صرف آپ ہیں امت کے ناخدا


اک دل شکستہ شاعرِاسلامیان ِ عصر

یہ استغاثہ لے کے درِ شہ پہ آگیا


فریاد کی جو لہر دلوں میں اٹھی ہے اب

اس میں ہے عکس ،رنج و غمِ بے پناہ کا


امت کے حالِ زار پہ ہیں اشکباردل

کیسے ٹلے زوال نصیبی کی ابتلا


پستی میں گر کے شاد ہے یہ قوم شاہِ دیں

سیلِ دَول میں،خیر کو، اِس نے بہا دیا


عشرت کدوں میں اہلِ دَول ہیں مگر یہاں

مسکین،پارہے ہیں بد اعمال کی سزا


اشرار بے محابہ گناہوں پہ ہیں مصر

مستضعفین کرب میں رہتے ہیں مبتلا


راہِ سلامتی بھی نگاہوں سے دور ہے

شیطان بن چکے ہیں اب امت کے رہنما


اب توملے نجات شیاطین سے ہمیں

ہر دل میں ہے حضور! یہ خاموش التجا


اخیار، پائیں قوت و جبروت اب یہاں

ہر لمحہ کررہے ہیںمسلماں یہی دعا

امت کی عرضداشت کی تاثیر کے لیے

آمین ان دعاؤں پہ فرمائیں اب شہا!

ہوں مغفرت طلب جو ہمارے لیے حضور!

رحماں کرے قبول ہمارا بھی مدعا


للہ! اک نگاہ کرم ہو عزیزؔ پر

دشتِ حیات میں ہے یہ اب تک شکستہ پا


۱۲؍ربیع الاول۱۴۳۹ھ؁مطابق:یکم دسمبر۲۰۱۷ء